کیا دبئی سے پھر آئے گی کورونا کی وباء ؟ لاکھوں افراد کی ملک واپسی کے بعد کیسے نپٹے گا بیروزگاری کا مسئلہ ؟ کیا معاملے سے نپٹنے کے لئے سرکار تیار ہے ؟
بھٹکل یکم / مئی (ایس او نیوز) یو اے ای کی حکومت کی طرف سے ہندوستانی حکومت پر دباؤ بنائے جانے کے بعدکورونا وبا ء کی وجہ سے وہاں پر پھنسے ہوئے لاکھوں ہندوستانیوں کو واپس لانے کے لئے تیاریاں شروع کی گئی ہیں۔لیکن تشویش کی بات یہ ہے کہ گلف سے صرف وہاں پھنسے ہوئے افراد ہی واپس نہیں لوٹیں گے، بلکہ کورونا وباء اور بے روزگاری بھی ان کے ساتھ آنے کے آثار دکھائی دے رہے ہیں۔کیونکہ یو اے ای میں ابھی تک وباء پرقابو نہیں پایا گیا ہے اور واپس لوٹنے والے افراد میں بڑی تعداد ان کی بھی ہوگی جن کی ملازمتیں چھوٹ گئی ہیں۔
اس کے علاوہ بیک وقت اتنی بڑی تعداد میں کورونا وباء والے علاقے سے لوگوں کے آجانے سے ان کے لئے قانون کے مطابق طبی جانچ اور کورنٹاین کرنا سرکاری افسران اور طبی عملے کے لئے انتہائی دردسر کا معاملہ بن گیا ہے۔
یواے ای حکومت نے بنایا دباؤ: ایک اندازے کے مطابق صرف یو اے ای میں ہی تقریباً 30لاکھ ہندوستانی موجود ہیں، جو وہاں کی آبادی کا 30% ہے۔ کچھ ایسا ہی حال دیگر ممالک کے شہریوں کا ہے۔اس میں سے زیادہ تر ملازمت پیشہ افراد نے کورونا وباء کے پس منظر میں وہاں کی حکومت سے مطالبہ کیاتھا کہ کسی طرح انہیں اپنے اپنے ملک واپس بھیجنے کا انتظام کیا جائے۔اور یہ بات یواے ای کی حکومت نے ہندوستان سمیت دیگر ممالک کی حکومتوں کے سامنے رکھی اور دباؤ بنایا کہ متعلقہ حکومتیں ان لوگوں کو واپس لے جانے کا انتظام کرے۔ ورنہ آئندہ دنوں میں ان ممالک کے لوگوں کو یو اے ای میں ملازمت کے لئے آنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
خلیج میں بھٹکل اور ضلع شمالی کینرا کے مریض: جہاں تک یواے ای میں رہنے والے ضلع شمالی کینرا کے باشندوں کی بات ہے ان میں بہت سارے لوگ کووِڈ 19مرض میں مبتلا ہوچکے ہیں۔دبئی میں مقیم بھٹکل کے پانچ چھ لوگوں کی رپورٹس کورونا پوزیٹیو آنے کے بعد زیادہ تر لوگ اب صحت مند بھی ہوچکے ہیں۔اسی طرح کاروار کے سدا شیوگڑھ کی ایک خاتون، اس کا بیٹا،اور اس کا شوہر تینوں کی رپورٹس بھی پوزیٹیو نکلنے کی اطلاعات ہیں اور دبئی کے الگ الگ اسپتالوں میں یہ لوگ زیر علاج بتائے گئے ہیں۔ اس میں سے شوہر کی حالت نازک بتائی گئی ہے۔اس کے علاوہ ضلع کے اور بھی بہت سارے افراد کورونا مرض سے متاثر ہونے اور علاج کے بعد صحت یا ب ہونے کی بات معلوم ہوئی ہے۔یوای اے کے علاوہ بھی دوسرے خلیجی ممالک میں ساحلی علاقوں سے تعلق رکھنے والے کچھ مریض موجود ہونے کی بات بھی پتہ چلی ہے۔
دبئی سے آیا تھا کورونا وائرس: دوسری طرف یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ ریاست کرناٹکا کے ساحلی علاقے، کیرالہ، تملناڈو اور آندھرا پردیش میں کووِڈ 19کی وباء دبئی سے این آر آئی باشندوں کے ذریعے پہنچی تھی۔ بھٹکل شہر کا پہلا کیس بھی دبئی سے آنے والا مسافر ہی تھا۔اس کے بعد دوسرے افراد جو یہاں متاثر ہوئے ان میں سے اکثریت خلیجی ممالک سے سفر کرکے واپس لوٹنے والوں کی ہے۔
اب لاکھوں لوگ آنے والے ہیں: اب ملک واپسی کا سلسلہ شروع ہوتے ہی ایک اندازے کے مطابق مختلف ریاستوں سے تعلق رکھنے والے تقریباً 18لاکھ افرادخلیجی ممالک سے ہندوستان میں داخل ہونگے۔ان میں سب سے زیادہ تعدادکیرالہ والوں کی ہے۔حکومت ہند نے نیوی کے جہاز اور ایئر فورس کے طیارے اس کام میں لگانے کے لئے تیار رکھے ہیں۔رجسٹریشن کی تیاری تیز رفتاری سے چل رہی ہے۔اور ہزاروں لوگ تاحال رجسٹر کرواچکے ہیں۔
طبی طور پرپریشان کن مسئلہ: کرناٹکا سے تعلق رکھنے والے جو این آر آئی باشندے واپس لوٹیں گے ان میں اکثریت جنوبی کینرا، اڈپی اور شمالی کینرا والوں کی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ لاکھوں لوگوں کو ایک ہی وقت میں کورنٹائن کرنا بڑا مشکل مرحلہ ہے۔کیونکہ کووِڈ وائرس کی اب جو حالت سامنے آئی ہے اس میں بہت سارے مریض ایسے نکلے ہیں جو بظاہر بہت ہی صحت مند لگتے ہیں اور ان کے اندر مرض کی کوئی بھی علامت دکھائی نہیں دی ہے، پھر بھی جب ان کا معائنہ کیا گیا تو رپورٹ پوزیٹیو نکلی ہے جسے طبی زبان میں asymptomatic کیس کہا جاتا ہے۔ اب اگر واپس لوٹنے والوں میں ایسے کیس ہوں گے تو پھر ان کے ذریعے دوسروں کو متاثر کرنا اور ان کی وجہ سے کمزوردفاعی سسٹم والے بزرگوں اور بچوں کامتاثر ہونا یقینی ہے۔ نہ جانے ان میں سے کتنے لوگ کورنٹائن قانون کی کس حد تک پابندی کریں گے اور خدانخواستہ چند ایک افراد بھی بے احتیاطی کرتے ہیں اور شہروں کے اندر گھومنا پھرنا شروع کرتے ہیں تو یہ وبائی صورتحال پھر ایک بار قابو سے باہر ہوسکتی ہے۔
بے روزگاری بنے گا بڑا مسئلہ: بیرونی ممالک سے واپس لوٹنے والوں کی وجہ سے ملک میں بے روزگاری کا مسئلہ سنگین ہوجائے گا، کیونکہ معاشی ابتری کی وجہ سے ویسے ہی بے روزگاری کی شرح بے حد بڑھ گئی ہے۔ اب خلیجی ممالک سے برسرروزگار تقریباً 50لاکھ لوگوں میں سے ایک بڑی تعداداپنی ملازمتیں گنوا کر واپس لوٹتی ہے تو پھر ان کے لئے یہاں پر روزگار فراہم کرنا حکومت کے بس کی بات نہیں لگتی۔حکومت اس سلسلے میں کیا اقدامات کرتی ہے اور اس کی یقین دہانیاں کتنی نتیجہ خیز ہونگی، یہ دیکھنے کے لئے اگلے چند مہینوں تک انتظار کرنا پڑ ے گا۔