سعودی عربیہ میں روڈ ایکسڈینٹ کے کیس میں پھنسا ہے بھٹکل کا ایک نوجوان؛ بھٹکل کمیونٹی جدہ اور بھٹکل مسلم خلیج کونسل سے مدد کی اپیل
بھٹکل 14/اپریل (ایس او نیوز) بھٹکل بیلنی کا ایک 28 سالہ نوجوان محمد خالد ابن محمد جعفر گذشتہ چار سال سے سعودی عربیہ کے تيماء میں معمولی روڈ ایکسیڈنٹ کے ایک کیس میں بری طرح پھنس گیا ہے اور عدالت نے اُس پر 34500 ریال (قریب سات لاکھ ہندوستانی رقم ) کا جرمانہ عائد کیا ہے۔ نوجوان کا کہنا ہے کہ اُس کی اتنی استطاعت نہیں ہے کہ وہ اتنی بڑی رقم کی بھرپائی کرسکے، اس وجہ سے وہ چار سال سے اُسی چھوٹے سے دیہات میں قید ہوکر رہ گیا ہے۔ محمد خالد نے سعودی عربیہ میں قائم بھٹکلی جماعتوں سے درخواست کی ہے کہ جرمانہ کی ادائیگی کے تعلق سے اُس کی مدد کریں اور اسے واپس بھٹکل روانہ کرنے میں ہرممکن تعاون دیں۔
اس تعلق سے گفتگو کرتے ہوئے محمد خالد کی والدہ تسلیمہ بانو نے روتے ہوئے بتایا کہ اس کا بیٹا آٹھ سال قبل یعنی 2016 میں سعودی عربیہ کے تيماء میں مزدوری کے لئے گیا تھا، مگر وہ واپس بھٹکل آنے سے قاصر ہے، اس نے بتایا کہ قریب چار سال قبل خالد اپنے کفیل کو کار پر بٹھائے کہیں جارہا تھا جس کے دوران اس کی کار اگلی ایک کار سے ٹکراگئی۔ حادثے میں خالد کے ساتھ مخالف کار پر موجود ایک عربی شخص کو بھی معمولی چوٹ لگی، مگر اُس نے خالد کے خلاف پولس تھانہ میں معاملہ درج کرایا۔ جس کے بعد عدالت نے خالد پر 34500 ریال کا جُرمانہ عائد کیا۔ چار سال سے ہم پریشان ہیں کہ اتنی بڑی رقم کی بھرپائی کیسے ہوگی، ہم نے اپنے قریبی لوگوں کو واقعے سے آگاہ کرایا تھا اور انہوں نے ہمیں یقین دلایا تھا کہ کام ہورہا ہے۔ ہمیں یہی کہا جارہا تھا کہ آج کل میں معاملہ نپٹنے والا ہے۔ لیکن چار سال کا عرصہ گذرنے کے باوجو د کچھ نہیں ہوا، بالاخر بحالت مجبوری خالد نے آج اتوار کو سوشیل میڈیا پر ایک مسیج وائرل کردیا اور اپنی پریشانی بیان کرتے ہوئے عوام الناس سے مدد کرنے کی اپیل کی۔
بیلنی سے تعلق رکھنے والی تسلیمہ بانو اپنے گونگے شوہر اور چھوٹے بیٹے کے ساتھ ڈونگرپلی کے ایک مکان میں کرایہ پر رہتی ہے۔ اس کی بڑی بیٹی کی شادی ہوچکی ہے ۔
ساحل آن لائن سے فون پر گفتگو کرتے ہوئے محمد خالد نے بتایا کہ وہی گھر کا اکیلا کمانے والا تھا، لیکن گذشتہ چار سالوں سے بے روزگار ہونے کی وجہ سے چھوٹے بھائی نے بھٹکل میں تعلیم ادھوری چھوڑ دی اور کسی دکان میں ملازمت پر لگ گیا۔ خالد نے بتایا کہ ابتدا میں دو سال تک وہ اپنے کفیل کے ساتھ رہا، مگر حادثہ پیش آنے اور معاملہ عدالت میں جانے کے بعد کفیل نے کام نہیں دیا جس کی وجہ سے اب چھوٹی موٹی مزدوری کرکے اپنے ایک رشتہ دار کے کمرے میں رہ رہا ہے۔ خالد نے بتایا کہ جب سے وہ سعودی عربیہ پہنچا، اُسی وقت سے اُس کا پاسپورٹ اُس کے کفیل کے پاس تھا، حادثے کا معاملہ عدالت میں پہنچنے کے بعد اُسے انڈیا جانے نہیں دیا گیا، گذشتہ ماہ کفیل نے پاسپورٹ محمد خالد کو لوٹا دیا۔ خالد کے مطابق اب پاسپورٹ بھی ایکسپائر ہوچکا ہے، لیکن عدالت میں جرمانہ کی بھرپائی کے بعد پاسپورٹ کا زیادہ مسئلہ نہیں رہے گا۔
سعودی عربیہ میں تیماء نامی دیہات تبوک سے 250 کلو میٹر اور مشہور شہر جدہ سے 830 کلو میٹر دور ہے۔ خالد کا کہنا ہے کہ بھٹکل کی کسی بھی جماعت کے ذمہ داران سے اس کا رابطہ نہیں ہے، اُسے یہ بھی پتہ نہیں ہے کہ مدد کے لئے کس جماعت سے اپیل کروں، البتہ بھٹکل کمیونٹی جدہ کے تعلق سے سنا ضرور ہے کہ وہ ایسے معاملوں میں بھٹکلی حضرات کا بھرپور تعاون کرتے ہیں، خالد نے بھٹکل کمیونٹی جدہ کے ذمہ داران سے اپیل کی ہے کہ برائے کرم مدد کریں۔
اُدھر دوسری طرف خالد کی والدہ تسلیمہ بانو نے بھٹکل مسلم خلیج کونسل سے درخواست کی ہے کہ وہ اُس کے بیٹے کی مدد کریں اور اُسے واپس بھٹکل بھیجنے کے لئے ضروری اقدامات کریں۔
بتاتے چلیں کہ خالد کا مسیج سوشیل میڈیا پر وائرل ہوتے ہی معاملہ چرچے میں آگیا۔ سوشیل میڈیا میں عوام کا ایک بڑا طبقہ کا کہنا ہے کہ بھٹکل مسلم کمیونٹی جدہ ایسے لوگوں کی مدد کرنے کے لئے ہمیشہ متحرک رہتی ہے، اس لئے عوام توقع ظاہرکررہے ہیں کہ جدہ جماعت اس نوجوان کی مدد کرے گی۔ دوسری طرف عوام کی نگاہیں بھٹکل مسلم خلیج کونسل کی طرف بھی ہے جو عوام الناس کے مسائل حل کرنے میں فعال کردار ادا کرتی ہے۔