بڑھتی نفرت کم ہوتی جمہوریت  ........ ڈاکٹر مظفر حسین غزالی

Source: S.O. News Service | By I.G. Bhatkali | Published on 6th March 2024, 5:26 PM | اسپیشل رپورٹس |

ملک میں عام انتخابات کی تاریخوں کا اعلان ہونے والا ہے ۔ انتخابی کمیشن الیکشن کی تاریخوں کے اعلان سے قبل تیاریوں میں مصروف ہے ۔ ملک میں کتنے ووٹرز ہیں، پچھلی بار سے اس بار کتنے نئے ووٹرز شامل ہوئے، نوجوان ووٹرز کی تعداد کتنی ہے، ایسے تمام اعداد و شمار آرہے ہیں ۔ سیاسی جماعتیں اپنی تیاری میں جٹی ہیں ۔ نریندر مودی سمیت بی جے پی کے لیڈران شمال سے جنوب تک کے دورے کر رہے ہیں ۔ ذاتوں اور پسماندہ طبقات کے رہنماؤں کو سادھنے کی کوشش ہو رہی ہے ۔ مذہب، ذات کی تفریق، ہندوتوا کے ساتھ بی جے پی مودی کا پریوار اور ان کی گارنٹی کی تشہیر ہو رہی ہے ۔ وہیں دوسری رہل گاندھی شمال مشرق سے مغرب تک ملک کو ناپنے کی مہم پر ہیں ۔ وہ سماجی انصاف، عوام کی بنیادی ضرورتوں اور محروموں کا سوال اٹھا رہے ہیں ۔ مذہب کے بجائے وہ حصہ داری کی بات کر رہے ہیں ۔ نفرت کو محبت سے جیتنے کا پیغام دے رہے ہیں ۔ ملک کو آمریت کی طرف بڑھنے سے روکنے اور جمہوری قدروں کو فروغ دینے پر زور دے رہے ہیں ۔ برسراقتدار بی جے پی اور اپوزیشن پارٹیوں کی طرف سے امیدواروں کے ناموں کا اعلان ہو رہا ہے ۔ 

سروے ایجنسیاں اپنے سروے کی بنیاد پر بتا رہی ہیں کہ اگر آج انتخابات ہوتے ہیں تو کون جیتے گا، کس کا چہرہ مودی یا راہل ووٹروں کی پہلی پسند ہے، این ڈی اے اور انڈیا اتحاد میں کس کا پلڑا بھاری ہے، رام مندر کے افتتاح سے بی جے پی کو فائدہ ہوگا یا نہیں، ہوگا  اگر ہوگا تو کتنا؟ کسانوں کی تحریک کا انتخابات پر کیا اثر پڑے گا، اس طرح کے کئی سوالوں کے گرد سروے ہو رہے ہیں اور ان کے نتائج کی بنیاد پر ملک میں مستقبل کی حکومت بنے کی بات ہو رہی ہے ۔ ان سوالات کے درمیان سوال یہ بھی پوچھا جانا چاہئے کہ ان انتخابات میں یا ان کے بعد نفرت بڑھے گی یا کم ہوگی اور جمہوریت کے بچنے کی کتنی امیدیں رہ جائیں گی ۔ بھارت کی پہچان انیکتا میں ایکتا کے لئے ہے ۔ ایک طرف اسے مدر آف ڈیموکریسی کہا جاتا ہے وہیں دوسری طرف جمہوریت کے سامنے کانٹو ں کی دیوار کھڑی کی گئی ہے ۔ ملک کا ماحول ایسا ہے کہ بیریکیڈ کے ایک طرف جمہوریت اور دوسری طرف حکومت نظر آتی ہے ۔ وی ڈیم کی رپورٹ کے مطابق 2014 کے بعد سے بھارت میں جمہوریت کی صحت میں مسلسل گراوٹ آ رہی ہے ۔ یہ اب جمہوریت نہ کہلائے جانے والے ممالک کی کیٹگری میں آنے کے بالکل قریب ہے ۔ 

اسے ملک کی ستم ظریفی کہیں یا کچھ اور کہ کھیتی کسانی کی ثقافت والے بھارت کی زراعت میں آزادی کے بعد بھی انقلابی تبدیلی نہیں آئی ۔ جبکہ ہر سیاسی جماعت کسان، مزدور اور غریبوں کو انتخاب کا مدعا بناتی رہی ہے ۔ پھر بھی ہمارا ملک زراعت میں وہ مقام حاصل نہیں کر سکا جو صنعتی انقلاب کے بعد محض ڈیڑھ سو سال میں یورپ نے حاصل کر لیا ۔ جبکہ بھارت دنیا کی پانچویں بڑی معیشت بن چکا ہے اور تیسری بننے کی طرف بڑھ رہا ہے ۔ لیکن اس اقتصادی ترقی کا فائدہ غریبوں، مزدوروں اور کسانوں کو نہیں مل پارہا ہے ۔ حکومت کو 80 کروڑ لوگوں کو مفت راشن دینا پڑ رہا ہے ۔ اقتصادی تقسیم میں عدم توازن کی وجہ سے کسان ایک بار پھر احتجاج کر رہے ہیں ۔ 13 فروری کو دہلی کوچ کے لئے نکلے کسانوں کو زبر دستی بی جے پی حکومت نے ہریانہ، پنجاب کی سرحد پر روک دیا ۔ کسانوں نے 6 مارچ کو پھر دہلی کوچ کا اعلان کی ہے ۔ انہیں روکنے کے لئے دہلی پولس نے بڑے پیمانے پر تیاری کی ہے ۔ دفعہ 144 لگائی گئی ہے ۔ ریلوے اسٹیشن، میٹرو اسٹیشن اور بس اڈوں پر بھاری تعداد میں پولس اہلکار تعینات کئے گئے ہیں ۔ ایم ایس پی لاگو کرنے کا وعدہ پورا کرنے کی مانگ کو لے کر کسان دوبارہ احتجاج کر رہے ہیں ۔ ان کے مطالبات وہی ہیں جو تین سال پہلے تھے ۔ ان کے سال بھر چلے احتجاج کو ختم کرنے کے لئے مرکزی حکومت نے کسانوں سے وعدہ کیا تھا کہ ایم ایس پی کی قانونی ضمانت دی جائے گی، لکھیم پور کھیری میں مارے گئے کسانوں کے ساتھ انصاف کیا جائے گا، اسی طرح کے کچھ اور وعدے بھی تھے، جو تین سال میں پورے نہیں ہوئے تو اب کسان احتجاج کر رہے ہیں ۔ لیکن مودی حکومت ایک بار پھر کسانوں سے بات چیت کر رہی ہے ۔ بات چیت سے مسئلہ حل کرنا تو ٹھیک ہے لیکن نیت بھی صحیح ہونی چاہئے ۔ آخر حکومت اپنا ہی وعدہ پورا کرنے کے لئے کون سی میٹنگ کر رہی ہے؟  جو فیصلہ لینا ہے، وہ حکومت کو لینا ہے، اس میں کسان انتظار کے سوا کچھ نہیں کر سکتے ۔  کسانوں نے تین سال تک انتظار ہی کیا ہے، کیا حکومت چاہتی ہے کہ وہ اب بھی انتظار ہی کرتے رہیں ۔

کسان پر امن طریقہ سے پنجاب ہریانہ سے  آگے بڑھ رہے تھے لیکن ان پر آنسو گیس کے گولے داغے گئے، پیلٹ گن کا استعمال کیا گیا ۔ حکومت نے پچھلی مرتبہ بھی کسانوں پر ایسے ہی مظالم کیے تھے ۔ تب ساڑھے سات سو سے زائد کسانوں کی موت ہوئی تھی ۔ اس بار پھر کسانوں کی شہادت کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے ۔ چند روز قبل احتجاج کے دوران ایک ادھیڑ عمرکسان کی موت ہوئی تھی اور پھر ایک 22 سالہ نوجوان کسان کی موت ہو گئی ۔ کسانوں کا الزام ہے کہ ہریانہ پولس کی فائرنگ سے کچھ لوگ زخمی ہوئے، کچھ لاپتہ ہیں اور ایک نوجوان کسان کی موت ہو گئی ۔  پرامن احتجاج کرنے والوں پر ایسے مظالم سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ملک میں جمہوریت کے باب کو بند کرکے ایک نئے باب کے آغاز کی تیاری ہو چکی ہے ۔

کسانوں کو حکومت رام لیلا میدان آنے سے روک رہی ہے ۔ پولیس نے دہلی کے جنتر منتر پر ای وی ایم کے خلاف احتجاج کو بھی دفعہ 144 لگا کر روک دیا ۔ اور جب کانگریس کے رکن پارلیمنٹ ڈگ وجئے سنگھ نے یوتھ کانگریس ہیڈکوارٹر سے احتجاج شروع کرتے ہوئے جنتر منتر چلو کی کال دی تو پولیس نے دوبارہ مظاہرین کو گرفتار کر کے پہلے سے کھڑی بسوں میں ٹھونس دیا ۔ یوتھ کانگریس ہیڈکوارٹر کے باہر پہلے ہی بھاری پولس فورس اور بیریکیڈنگ کے انتظامات تھے ۔ ظاہر ہے کہ حکومت ای وی ایم کے خلاف کسی بھی احتجاج کو ہونے سے پہلے ہی کچل دینا چاہتی ہے ۔ جب کہ اپنے مطالبات کے لئے احتجاج کرنا ہر جماعت اور ہر شہری کا جمہوری حق ہے ۔ اپوزیشن کا الزام ہے کہ ای وی ایم سے چھیڑ چھاڑ ممکن ہے، بی جے پی نے الیکشن جیتنے کے لئے ایسا کر چکی ہے ۔

الیکشن کمیشن ای وی ایم میں کسی قسم کی بے ضابطگی کی بات نہیں مانتا ۔ تاہم بی جے پی کے لئے بہتر ہو گا کہ وہ یا تو اپوزیشن کے شکوک کو دور کرے یا بیلٹ پیپر کے ذریعے انتخابات کے لئے راضی ہو جائے ۔ تب ہی اس کے جمہوری اور غیر جانبدار انتخابات کا دعویٰ سچ ثابت ہوگا ۔ وی ڈیم کی 2023 کی رپورٹ کے مطابق الیکٹورل ڈیموکریسی انڈیکس میں بھارت 108 ویں پائیدان پر ہے ۔ فی الحال ایسا لگتا ہے کہ بی جے پی کو جمہوریت کی کسوٹی پر کھرا اترنے کے مقابلہ ہے صرف 400 سے زیادہ سیٹیں جیتنے کی زیادہ فکر ہے ۔

 اپوزیشن کا یہ بھی الزام ہے کہ بی جے پی  جانچ ایجنسیوں کا غلط استعمال کر رہی ہے اور میڈیا ایکطرفہ اس کے ساتھ کھڑا ہے ۔ جو بی جے پی کے ساتھ نہیں ہے وہ مشکل میں ہے ۔ جموں و کشمیر کے سابق گورنر ستیہ پال ملک اس کی مثال ہیں ۔ سی بی آئی نے ان کے گھر اور ان سے متعلق کم از کم 30 مقامات پر چھاپے مارے ۔ یہ چھاپے جموں و کشمیر میں کیرو ہائیڈرو الیکٹرک پروجیکٹ کے ٹھیکے میں مبینہ بدعنوانی کے معاملے میں مارے گئے ۔ حالانکہ انہوں نے خود اس کی شکایت کی تھی ۔ یہاں یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ ستیہ پال ملک نے کسانوں کے مسئلہ سے لے کر پلوامہ حملے تک کئی مسائل کے لئے موجودہ حکومت پر تنقید کی ہے ۔ ایسے میں مانا جا رہا ہے کہ مسٹر ملک کے خلاف سی بی آئی کی کارروائی ان کے حکومت مخالف رویہ کی وجہ سے کی گئی ہے ۔ کیونکہ جن لوگوں پر ستیہ پال ملک نے بدعنوانی کے الزامات لگائے تھے اور جن کے نام رشوت کی پیشکش کرنے میں لئے تھے، ان کے خلاف اب تک کی اطلاع کے مطابق کوئی کارروائی نہیں کی گئی ہے ۔ ایک خاص بات یہ ہے کہ جب کسان تحریک میں ایک نوجوان کسان کی موت سے مودی حکومت بری طرح گھری ہوئی تھی ۔ حکومت کے خلاف ماحول بن رہا تھا ۔ تو ستیہ پال ملک کے خلاف کارروائی کرکے ایک بار پھر عوام کا دھیان بھٹکا نے کی کوشش کی گئی ۔ 

 ملک کی موجودہ تصویر میں نفرت ابھری ہوئی اور جمہوریت بہت دھندلی دکھائی دے رہی ہے ۔ انتخابات سے قبل اس ابہام کا دور ہونا ضروری ہے ۔ کانٹوں کی دیوار کے پار جمہوریت کی اس لڑائی میں جو جیتے گا اسی سے ملک کا مستقبل طے ہوگا ۔

ایک نظر اس پر بھی

انکولہ : ایک ڈرائیور اور لاری کی تلاش کا جائزہ لینے پہنچ گئے کیرالہ ایم پی - خبر گیری میں ناکام رہے کینرا ایم پی

شیرور میں پہاڑی کھسکنے کے بعد جہاں کئی لوگوں کی جان گئی وہیں پر کیرالہ کے ایک ٹرک اور اس کے ڈرائیور ارجن کی گم شدگی بھی ایک اہم مسئلہ بنا ہوا ہے اور اس کی تلاشی مہم کا جائزہ لینے کے لئے پہلے تو کیرالہ کے ایک رکن اسمبلی جائے وقوع پر پہنچ گئے ، پھر اس کے بعد کوزی کوڈ ضلع کے رکن ...

کیا یہ مسلمانوں کی سماجی و معاشی بائیکاٹ کی ایک سازش ہے؟ ۔۔۔۔۔۔از: سہیل انجم

کیا کانوڑ یاترا کے بہانے مسلمانوں کے سماجی و معاشی بائیکاٹ کی تیاری چل رہی ہے اور کیا وہ وقت دور نہیں جب تمام قسم کی دکانوں اور مکانوں پر مذہبی شناخت ظاہر کرنا ضروری ہو جائے گا؟ یہ سوال یوں ہی نہیں پیدا ہو رہا ہے بلکہ اس کی ٹھوس وجہ ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ کانوڑ یاترا کے روٹ پر ...

پیپر لیک سے ابھرے سوال، جوابدہی کس کی ؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آز: ڈاکٹر مظفر حسین غزالی

پیپر لیک معاملہ میں ہر روز نئے انکشافات ہو رہے ہیں ۔ اس کے تار یوپی، بہار، ہریانہ، مدھیہ پردیش، مہاراشٹر اور دہلی سے جڑنے کی خبر ہے ۔ عجیب بات ہے کہ نیٹ پیپر لیک میں جن ریاستوں کے نام سامنے آئے دہلی کو چھوڑ کر ان سب میں ڈبل انجن کی سرکار ہے ۔ جس ایجنسی کے پاس امتحانات کرانے کی ذمہ ...

نیشنل ہائی وے کنارے کچروں کے ڈھیر نے بھٹکل کی خوبصورتی کوکیا داغدار؛ لوگ ناک پر انگلی دبائے گزرنے پر مجبور

بھٹکل تعلقہ کے ہیبلے پنچایت حدود کے حنیف آباد کراس کے قریب شہر کی خوبصورت فورلین قومی شاہراہ کنارے کچروں کا اتنا زیادہ ڈھیر جمع ہے کہ بائک اور آٹو پر گذرنے والے لوگوں کا ہاتھ اس علاقے میں پہنچتے ہی خودبخود ناک پر پہنچ جاتا ہے اور بڑی سواریوں والے اس بدبودار علاقے سے جلد از جلد ...

کیا وزیر اعظم سے ہم تیسری میعاد میں خیر کی اُمید رکھ سکتے ہیں؟ ........... از : ناظم الدین فاروقی

18ویں لوک سبھا الیکشن 24 کے نتائج پر ملک کی ڈیڑھ بلین آبادی اور ساری دنیا کی ازبان و چشم لگی تھیں ۔4 جون کے نتائج حکمران اتحاد اور اپوزیشن INDIA کے لئے امید افزاں رہے ۔ کانگریس اور اس کے اتحادی جماعتوں نے اس انتخابات میں یہ ثابت کر دیا کہ اس ملک میں بادشاہ گر جمہورہیں عوام کی فکر و ...

کاروار: بی جے پی کے کاگیری نے لہرایا شاندار جیت کا پرچم - کانگریس کی گارنٹیوں کے باوجود ووٹرس نے چھوڑا ہاتھ کا ساتھ  

اتر کنڑا سیٹ پر لوک سبھا انتخاب میں بی جے پی امیدورا وشویشورا ہیگڑے کاگیری کی شاندار جیت یہ بتاتی ہے کہ ان کی پارٹی کے سیٹنگ ایم پی اننت کمار اور سیٹنگ رکن اسمبلی شیو رام ہیبار کی بے رخی دکھانے اور انتخابی تشہیر میں کسی قسم کی دلچسپی نہ لینے کے باوجود یہاں ووٹروں کے ایک بڑے حصے ...