مسلمان ہونا اب اس ملک میں گناہ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔از: ظفر آغا

Source: S.O. News Service | Published on 12th February 2024, 11:12 PM | اسپیشل رپورٹس |

انہدام اب ایک ’فیشن‘ بنتا جا رہا ہے۔ یہ ہم نہیں کہہ رہے بلکہ یہ مدھیہ پردیش ہائی کورٹ کا بیان ہے۔ بے شک مکان ہو یا دوکان ہو، ان کو بلڈوزر کے ذریعہ ڈھا دینا اب بی جے پی حکومت کے لیے ایک فیشن بن چکا ہے۔ لیکن عموماً اس فیشن کا نشانہ مسلم اقلیتی طبقہ ہی بنتا ہے۔ اس کی تازہ ترین مثال اتراکھنڈ کا ہلدوانی شہر ہے۔ آپ واقف ہیں کہ ان دنوں ہلدوانی میں غریب مسلم آبادی والے علاقہ میں جنگی حالات ہیں۔ ہوا یہ کہ چند روز قبل ہلدوانی کی غیر قانونی کالونی میں ایک مسجد اور اس سے متصل مدرسہ بلڈوزر کے ذریعہ مسمار کر دیا گیا۔ یہ کارروائی وہاں کی میونسپل کارپوریشن نے رات کے وقت کی۔ جب مسجد اور مدرسہ گرایا جا رہا تھا تو یکایک اس کے ارد گرد لوکل آبادی کا مجمع اکٹھا ہو گیا۔ خبروں کے مطابق اس مجمع نے سرکاری افسران سے منت سماج کی۔ مجمع نے افسران کو ہائی کورٹ کا وہ حکم نامہ بھی پیش کیا جس میں ذکر تھا کہ اس معاملہ پر چند روز باد ہی سماعت ہونے والی تھی۔ لیکن افسرا اور پولیس نے ایک بھی نہیں سنی اور بلڈوزر چل پڑے۔ مجمع مشتعل ہو گیا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ مجمع نے سرکاری افسران کو نہ صرف کام کرنے سے روکا بلکہ سرکاری کارندوں پر حملہ آور بھی ہو گیا۔ مجبوراً پولیس کو گولی چلانی پڑی جس میں اب تک پانچ افراد کی موت کا اعلان ہو چکا ہے اور درجنوں زخمی اب بھی اسپتال میں پڑے ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ مجمع کو قطعاً مشتعل نہیں ہونا چاہیے تھا۔ اس بات کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے، لیکن پولیس کو بھی احتیاط سے کام لینا چاہیے تھا۔ حالات ابھی تک سنگین ہیں۔ کرفیو کے ساتھ ساتھ علاقے کی ناکہ بندی اور اندھا دھند گرفتاریاں جاری ہیں۔

لیکن ہلدوانی میں جو کچھ ہوا اس کی نوبت کیسے آئی! بات یوں ہے کہ چند ماہ قبل ہلدوانی کی ایک غیر قانونی کالونی کو شہر کی میونسپل کارپوریشن کے افسران اور پولیس نے بلڈوزروں کے ساتھ اچانک گھیر لیا۔ افسران کو یہ حکم تھا کہ وہ اس غیر قانونی آبادی کو ڈھا دیں۔ چنانچہ افسران حکم بجا لانے کو اس کالونی میں پہنچ گئے۔ لیکن علاقے کے بااثر افراد وہاں پہنچ گئے اور کسی طرح کارروائی رک گئی۔ ساتھ ہی وہاں کے لوگوں نے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا جس نے میونسپل کارپوریشن کی کارروائی پر فوراً روک لگا دی۔ سپریم کورٹ نے یہ بھی کہا کہ اس بستی کو اس وقت تک نہیں گرایا جائے جب تک ہلدوانی کی کارپوریشن وہاں کی آبادی کو پوری طرح منتقل نہیں کرتی۔ مگر کہاں کا سپریم کورٹ اور کیا سپریم کورٹ کا حکم نامہ۔ چند روز قبل پھر میونسپل افسران پولیس کے لشکر کے ساتھ پھر اس بستی میں کارروائی کے لیے اکٹھے ہو گئے۔ اب لوکل افسراد نے اتراکھنڈ ہائی کورٹ سے رجوع کیا۔ بستی والوں کی عرضی ہائی کورٹ نے منظور کر لی اور مقدمہ کی سماعت کے لیے چند روز آگے کی تاریخ لگا دی۔ بس اس تاریخ سے قبل افسران نے رات کے اندھیرے میں علاقہ کو گھیر مسجد اور مدرسہ مسمار کر دیا۔

ہلدوانی میں جو کچھ ہوا وہ ریاستی حکومت کی مرضی کے بغیر نہیں ہو سکتا ہے۔ وہاں بی جے پی کی حکومت ہے اور وہ مسلم اقلیت کے ساتھ وہی برتاؤ کرتی ہے جو ہندوتوا حکومت والی ریاستوں میں مسلمانوں کے ساتھ ہوتا رہا ہے۔ بی جے پی حکومتوں کا اقلیت کے ساتھ جو سلوک ہے اس سے بھی افسوسناک عدلیہ کا رویہ ہے۔ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ اگر چاہیں تو اس معاملہ پر از خود نوٹس لے سکتے ہیں۔ لیکن ابھی تک ایسا نہیں ہوا ہے۔ اتراکھنڈ ہائی کورٹ کا تو یہ فرض بنتا ہے کہ وہ میونسپل کارپوریشن اور پولیس افسران کو اس کارروائی سے روکیں۔ لیکن وہاں تو کوئی سننے سنانے کو تیار ہی نہیں ہے۔ آخر بات کیا ہے!

بات صرف اتنی ہے کہ اب اس ملک میں مسلمان ہونا گناہ ہے۔ اگر آپ مسلمان ہیں تو آپ کی لنچنگ ہو سکتی ہے۔ آپ کا مکان-دوکان کسی وقت بھی بلڈوزر سے گرایا جا سکتا ہے۔ اور تو اور آپ کی مسجد و مدرسہ اور مزار کھلے بندوں مسمار کی جا سکتی ہے۔ مسلمان کے لیے اب اس ملک میں کوئی جگہ نہیں بچی ہے۔ بی جے پی راج میں اس کی زندگی جہنم ہے۔ اس کو نہ تو اب حکومت سے، نہ ہی افسر شاہی اور نہ ہی عدلیہ سے کسی قسم کی امید رکھنی چاہیے۔ ہندوتوا راج میں مسلمان صرف دوسرے درجہ یعنی غلاموں جیسی زندگی جی سکتا ہے۔ اتراکھنڈ کے ہلدوانی ضلع کی مسلم بستی میں جو کچھ ہو رہا ہے، وہی اب پورے ہندوستان کے مسلمانوں کا مقدر ہے!

ایک نظر اس پر بھی

انکولہ : ایک ڈرائیور اور لاری کی تلاش کا جائزہ لینے پہنچ گئے کیرالہ ایم پی - خبر گیری میں ناکام رہے کینرا ایم پی

شیرور میں پہاڑی کھسکنے کے بعد جہاں کئی لوگوں کی جان گئی وہیں پر کیرالہ کے ایک ٹرک اور اس کے ڈرائیور ارجن کی گم شدگی بھی ایک اہم مسئلہ بنا ہوا ہے اور اس کی تلاشی مہم کا جائزہ لینے کے لئے پہلے تو کیرالہ کے ایک رکن اسمبلی جائے وقوع پر پہنچ گئے ، پھر اس کے بعد کوزی کوڈ ضلع کے رکن ...

کیا یہ مسلمانوں کی سماجی و معاشی بائیکاٹ کی ایک سازش ہے؟ ۔۔۔۔۔۔از: سہیل انجم

کیا کانوڑ یاترا کے بہانے مسلمانوں کے سماجی و معاشی بائیکاٹ کی تیاری چل رہی ہے اور کیا وہ وقت دور نہیں جب تمام قسم کی دکانوں اور مکانوں پر مذہبی شناخت ظاہر کرنا ضروری ہو جائے گا؟ یہ سوال یوں ہی نہیں پیدا ہو رہا ہے بلکہ اس کی ٹھوس وجہ ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ کانوڑ یاترا کے روٹ پر ...

پیپر لیک سے ابھرے سوال، جوابدہی کس کی ؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آز: ڈاکٹر مظفر حسین غزالی

پیپر لیک معاملہ میں ہر روز نئے انکشافات ہو رہے ہیں ۔ اس کے تار یوپی، بہار، ہریانہ، مدھیہ پردیش، مہاراشٹر اور دہلی سے جڑنے کی خبر ہے ۔ عجیب بات ہے کہ نیٹ پیپر لیک میں جن ریاستوں کے نام سامنے آئے دہلی کو چھوڑ کر ان سب میں ڈبل انجن کی سرکار ہے ۔ جس ایجنسی کے پاس امتحانات کرانے کی ذمہ ...

نیشنل ہائی وے کنارے کچروں کے ڈھیر نے بھٹکل کی خوبصورتی کوکیا داغدار؛ لوگ ناک پر انگلی دبائے گزرنے پر مجبور

بھٹکل تعلقہ کے ہیبلے پنچایت حدود کے حنیف آباد کراس کے قریب شہر کی خوبصورت فورلین قومی شاہراہ کنارے کچروں کا اتنا زیادہ ڈھیر جمع ہے کہ بائک اور آٹو پر گذرنے والے لوگوں کا ہاتھ اس علاقے میں پہنچتے ہی خودبخود ناک پر پہنچ جاتا ہے اور بڑی سواریوں والے اس بدبودار علاقے سے جلد از جلد ...

کیا وزیر اعظم سے ہم تیسری میعاد میں خیر کی اُمید رکھ سکتے ہیں؟ ........... از : ناظم الدین فاروقی

18ویں لوک سبھا الیکشن 24 کے نتائج پر ملک کی ڈیڑھ بلین آبادی اور ساری دنیا کی ازبان و چشم لگی تھیں ۔4 جون کے نتائج حکمران اتحاد اور اپوزیشن INDIA کے لئے امید افزاں رہے ۔ کانگریس اور اس کے اتحادی جماعتوں نے اس انتخابات میں یہ ثابت کر دیا کہ اس ملک میں بادشاہ گر جمہورہیں عوام کی فکر و ...

کاروار: بی جے پی کے کاگیری نے لہرایا شاندار جیت کا پرچم - کانگریس کی گارنٹیوں کے باوجود ووٹرس نے چھوڑا ہاتھ کا ساتھ  

اتر کنڑا سیٹ پر لوک سبھا انتخاب میں بی جے پی امیدورا وشویشورا ہیگڑے کاگیری کی شاندار جیت یہ بتاتی ہے کہ ان کی پارٹی کے سیٹنگ ایم پی اننت کمار اور سیٹنگ رکن اسمبلی شیو رام ہیبار کی بے رخی دکھانے اور انتخابی تشہیر میں کسی قسم کی دلچسپی نہ لینے کے باوجود یہاں ووٹروں کے ایک بڑے حصے ...