لاک ڈاؤن میں نرمی:کہیں 1918کی غلطی2020میں دہرائی تو نہیں جا رہی ہے؟
بنگلورو،5؍مئی(ایس او نیوز) کورونا وائر س ساری دنیا کے لئے ایک دہشت بنا ہوا ہے۔ دنیا کے ایسے ممالک بھی اس وائرس کے آگے بے بس نظر آر ہے ہیں جن کا طبی نظام تمام ممالک کے مقابلہ بہترین مانا جاتا رہا لیکن اب یہ عمدہ نظام بھی ان ممالک کے باشندوں کو کوروناوائرس سے بچانے میں مؤثر ثابت نہ ہو سکا جس کے سبب ان ممالک کو اس وائرس سے بچنے کے لئے واحد راستہ یہ سمجھا ہے کہ لوگوں کے دوران سماجی فاصلہ کو برقرار رکھا جائے اور ہر ملک کی طرف سے اپنے اپنے شہریوں کو اس وائرس سے بچانے کے لئے لاک ڈاؤن کا راستہ نکالا گیا۔
گزشتہ دو ڈھائی ماہ سے دنیا کے بیشتر ممالک میں لاک ڈاؤن کے سختی سے نفاذکے ذریعے اس وائرس کو پھیلنے سے روکنے کی کوشش ہو تی رہی ہے لیکن اس میں ترقی یافتہ ممالک کو اتنی کامیابی نہیں مل پائی جتنی کہ ملنی چاہئے تھی۔ متعدی امراض اور عالمی تاریخ پر اپنا گہرا اثر مرتب کرنے والی بیماریوں کے امور کا گہرا مطالعہ رکھنے والے اور اس امر پر تحقیق کرنے والے ماہرین کا یہ کہنا ہے کہ کورونا وائرس کے چین کے ایک شہر ووہان سے دنیا بھر میں پھیلنے کے بعد جس طرح کے حالات سامنے آ رہے ہیں ان کا بغور جائزہ لیا جائے تو یہی بات سامنے آ رہی ہے کہ 1918میں ساری دنیا میں کروڑوں لوگوں کی موت کا سبب بننے والے ہسپانی فلو (سپانش فلو)نامی بخار نے جب وبائی شکل اختیار کی تھی تو اس وقت بھی دنیا بھر میں اسی طرح کے حالات رونما ہوئے۔
یہ بات سامنے آئی ہے کہ ہسپانی فلو سے بچنے کیلئے بھی اس وقت کے طبی ماہرین نے عوام کو یہ مشورہ دیا تھا کہ وہ اپنے چہروں پر ماسک لگائیں۔ یوروپی دنیا میں اس کی کچھ حد تک پابندی بھی کی گئی جس طرح اب تک کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے اسباب کی نشاندہی کے لئے سائنسدان، ڈاکٹرس اور ماہرین پریشان ہیں۔ ایک صدی پہلے ہسپانی فلو کے پھیلنے کے بعد بھی عالم یہی تھا۔ اس بخار سے اموات کا سلسلہ 1918سے 1920تک چلتا رہا اور اس کے بعد ختم ہو گیا۔ لیکن اس کی اصل وجہ کیا ہے اس کا پتہ لگانے کے لئے کافی عرصہ لگا معروف سائنسدان رچرڈ فائفر نے1933میں یہ تحقیق دنیا کے سامنے پیش کی کہ ہسپانی فلو کا پھیلاؤ بیکٹیریا سے پھیلا ہے۔
مؤرخین کا کہنا ہے کہ ہسپانی فلو کے اثر نے پہلی جنگ عظیم میں الجھے ہوئے ممالک کی معیشت کو بھی غیر معمولی نقصان پہنچایا۔ تاریخی حقائق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ 1918اور 1920کے دوران جب دنیا ایک طرف پہلی جنگ عظیم سے بدحال تھی تو دوسری طرف ہسپانی فلو کے قہر نے اسے اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ سماجی فاصلہ اور اس وقت کئی ممالک کو معاشی سرگرمیوں پر پابندی لگا کر پہلے مرحلے میں اس بخار کو روکنے میں کچھ حد تک پیش رفت ملی تو دنیا کے بیشتر ممالک نے یہ سمجھ لیا کہ انہوں نے اس وباء کو ختم کردیا ہے اور اکثر ممالک میں معاشی سرگرمیوں کو جسے اب لاک ڈاؤن کہا جا رہا ہے ختم کردیا۔ پہلے مرحلہ کے بعد لاک ڈاؤن میں نرمی کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس بخار کی دوسری لہر اٹھی اور اس لہر نے کروڑوں افراد کی جانیں لے لیں۔ اس کے بعد ایک سال کی جد وجہد کے بعد دوسرے مرحلے کو قابو میں کیا گیا۔ قابو میں آنے کے بعد تیسرا مرحلہ اٹھا اور اس میں بھی کافی جانی نقصان ہو ا۔کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے بارے میں بھی ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ لاک ڈاؤن میں اچانک نرمی دے دینا اس کے پھیلاؤ کو عوامی سطح تک لے جا سکتا ہے۔ اگر ایسی صورتحال پیدا ہو گئی تو جانی نقصان جس موجود ہ آبادیاتی اعداد و شمار کی بنیاد پر ہو سکتا ہے اس کا اندازہ بھی لگانا مشکل ہو گا۔