مختلف کالجوں میں پھیل رہا ہے حجاب بمقابلہ زعفرانی شال تنازع. مسلم قیادت بے بس ، سیکیولر سیاست تماشائی ... تحریر : ڈاکٹر محمد حنیف شباب
ویسے تو ماضی میں بھی عصری تعلیمی اداروں میں برقع اور حجاب کا تنازع وقتاً فوقتاً سر اٹھاتا رہا ہے لیکن اس بار ساحلی علاقہ کے اڈپی سرکاری گرلز پی یو کالج سے اٹھنے والا یہ طوفان بڑی تیزی کے ساتھ دیگر علاقوں کی سرکاری کالجوں کے علاوہ پرائیویٹ کالجوں تک پھیلتا جا رہا ہے ۔
گزشتہ ایک ڈیڑھ مہینے سے اڈپی کالج میں مسلم طالبات کے حجاب کی مخالفت میں غیر مسلم طلباء اور بالخصوص لڑکوں کے زعفرانی شال اوڑھ کر کلاسس میں حاضر ہونے پر اٹھنے والا یہ تنازع کنداپور گورنمنٹ جونیئر کالج ، بھنڈارکر آرٹس اینڈ سائنس کالج اور بی وی ہیگڈے کالج میں پہنچ گیا ۔ وہاں سے ہوتا ہوا اب اس مسئلہ نے بیندور سرکاری پی یو کالج میں سر ابھارا ہے ۔ ہر جگہ مسلم طالبات کو کالج کیمپس سے باہر کر دیا گیا ہے کیونکہ وہ اپنے دستوری حق کے تحت حجاب کے ساتھ ہی کلاس روم میں حاضری پر مصر ہیں اور انہوں نے اپنے حقوق پانے کے لئے احتجاج کا سلسلہ جاری رکھا ہے ۔
دیگر کالجز بھی آئے لپیٹ میں : ساحلی علاقہ سے پھیلنے والا حجاب مخالف وائرس کورونا وائرس سے زیادہ تیزی کے ساتھ اب ریاست کے دوسرے کالجوں میں بھی اپنا تعفن پھیلانے لگا ہے ۔ اڈپی کے فوری بعد چکمگلورو سرکاری کالج میں بھی دوبارہ یہ مسئلہ پیدا ہوا تھا ۔ اس کے علاوہ شیموگہ کے شہراور بھدراوتی کے سرکاری پی یو کالجوں اور رام درگا ٹاون بیلگاوی کے ایک سرکاری پی یو کالج میں بھی حجاب اور زعفرانی شال کا تنازع کھڑا کیا گیا ۔ البتہ شیموگہ میں یہ معاملہ وقتی طور پر دب گیا ہے مگر وہاں سے ملی رپورٹ کے مطابق ہندوتواودی گروپس اس راکھ میں دبی آگ کو ہوا دینے میں لگے ہیں ۔ جبکہ بیلگاوی میں کالج عملہ نے فوری مداخلت کرتے ہوئے زعفرانی شال اوڑھ کر آنے والے 10- 12 طلبہ کے خلاف سخت کارروائی کی وارننگ دی اور انہیں زعفرانی شال اتار کر کلاس میں حاضر رہنے پر آمادہ کیا ۔
حجاب حامی تحریک بھی ہوئی تیز : جہاں حجاب پر پابندی لگانے کے لئے فسطائی ذہنیت نے زہر پھیلانا شروع کیا اور اڈپی سے باہر دیگر کالجوں کو بھی اپنے لپیٹ میں لے لیا وہیں پر "مجھے حجاب پسند ہے " کے عنوان سے حجاب حامی تحریک بھی متاثرہ ضلع اڈپی کے علاوہ دیگر اضلاع میں تیز ہو رہی ہے ۔ یکم فروری کو میسور میں مسلم طلبہ نے اس عنوان سے اڈپی ضلع کی باحجاب طالبات کی حمایت میں مظاہرہ بھی کیا ۔ جس میں شرکاء نے "حجاب مجھے پسند ہے " ، حجاب - میرا وقار، میری پسند اور میری آزادی" جیسے شلوگن لکھے ہوئے پلے کارڈس اٹھا رکھے تھے ۔
8 فروری کو عدالت میں سماعت : حجاب بمقابلہ زعفرانی شال کے مسئلہ پر سب کی نظریں اس وقت عدالت پر لگی ہوئی ہیں کیونکہ اڈپی کی متاثرہ 6 میں سے ایک طالبہ نے اس مسئلہ کو اپنے دستوری حق سے جوڑتے ہوئے ہائی کورٹ کا جو دروازہ کھٹکھٹایا ہے اس پر پہلی سماعت 8 فروری کو ہونے والی ہے ۔ دوسری طرف حقوق انسانی کمیشن کی طرف سے حکومت سے جو جواب طلب کیا گیا تھا اس کے لئے ضلع انتظامیہ کی طرف سے دو کمیٹیاں تشکیل دی گئی ہیں جن میں سے ایک کمیٹی کی سربراہی کنداپور اسسٹنٹ کمشنر کو دی گئی ہے ۔ دونوں کمیٹیوں نے اپنی کارروائی شروع کی ہے اورتوقع ہے کہ ان کی طرف سے جلد ہی حکومت کو رپورٹ دی جائے گی جس کے بعد سرکاری طور پر حقوق انسانی کمیشن کو جواب بھیجا جائے گا ۔
مسلم قیادت مخمصے میں : آج کے ماحول میں مسلم سماجی قیادت تو سوائے مذمتی قراردادیں پاس کرنے اور بیانات جاری کرنے سے آگے بڑھنے کی پوزیشن میں ہے ہی نہیں ۔ جبکہ دینی قیادت منبروں اور اسٹیجوں سے پُرجوش خطابات اور جذبات کو ابھارنے اور جھنجھوڑنے والی تقاریر اور سماجی و سیاسی قیادت پر انگشت نمائی سے زیادہ آگے نہیں بڑھتی ۔ اور جہاں تک تھوڑی بہت بچی کھچی سیاسی قیادت ہے، اسے مسلم مسائل پر بولتے ہوئے سانپ سونگھ جاتا ہے ۔ ایسے ناسازگار سیاسی حالات میں بھلا الیکشن میں ٹکٹ پانے سے محروم ہونے یا اپنے پاس موجود چھوٹا موٹا سیاسی عہدہ قربان کرنے کا خطرہ کون مول لینا چاہے گا ۔
صرف ایک تنظیم حمایت میں آگے : تنظیمی اعتبار سے صرف کیمپس فرنٹ آف انڈیا ہی وہ طلبہ تنظیم ہے جس نے پہلے دن سے اس معاملہ میں مداخلت کی اور حجابی طالبات کے حقوق کے لئے مورچہ سنبھالا ۔ اس سے ایک طرف متاثرہ طالبات کی پشت پناہی ہوئی تو دوسری طرف بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اس طرح کی مداخلت سے کالج انتظامیہ اور فسطائی سیاست کا موقف سخت ہوگیا اور یہ مسئلہ اور زیادہ پیچیدہ ہوگیا ۔ اگر بالفرض یہ تنازع فی الواقع کیمپس فرنٹ کی مداخلت سے بگڑ گیا ہے تب بھی ہمیں سمجھنا چاہیے کہ مسلم طالبات کو بے یار و مددگار فسطائی قوتوں کے رحم و کرم پر چھوڑنا بھی دینی اور ملّی حمیت کے منافی ہے ۔ یہ مداخلت اس لئے بھی ضروری ہے کیونکہ فسطائی سیاست مسلمانوں کو ان کے دستوری حقوق سے محروم کرنے کے طے شدہ ایجنڈے پر کام کر رہی ہے ۔
یو ٹی قادر کا موقف : عام طور پر ایسے مسائل میں جنوبی کینرا میں اپنے قدم جمائے ہوئے کانگریسی رہنما اور رکن اسمبلی یو ٹی قادر سے ہر مرتبہ لوگ امیدیں باندھتے ہیں ، لیکن اس مسئلہ پر بھی ان کا موقف مبہم اور دامن بچانے والا اور حجاب حامیوں اور متاثرہ طلبہ کے لئے مایوس کن رہا ۔ ایک طرف انہوں نے کہا کہ اس مسئلہ کو بروقت حل کرنے میں حکومت ناکام رہی جس کی وجہ سے یہ تنازع دوسرے تعلیمی اداروں تک پہنچ گیا ۔ جبکہ درپردہ پی ایف آئی اور کیمپس فرنٹ آف انڈیا کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایسے مسائل کو کالج انتظامیہ ، پرنسپال ، متعلقہ طلبا اور ان کے والدین ایک ساتھ بیٹھ کر مفاہمت کے ساتھ حل کرنا چاہیے ۔ بیرونی مداخلت اور آوازیں ایسے مسائل کو پیچیدہ بناتی ہیں ۔ اور اگر مفاہمت کے ساتھ مسئلہ حل نہ ہوتو دستوری حق پانے کے لئے متعلقہ افراد کو عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانا چاہیے ۔ اب اس پر جس کا جی چاہیے سر پیٹے اور جو چاہے تالیاں بجائے ، متاثرین کا تو بھلا ہونے سے رہا ۔
زعفرانی سیاست کی اشتعال انگیزی : آثار صاف بتا رہے ہیں کہ سرکاری و نجی کالجوں میں حجاب کا مسئلہ کھڑا کرنے کے لئے غیر مسلم طلبا کو اکسانے اور اس تنازع کو ہوا دینے میں زعفرانی سیاست کا پورا ہاتھ ہے ۔ اس تنازع کو پیچیدہ بنانے میں سب سے زیادہ اہم رول تو اڈپی ایم ایل اے اور کالج انتظامیہ کمیٹی کے صدر رگھو پتی بھٹ نے ہی ادا کیا ہے ۔ اس کے علاوہ ایک جانب سنگھی لیڈر یشپال سوورنا نے کھلے عام دھمکیاں دیں تو بدنام زمانہ ہندوتوا وادی فرقہ پرست پرمود متالک نے اپنے زہریلے بیانات سے آگ بھڑکانے کی کوشش شروع کی ۔ اب اس پرمود متالک والے آرکیسٹرا میں رکن پارلیمان نلین کمار کٹیل ، پرتاپ سنہا وغیرہ نے شریعت اور حجاب چاہنے والوں کو پاکستان بھیجنے کا سُر چھیڑا ہے اور مسلمانوں کو ہندوانہ کلچر کا احترام کرنے کی نصیحت کرتے ہوئے اسلام اور عیسائیت پر منفی تبصرے شروع کر دئے ہیں ۔
"طالبانی علاقہ بننے نہیں دیں گے": نلین کمار نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ "حجاب کے ساتھ کلاس میں روم داخلہ کی اجازت دینے کا کوئی سوال ہی نہیں اٹھتا ۔ ہم تعلیمی اداروں کو طالبان جیسے اداروں میں تبدیل کرنے کی اجازت نہیں دیں گے ۔" ادھر ضلع انچارج وزیر سنیل کمار نے حجاب چاہنے والوں سے پوچھا : کلاس روم میں حجاب کی اجازت مانگنے والے یہ لوگ اپنی مسجدوں میں خواتین کی حاضری پر کیوں پابندی لگاتے ہیں ؟ اُس وقت ان کی شخصی آزادی کا حق کہاں چلا جاتا ہے؟
ضلع انچارج سنیل کمار نے بھی صاف لفظوں میں یہی کہا کہ ہم ریاست کرناٹکا یا منگلورو اوراڈپی کو طالبانی علاقہ بننے نہیں دیں گے ۔
کانگریسی قیادت نے کھولی زبان : حجاب بمقابلہ زعفرانی شال کا تنازع اب مقامی مسئلہ نہ رہتے ہوئے قومی اور بین الاقوامی سطح پر چھا گیا ہے ۔ ریاستی سطح پر سابق وزیر اعلیٰ سدا رامیا نے حجاب پر پابندی کی مخالفت اور طالبات کے حق کی حمایت میں زبان کھولی ہے اور ان کالجوں کے پرنسپالوں کو ہٹانے کی مانگ کی ہے جنہوں نے طالبات کو کالج کیمپس سے باہر نکالا ہے ۔ دوسری طرف قومی سطح پر راہل گاندھی اور ششی تھرور نے زبانی طور پر ہی سہی اپنے ٹویٹر ہینڈلس پر حجاب کی مانگ کو درست قرار دیتے ہوئے طالبات کے ساتھ انصاف کا مطالبہ کیا ہے ۔ ششی تھرور نے دلیل دی ہے کہ اس طرح کی پابندی اور مخالفت درست نہیں ہے کیونکہ سکھ پگڑی باندھتے ہیں ، عیسائی گلے میں صلیب لٹکاتے ہیں جبکہ ہندو تلک لگاتے ہیں ۔ یہ سب عام چیز ہے ۔ جبکہ سکھوں کی پگڑی ، عیسائیوں کی صلیب اور ہندووں کے تلک پر فرانس میں پابندی ہے مگر ہندوستان میں اس کی اجازت ہے ۔
دو خیموں میں بٹ گئے ماہرین قانون : شال اور حجاب تنازع پر ماہرین قانون بھی دو خیموں میں بٹے ہوئے نظر آ رہے ہیں ۔ ایک طبقہ ایسا ہے جو حجاب کے ساتھ مسلم طالبات کے کالج اور کلاس روم میں حاضر ہونے کو غلط نہیں مانتا اور متاثرہ طلبہ کے مطالبات کی حمایت کرتا ہے ۔ جبکہ دوسرا طبقہ حکومت اور کالج انتظامیہ کی طرف سے لگائی جارہی پابندر کو قانونی طور پر درست مانتا ہے ۔
سابق ایڈوکیٹ جنرل کا موقف : سابق ایڈوکیٹ جنرل اور سینئر ایڈوکیٹ بی وی اچاریہ کا کہنا ہے کہ حکومت کو حاصل قانونی اختیارات کے تحت اپنے کالجوں میں یونیفارم کوڈ لاگو کرنے کے سلسلے میں وہ بالکل حق بجانب ہے اور طلبہ کو لازماً اس کی پابندی کرنی چاہیے ۔ وہ مثال کے طور پر گزشتہ سال اگست میں آئے الہ آباد ہائی کورٹ کے ایک فیصلہ کا حوالہ دیتے ہیں کہ جس میں ڈیوٹی کے وقت داڑھی رکھنے والے مسلم پولیس اہلکار کو سرکاری طور پر معطل کیے جانے کو درست قرار دیا جا چکا ہے ۔ اور اس کے لئے دستور کی دفعہ 25 کے تحت کوئی گنجائش دینے سے انکار کیا گیا ہے ۔
دوسرے قانونی ماہرین کا خیال : سینئر ایڈوکیٹ اودئے ہولّْا کا خیال ہے کہ کلاس روم میں ڈریس کوڈ ایسا ہو جس سے کسی بھی مذہب یا عقیدہ کی نشاندہی نہیں ہوتی ہو ۔ یا اس سے طلبہ کے مابین مذہبی رکاوٹیں پیدا نہیں ہوتی ہوں ۔ یونیفارم کا بینادی تصور طلبہ کے اندر یکسانیت ظاہر کرنا ہوتا ہے ۔ ایک اور سینئر ایڈوکیٹ اشوک ہارنہلّی کا موقف یہ ہے کہ طلبہ کو کالج کے اندر متحد ہونے کے احساس کے ساتھ حاضر ہونا چاہیے ۔ اسی وجہ سے حکومت نے ڈریس کوڈ جاری کیا ہے ۔ جس چیز سے اتحاد کو خطرہ ہو اور گروپ بندیوں کو تقویت ملتی ہو اس کی ہمت افزائی نہیں ہونی چاہیے ۔ کالج کیمپس میں حجاب ہی نہیں زعفرانی شال کی بھی اجازت نہیں دی جانی چاہیے ۔
حجاب کی حمایت میں ماہرین کی رائے : سال 2008 میں ریاستی وزیر اعلیٰ کے صلاح کار رہے سینئر ایڈوکیٹ کے دیواکر کا موقف یہ ہے کہ تمام ہندوستانی مسلمانوں پر مسلم پرسنل لاء (شریعت) اپلیکیشن ایکٹ 1937 کا اطلاق ہوتا ہے ۔ اس قانون کے تحت مسلم خواتین کو حجاب یا برقعہ پہننے کی پوری آزادی ہے ۔ جبکہ ہائی کورٹ کے سابق ریاستی پبلک پراسکیوٹر اور سینئر ایڈوکیٹ بی ٹی وینکٹیش کا کہنا ہے کہ دوسرے مذاہب جیسے ہندوازم سے تعلق رکھنے والوں کو ماتھے پر بندی لگانے اور چوڑیاں پہننے کی اجازت دینا اور حجاب پہننے والوں کو داخلہ کی اجازت نہ دینا سیدھے سیدھے مسلمانوں کو خاص نشانہ بنانا ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ حجاب کو صرف سر ڈھانکنے کی چیز سمجھنا چاہیے جو کچھ ممالک میں عیسائی بھی پہنتے ہیں ۔ اگر یونیفارم کے ساتھ ساتھ کوئی اسکارف کا بھی استعمال کرتا ہے تو اس سے کوئی مسئلہ نہیں ہونا چاہیے ۔ یہ حق تو مسلم طلبہ کو دستور کی دفعہ 19 اور 25 کے تحت دئے گئے حقوق میں شامل ہے ۔ اگر طلبہ اپنا دستوری حق مانگتے ہیں تو پھر حکومت کی طرف سے جاری کیا گیا کوئی بھی حکم اس کے سامنے ٹک نہیں سکتا ۔
ایک اور ماہر قانون این وینکٹیش کی رائے یہ ہے کہ اس سے پہلے کئی عدالتوں کے فیصلے حجاب پہننے کے حق میں آچکے ہیں ۔ 2016 میں جب آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنس نے اینٹرنس امتحان میں حجاب والے طلبہ پر پابندی لگائی تھی تو کیرالہ ہائی کورٹ نے حجاب کے ساتھ امتحان میں حاضر ہونے کی اجازت دی تھی ۔
بہر حال ان ساری بیان بازیوں، ہنگامہ آرائیوں اور پینترے بازیوں کا نتیجہ چاہے جو بھی ہو، حتمی بات یہی ہے کہ اس معاملہ میں عدالت ہونے والی سماعت کے بعد ہی یہ اندازہ ہوسکے گا کہ حجاب بمقابلہ زعفرانی شال کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے ۔
[اس مضمون کی تیاری میں مختلف میڈیا ذرائع سے استفادہ کیا گیا ہے]