بھٹکل: بچے اورنوجوان دور درازاور غیر آباد علاقوں میں تیراکی کے لئے جانے پر مجبور کیوں ہیں ؟ مسجدوں کے ساتھ ہی کیوں نہ بنائے جائیں تالاب ؟
بھٹکل 27/اپریل : سیر و سیاحت سے دل صحت مند رہتا ہے اور تفریح انسان کی جسمانی اور ذہنی صحت کو بہتر بناتا ہے۔اسلام سستی اور کاہلی کو پسند نہیں کرتا اسی طرح صحت مند زندگی گزارنے کے لیے غذائیت سے بھرپور خوراک کے ساتھ جسمانی سرگرمیوں کا ہونا بھی ضروری ہے۔ جسمانی سرگرمیوں میں جہاں مختلف قسم کی ورزش عام ہے، وہیں تیراکی ایک بہترین ورزش سمجھی جاتی ہے۔ تیراکی نہ صرف تفریح سے بھرپور کھیل ہے بلکہ اس میں پورے جسم کی ورزش ہوجاتی ہے۔ ماہرین کے مطابق صحت مند اور چاق چوبند رہنے کے لیے تیراکی سے اچھی کوئی ورزش نہیں۔ تیراکی اعصاب کو مربوط کرنے میں مدد کرتی ہے۔ ہفتے میں 2 سے 3 روز تیراکی انسان کو صحت مند اور تندرست وتوانا رکھنے کے لیے ضروری ہے۔
عام طور پرگرمیوں میں لوگ نہروں، تالابوں، جھیلوں اور سمند روں کا رُخ کرتے ہیں اور خوب لطف اٹھاتے ہیں۔ اسی لیے گرمی کے موسم میں سمندر اورسوئمنگ پولز پر لوگوں کا ہجوم بڑھ جاتا ہے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ جہاں پر بھی پرانی مساجد پائی جاتی ہیں، اُس مسجد کے احاطے میں تالاب بھی ضرورموجود رہتا ہے ، اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ پہلے کے زمانے میں گویا تالاب مسجد کا ایک لازمی حصہ ہوا کرتا تھا۔ ظاہر بات ہے کہ ہمارے اسلاف بے حد دور اندیش تھے ہمیں یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ انھوں نے تالاب کو مسجد کا حصہ اس لئے بنایا ہوگا کہ بچے ماہر تیراک بن جائیں اور بچے تیراکی کے ذریعے تفریح حاصل کرسکیں ان میں تیراکی کا ذوق اور شوق پیدا ہو اور ان کی وقت گزاری تیراکی کے ذریعے ہو۔
Bhatkal: Youth forced to remote waters—can mosques offer swimming ponds
کئی سال پہلے جب بھٹکل میں کافی تالاب موجود تھے مسجدوں کے تالابوں میں بچوں کی بھیڑ جمع رہتی تھی بچوں میں تالاب کی موجودگی سے تیراکی کا شوق کافی پروان چڑھا ہوا تھا چھوٹے چھوٹے پرائمری کے بچے بھی تیراکی کرتے تھے اور بڑے بچے اُن کو سکھایا کرتے تھے بارش کے ایام میں اسکول چھوڑنے کے فوراً بعد بچے تالابوں کا رخ کرتے تھے۔ بھٹکل میں سلطانی مسجد کا تالاب بے حد مشہور تھا یہاں پر ہر وقت ہلچل مچی رہتی تھی اسی طرح جامع مسجد، خلیفہ جامع مسجد اور نورمسجد کے تالابوں میں بھی ہمیشہ رونق رہتی تھی مشما مسجد کا تالاب آج بھی موجود ہے اور بچے تیراکی سیکھتے ہیں۔ سلطانی مسجد کا تالاب ایک مرکزی تالاب کی حیثیت رکھتا تھا مگر مسجد کی توسیع کے لئے اس تالاب کو مسجد میں شامل کر دیا گیا۔ بھٹکل میں اب مساجد کافی بڑی اور شاندارتعمیر ہوتی ہیں ماربل سے بنی ہوئی مساجد خوب دیدہ زیب ہوتی ہیں مساجد میں اے سی، جھومر اور خوبصورت قالین بھی بچھے ہوتے ہیں لیکن مسجدوں میں اب تالاب کہیں نظر نہیں آتا۔
بھٹکل میں شرابی ندی اورشاذلی مسجد کی ندی میں بھی روزانہ لوگ تیراکی کے لئے پہنچتے تھے، بالخصوص جمعہ کے دن یہاں بچوں اور بڑوں کی بھیڑ لگ جاتی تھی، لیکن شرابی ندی گھٹر کے نالے میں تبدیل ہونے کے بعد پچیس تیس سال قبل ہی تیراکی کا سلسلہ بند ہوچکا ہے۔ اُس کے بعد شاذلی مسجد کی ندی تیراکی سیکھنے کے لئے کافی مشہور تھی، نوجوان یہاں پر تیرنے جاتے تھے پہلے کافی بڑی تعداد میں نوجوان یہاں پر تیرنا سیکھتے بھی تھے اور دوسروں کو سکھاتے بھی تھے، مگر شاذلی مسجد میں ندی کی گہرائی اتنی کم ہوچکی ہے اور مٹی اور کیچڑ اتنی بھرگئی ہے کہ یہاں پر بھی آہستہ آہستہ لوگوں نے تیرنا بند کردیا ہے، البتہ بارش کے موسم میں جب ندی میں طغیانی آتی ہے تو بعض ماہر تیراک اس ندی میں تیراکی کرتے ہیں، مگریہاں اب بچوں کو تیرنے کی تربیت دینا ممکن نہیں ہے۔ جامعہ اسلامیہ میں بھی سنگ تراشی کی وجہ سے ایک کنواں تیراکی کے لئے استعمال ہورہا تھا، مگرکہا جاتا ہے کہ ایک حادثہ کے بعد اُسے بھی بند کردیا گیا۔
ایسی بات نہیں ہے کہ شرابی ندی، شاذلی مسجد کی ندی یا مسجدوں کے تالابوں میں تیراکی کے دوران اموات نہیں ہوتی، یہاں کافی اموات ہوئی ہیں جناب شینگیری محمد میراں عرف کوئشا میراں (مرحوم) اس وقت ماہر تیراک کے طور پر جانے جاتے تھے کہا جاتا ہے کہ انھوں نے چالیس سے زیادہ جانوں کو ڈوبنے سے بچایا اور کئی لاشوں کو بھی ندی سے نکالا جب بھی اس وقت کوئی حادثہ پیش آتا تھا جناب کوئشا میراں صاحب کو یاد کیا جاتا تھا ۔ مگر آج حال یہ ہے کہ بڑے ہوں یا بچے تیراکی کے لئے اُن کے پاس سمندر میں جانے کے علاوہ کوئی دوسرا آپشن نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ تیراکی سے ناواقف لوگوں اور بچوں کے لئے اب تیراکی سیکھنے کی کوئی جگہ شہر میں باقی نہیں بچی ہے۔ بعض جگہوں پرفیس بھر کر سوئمنگ پول میں تیراکی سیکھنے کے لئے کبھی کبھی بچے جاتے ہیں مگر یہ اپنی حیثیت پرمنحصر کرتا ہے کہ وہ ہفتہ میں ایک بار جائیں یا چھ ماہ میں ایک بار ۔ مسجدوں میں تالاب ہونے کی وجہ سے پہلے عام و خاص سبھی لوگ تالاب کا یکساں فائدہ اٹھاتے تھے، مسجدوں کے تالاب میں تیراکی سیکھنے کی بات ہی کچھ اور تھی جو سوئمنگ پول میں نظر نہیں آتی۔
یاد رہے کہ تیر اندازی اور تیراکی کے فن سے واقف ہونا یہ سنت ہے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے تیراکی سیکھنے کی تاکید فرمائی ہے جبکہ تیراکی سے ذہنی و جسمانی ورزش ہوتی ہے آج کے نوجوان تیراکی سے بہت کم واقف ہیں انھیں وہ مواقع نہیں مل رہے ہیں جس کی وجہ سے وہ ایک ماہر تیراک بن سکیں آج کل کے بچوں کے لئے کھیل کود کے لئے بھی محلوں میں میدان باقی نہیں بچے ہیں، جن کھیتوں میں جاکر کھیلا کرتے تھے، اب اکثر کھیتوں میں بڑی اور عالیشان عمارتیں کھڑی ہوچکی ہیں۔ ایسے میں بچوں کو تفریح کے لئے ایک موبائل کا سہارا باقی بچا ہے جس سے بچوں کی زندگی بے حد متا ثر ہورہی ہے اور موبائل سے بچوں کے اخلاق بگڑتے جارہے ہیں۔
افسوس اس بات پر ہے کہ اسلاف کے بنائے ہوئے مسجدوں کے تالابوں کو مٹانے کے لئے لاکھوں روپئے خرچ کئے گئے۔ پتہ نہیں ان تالابوں کی تعمیر میں کتنی رقم لگی ہو گی۔ ہمیں یاد ہے کہ جب سلطانی مسجد کے تالاب کو مٹی اور کنکریٹ بھر کر بند کر دیا گیا تھا تو پانی بدستور آ رہا تھا جس پر بڑی مشکل سے قابو پایا گیا۔ بتایا جاتا ہے کہ سلطانی مسجد کا تالاب بند کرنے کے بعد کُپتی (آزاد نگر) کا تالاب سوکھ گیا۔
بتاتے چلیں کہ شرابی ندی اور شاذلی مسجد والی ندی سمیت مسجدوں کے تالاب بند ہونے کے بعد نوجوان اب دور دراز اور پُرخطر جگہوں پرجانے لگے ہیں اُنہیں جہاں بھی گہرا پانی نظرآتا ہے، وہیں پرآگے پیچھے دیکھے بغیر جمپ لگادیتے ہیں اور تیراکی شروع کردیتے ہیں۔ جالی بیچ، نستاربیچ، سوڈی گیدے اور دیگر سمندرمیں تیراکی کے لئے جانا خطرے سے خالی نہیں ہے، مگر ان کے ساتھ برسات سے بنے عارضی تالاب اور نالے بالخصوص بینگرے کا ملّاری نالہ، کسل گدّے کا منی فالس، شرالی میں قاسمجی تالاب، شرالی الوے کوڈی ندی، ہنومان نگر، زمرمٹّا، گاندھی فالس، ہینجلے اور اس جیسے کئی عارضی جگہیں بھی ہیں جہاں کے گڈھوں میں جب بارش کا پانی جمع ہوتا ہے تو نوجوان تیرنے کے لئے وہاں پہنچ جاتے ہیں۔ایسے میں اُن دور دراز، غیر آباد اور غیر معروف جگہوں پرکوئی حادثہ پیش آتا ہے تو فوری مدد کے لئے پہنچنا ممکن نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ ایسی صورت میں کئی جانیں جاچکی ہیں۔ایسے میں اپنے ماحول کو چھوڑ کر دور دراز اور غیر آباد علاقوں میں نوجوانوں کو تیراکی کے لئے جانے سے روکنے کے لئے اُن کے لئے متبادل انتظام ہونا بھی ضروری ہے۔
قومی اور سماجی اداروں کے ساتھ ذمہ داران قوم کو اس تعلق سے سوچنا چاہئے کہ ہم اپنی مسجدوں میں ہی تیراکی کے لئے تالاب کیوں نہ تعمیر کریں اور مسجدوں اور محلہ کی اسپورٹس کمیٹیوں میں ایک ایسی کمیٹی کا اضافہ کیوں نہ کریں جن کے ذمہ تالابوں کی خبر گیری کرنا ہو اور تیراکی کے لئے آنے والوں کو مناسب سہولیات اور تحفظ فراہم کرنا ہو۔
ہماری قوم کو اس بات پربھی سنجیدگی سے سوچنا چاہیے کہ ہمارے نونہال تیراکی کے فن سے کہیں محروم نہ ہو جائیں ، ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ تیراکی بھی ایک فن ہے تیرنے کی مشق ایک بہترین اور مکمل جسمانی ورزش ہے، آج کل بارش ہو تے ہی اکثر جگہوں پر سیلاب جیسی صورتحال پیدا ہوتی ہے، ایسے میں ایک ماہر تیراک انسانیت کی بہترین خدمت کرسکتا ہے۔ نشیبی علاقوں میں عام طور پر پانی میں ڈوبنے کے واقعات اکثر پیش آتے رہتے ہیں۔ ایسے حادثاتی مواقع پر ماہر تیراک لوگوں کی جان بچانے کی کامیاب کوشش کرسکتا ہے۔ ہمیں تیراکی کو مدرسہ اور اسکول کے نصاب میں شامل کرنے کی طرف بھی غور کرنے کی ضرورت ہے۔
(تحریر: مولاناایس ایم سید زُبیرندوی/آئی جی بھٹکلی)