تعلیمی وڈیو بنانے والے معروف یوٹیوبر دُھرو راٹھی کون ہیں ؟ ہندوستان کو آمریت کی طر ف بڑھنے سے روکنے کے لئے کیا ہے اُن کا پلان ؟
تعلیمی وڈیوبنانے والے دُھرو راٹھی جو اِ س وقت سُرخیوں میں ہیں، موجودہ مودی حکومت کو اقتدار سے بے دخل کرنے کے لئے کھل کر منظر عام پر آگئے ہیں، راٹھی اپنی یو ٹیوب وڈیو کے ذریعے عوام کو سمجھانے کی کوشش کررہے ہیں کہ موجودہ حکومت ان کے مفاد میں نہیں ہے، عوام کو چاہئے کہ اپنے ووٹوں کے ذریعے مودی حکومت کو اقتدار سے بے دخل کریں اور ہندوستان کو آمریت کی طرف بڑھنے سے محفوظ رکھیں۔ دُھرو راٹھی کی حال ہی میں بنی وڈیو ’’کیا ہندوستان ڈکٹیٹرشپ کی طرف جارہا ہے؟‘‘ کو ۲۴؍ ملین (ڈھائی کروڑ) سے زیادہ ناظرین نے دیکھا۔ اس وڈیو نے مودی حکومت کی پول کھول کر رکھ دی ہے کہ حکومت کا آخر منشاء کیا ہے۔ اس وڈیو کے ساتھ راٹھی نہ صرف ملک بھر میں بلکہ دنیا بھر میں اس قدر مشہور ہوگئے کہ اُس کے بعد بنائی ہوئی وڈیو بھی عوام نے بے حد پسند کیا۔ مکمل ڈاٹا اور وڈیو ثبوت کے ساتھ جب و ہ وڈیو پیش کرتے ہیں تو دیکھنے والا یقین کئے بغیر نہیں رہ سکتا ہے کہ جو کچھ راٹھی دکھانا چاہتے ہیں وہ صد فیصد سچ ہے۔ آج راٹھی کی یو ٹیوب وڈیو اتنی زیادہ معروف ہوگئی ہے کہ بڑے بڑے شہروں میں ان کی وڈیوز کو عوام کے لئے بڑی بڑی اسکرینوں پر لگا کر عوام کو سچائی سے واقف کرانے کی کوششیں ہورہی ہیں۔ اس صمن میں راٹھی کا کہنا ہے کہ اگر میرا ویڈیو دیکھنے والا ہر شخص ۱۰۰؍ لوگوں کو اعتماد میں لے تو ہزار ملین سے زیادہ صحیح الذہن شہری اس حکومت کو بے دخل کرنے کیلئے کمربستہ ہوجائینگے۔
ہمیشہ ٹی شرٹ پہنےنظر آنے والے ۲۹؍ سالہ دھرو راٹھی نے اپنے ویڈیوز کے ذریعہ مضبوط ساکھ بنانے میں کامیابی حاصل کرلی ہے۔ راٹھی نے سیاسی یوٹیوبر کی حیثیت سے ۲۰۱۶ء سے اپنے سفر اور کریئر کا آغاز کیا۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب انہوں نے شدت کے ساتھ محسوس کیا کہ وزیر اعظم نریندر مودی کے دور اقتدار کی پہلی میعاد ناقص کارکردگی کا مظہر ہے۔ اس سے قبل وہ تعلیمی ویڈیو بنایا کرتے تھے، اُن کے لئے اسپانسر تلاش کرتے تھے۔ اُس سفر میں بھی وہ کامیاب ہوئے، جب اُنہوں نے موجودہ حکومت کی کارستانیاں دیکھیں تو اُنہوں نے اچانک ہندوستان میں ہورہے سیاسی سرگرمیوں پر چھان بین شروع کردی اور حقیقت حال سے عوام کو ایسے واقف کرایا کہ غالباً مودی حکومت اب سکتے میں آچکی ہے۔
راٹھی نے طرز حکمرانی، آزادیٔ اظہار رائے، سیکولرازم اور ایسے ہی دیگر موضوعات پر اپنے مخصوص انداز میں ریسرچ اور ویڈیو سازی شروع کردی ہے۔ جرمنی میں رہتے ہوئے اور اپنی جرمن اہلیہ کے ساتھ زندگی گزارنے کے باوجود ہندوستانی اُمور اور خبروں سے اُن کی واقفیت اور عوام کی رہنمائی کا جذبہ غیر معمولی ہے۔ ابھی چند روز پہلے ہی انہوں نے رام نومی پر ٹویٹ کیا تھا اور کہا تھا ’’تمام صحیح الذہن ہندوؤں کو متحد ہونا چاہئے تاکہ رام کو ناتھو رام سے بچا سکیں۔‘‘
راٹھی خود کو صحافی نہیں کہتے۔ اُن کا کہنا ہے کہ وہ ایک یو ٹیوبر ہیں، آرٹسٹ (فن کار) ہیں، ’’مجھے صحافی مت کہئے۔‘‘ ایسا وہ شاید اسلئے کہتے ہیں کہ موجودہ دور میں وہ صحافت کے طور طریقے دیکھ رہے ہیں۔ ویسے، مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے وہ سوشل میڈیا کو زیادہ مورد الزام ٹھہراتے ہیں اور اُن کا کہنا ہے کہ ملک میں جو کچھ بھی ہورہا ہے اس کی زیادہ ذمہ داری سوشل میڈیا پر ہے۔ حال ہی میں انہوں نے جو وڈیو پیش کی ہے، اُس میں انہوں نے تفصیل سے بیان کیا ہے کہ وہاٹس ایپ کے ذریعے کس طرح عوام کو گمراہ کیا جارہا ہے اور مودی کو ایک مسیحا کے طور پر پیش کرنے کی کوششیں ہورہی ہیں اور اسی کے نتیجے میں ملک کے کئی عوام بے روزگاری ، مہنگائی اور ہزاروں کڑوڑ کے گھپلوں اور گھوٹالوں کے باوجود مودی کو ہی ووٹ دینے کی باتیں کرتے ہیں
۲۰۱۹ء میں اُنہوں نے مودی حکومت کے پانچ برسوں کے تجزئیے پر مبنی دو قسطوں میں ایک ویڈیو بنایا تھا جس میں کئی شعبہ جات میں اُن کی کارکردگی کو اسکور دیا گیا تھا۔ اس ویڈیو میں کئی شعبوں میں مودی حکومت کی کارکردگی کو صفر اسکور سے نوازا گیا تھا مگر دو قسطوں پر مشتمل یہ ویڈیو خاصا تنقیدی تھا مگر اتنا نہیں جتنا کہ اس سال فروری میں جاری ہونے والا اُن کا وہ ویڈیو ہے جس کا ذکر اوپر آچکا ہے او رجس میں اُنہوں نے کئی واقعات کو بطور ثبوت پیش کرتے ہوئے یہ سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ ہندوستان ’’ایک ملک، ایک پارٹی‘‘ بننے کی راہ پر ہے۔ اس ویڈیو میں وہ کہتے ہیں: ’’اگر آپ کو اپنے ملک کی فکر ہے تو آپ کیلئے لازمی ہے کہ آپ اس ویڈیو کو دیکھیں۔‘‘ اس میں کئی واقعات یا اقدامات کا حوالہ دیا گیا ہے مثلاً منتخبہ (ریاستی) حکومتوں کے اختیارات کو متاثر کرنا، دوسری پارٹیوں کے اراکین کو ’’اعتماد‘‘ میں لے کر حکومت بدل دینا، اپوزیشن کو خاموش کرنے کی کوشش کرنا، شہریوں کو احتجاج کے حق سے محروم کرنے کی کوشش کرنا، مظاہرین پر آنسو گیس کے گولے داغنا، گورنروں کے ذریعہ ریاستی حکومتوں کو پریشان کرنا، اپوزیشن کے سیاستدانوں کو جیل میں ڈالنا، ریاستی حکومتوں کو سرمائے کی فراہمی روکنا وغیرہ۔
زیر بحث ویڈیو میں دُھرو راٹھی انتخابی عمل میں دھوکہ دہی اور جوڑ توڑ کو بھی موضوع بناتے ر ہتے ہیں کہ ان معاملات سے آپ واقف ہیں مگر ٹی وی کا کون اینکر ہے جو ان پر پروگرام بناتا ہے؟ اس سلسلے میں وہ چنڈی گڑھ کے میئر الیکشن کا حوالہ دیتے ہیں اور سی سی ٹی وی فوٹیج اور میڈیا کے کلپس کا استعمال کرتے ہوئے یہ بتانے کی بڑی حد تک کامیاب کوشش کرتے ہیں کہ کیا ہوا اور کیسے ہوا۔ اس کے ساتھ ہی وہ لوک سبھا الیکشن میں ای وی ایم کے چرا لئے جانے کا بھی حوالہ دیتے ہیں۔ وہ اپنی بات دلائل کے ساتھ پیش کرتے ہی ہیں، بیچ بیچ میں اپنے ناظرین کو بیدار کرنے کیلئے بھی کوشاں رہتے ہیں کہ جمہوریت کیا ہے اور کیا نہیں ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ صرف پولنگ بوتھ تک پہنچ جانا اور ووٹ دے آنا کافی نہیں۔ اگر صرف الیکشن جمہوریت کے تحفظ کیلئے کافی ہو تو شمالی کوریا اور روس میں بھی الیکشن ہوتے ہیں۔ دُھرو راٹھی نے موجودہ دور کے طرز حکمرانی کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا اور بتایا کہ کس طرح کمپٹرولر اینڈ آڈیٹر جنرل آف انڈیا نے مرکزی حکومت کی متعدد بے ضابطگیوں پر گرفت کی مگر اس کا نتیجہ کچھ نہیں نکلا، اُلنا کمپٹرولر اینڈ آڈیٹر جنرل کے افسران ہی کا تبادلہ کردیا گیا۔ طرز حکمرانی ہی کو اُجاگر کرنے کیلئے وہ الیکشن کمیشن آف انڈیا کو بھی نہیں بخشتے اور اس کی جانبداری کو بیاں کرنے کیلئے متعدد موقعوں پر اُن لوگوں کو کلین چٹ دینے کا حوالہ دیتے ہیں جو خاطی تھے۔
۱۰؍ تا ۱۵؍ ہندوستانی تحقیق کاروں اور ایڈیٹروں کی دُھرو راٹھی کی ٹیم ہندوستان سے اُن کیلئے کام کرتی ہے۔ اپنے ناظرین کو الیکٹورل بونڈز کی بابت بتاتے ہوئے وہ اُسے ’’گھوٹالوں کی بھنڈار‘‘ قرار دیتے ہیں۔ اُن کے ویڈیوز میں محض لفاظی نہیں بلکہ شواہد پیش کئے جاتے ہیں چنانچہ الیکٹورل بونڈز کے سلسلے میں بھی اُنہوں نے بھرپور تفتیش کے بعد یہ بتانے کی کوشش کی کہ کس طرح بی جے پی کو عطیات ملے اور پھر گجرات میں اراضی فی مربع میٹر کس بھاؤ میں دی گئی جبکہ سرکاری نرخ کیا تھا۔ ظاہر ہے کہ یہ جرأت کا کام ہے ۔
حال ہی میں پیش کی گئی دُھرو راٹھی کی تین سب سے ٹاپ وڈیو، ذیل میں پوسٹ کی جارہی ہے۔