’’مشرق وسطی میں امریکہ کی حکمت عملی کی منطق‘‘ مناما، بحرین میں سیکریٹری دفاع ایش کارٹر کا خطاب

Source: S.O. News Service | By I.G. Bhatkali | Published on 13th December 2016, 1:26 PM | خلیجی خبریں | عالمی خبریں | ان خبروں کو پڑھنا مت بھولئے |

 نئی دہلی 13/  دسمبر (ایس او نیوز) بحرین کے شہر مناما میں سنیچر کوامریکہ کے سیکریٹری دفاع ایش کارٹرنے  ’’مشرق وسطی میں امریکہ کی حکمت عملی کی منطق‘‘  پر جو خطاب کیا تھا، اُس کا اُردو ترجمہ یہاں پیش کیا جارہا ہے۔ اُن کے خطاب کا اُردو ترجمہ امریکن ایمبیسی (نئی دہلی) کی طرف سے بذریعہ ای میل موصول ہوا ہے، جسے یہاں ہو بہو شائع کیا جارہا ہے۔

اچھا، اس تعارف پر آپ کا شکریہ۔ آپ سے دوبارہ ملاقات، اس اہم آئی آئی ایس ایس کے فورم سے خطاب کرنا اور اس کمرے میں موجود اتنے بہت سے اچھے دوستوں، اتحادیوں اور شراکت داروں کے ساتھ، دوبارہ بحرین آنا بہت اچھا لگا ہے۔

میں دو ہفتوں کے دنیا بھر کے دورے کے درمیان میں ہوں، جس کے دوران میں، تعطیلات قریب آنے پر بحرالکاہل ایشیا، مشرقِ وسطی اور یورپ میں امریکی افواج سے مل رہا ہوں - اس کے علاوہ میں ہر علاقے میں امریکہ کے سب سے ثابت قدم اور وفادار دوستوں اور اتحادیوں میں سے کچھ سے بھی ملاقات کر رہا ہوں۔

یہ ایسا دورہ ہے جو ان پانچ فوری، واضح اور ابھرتے ہوئے چیلنجوں کی نمائںدگی کرتا ہے جن کا سامنا امریکہ کی فوج کے جوانوں اور خواتین کو آج کرنا پڑ رہا ہے۔ وہ روسی جارحیت اور دباؤ کے امکان کا مقابلہ کر رہے ہیں خصوصاً یورپ میں۔ وہ بحرالکاہل ایشیا میں تاریخی تبدیلی کی نگرانی کر رہے ہیں جو کہ امریکہ کے مستقبل کا واحد اہم ترین علاقہ ہے۔ وہ جنوبی کوریا کی مسلسل جاری ایٹمی اور میزائل اشتعال انگیزی کے خلاف ہماری مزاحمتی اور دفاعی افواج کو مضبوط بنا رہے ہیں۔ اور یہاں مشرقِ وسطی میں وہ ایران کی جارحیت اور ضرر رساں اثر و رسوخ پر نظر رکھے ہوئے ہیں اور ہمارے دوستوں اور اتحادیوں کا دفاع کرنے میں مدد کر رہے ہیں. وہ دہشت گردی کا انسداد کر رہے ہیں اور داعش کی یقینی اور پائیدار شکست کو تیزتر کر رہے ہیں۔ اور اسی دوران اس پیچیدہ حال کا مقابلہ کرتے ہوئے، وہ ایک غیر یقینی مستقبل سے نپٹنے کی تیاری بھی کر رہے ہیں-  اس بات کو یقینی بناتے ہوئے کہ امریکہ کی فوج ان چیلنجوں کے لیے تیار ہو جن کے بارے میں ہو سکتا ہے کہ ہم ابھی اندازہ نہ لگا سکیں۔

جاپان، بھارت اور افغانستان کا دورہ کرنے کے بعد، میں اب یہاں مشرقِ وسطی میں بہت سی جگہوں پر روکوں گا۔ اور آج میں آپ سے اس علاقے کے بارے میں امریکہ کے نقطہ نظر کے بارے میں بات کروں گا اور اس بات کی اہمیت کے بارے میں کہ اسے جاری کیوں رہنا چاہیے۔

عہدہ سنبھالنے کے بعد میرا پہلا غیر ملکی دورہ مشرقِ وسطی کا تھا اور یہ میرا سیکریٹری دفاع کے طور پر علاقے کا ساتواں دورہ ہے۔ اور بہت سے دوسرے امریکی دفاعی اہلکاروں کی طرح، یہ میرے طویل کیرئر کے دوران ایسے بہت سے دوروں میں سے تازہ ترین ہے - یہ میرے شعبہ کی طرف سے اس علاقے کے لیے اپنے عہد اور قیادت کی گواہی دیتا ہے۔

درحقیقت، امریکہ کے محکمہ دفاع کی مشرق وسطی میں تقرری اور شراکت داری کی ایک طویل تاریخ ہے - نہ صرف حکمت عملی کے تحت بلکہ ذاتی طریقوں پر بھی۔ امریکی افواج اور شعبہ دفاع کے شہریوں کی نسلوں نے یہاں پر وقت گزارا ہے۔ کئی دیہائیوں سے، امریکہ کے فوجیوں اور علاقے کے ممالک نے مشترکہ مشقوں میں اکٹھے تربیت حاصل کی ہے۔ انہوں نے جنگی کالجوں میں اکٹھے پڑھا ہے۔ انہوں نے علاقے بھر میں - زمین، فضاء اور سمندر میں اکٹھے خدمات سر انجام دی ہیں۔ اور انہوں نے میدانِ جنگ میں اکٹھے قربانیاں بھی دی ہیں۔ اس سب کے دوران انہوں نے تعلقات قائم کیے ہیں  - فوجی سے فوجی، سیلر سے سیلر، ایرمین سے ایرمین، میرین سے میرین - جو کہ زندگی بھر قائم رہیں گے، جن سے ہماری شراکت داری مضبوط ہوئی ہے جیسے جیسے وہ ہماری افواج میں ترقی کرتے گئے ہیں۔

آج، یہ علاقہ امریکی افواج کا مضبوط گڑھ ہے جو کہ 58,000 امریکی اہلکاروں پر مشتمل ہے جو کہ زمین اور سمندر میں تعینات ہیں۔ جن میں سے تقریبا 5,000 عراق اور شام میں میدان میں موجود ہیں -ان کے ساتھ ہی ہمارے انتہائی قابل فضائی، زمینی، بحری اور بلاسٹک میزائل دفاع کے اثاثے بھی موجود ہیں۔ یہ افواج نہ صرف داعش اور القائدہ جیسے دہشت گردوں کا مقابلہ کر رہی ہیں بلکہ وہ اشتعال کو ختم اور ہمارے مفادات اور اتحادیوں کی حفاظت بھی کر رہی ہیں۔ اس کے علاوہ، بحران کی صورت میں، یہاں پر موجود بڑی فوج کے ساتھ انتہائی سرعت سے افواج کی بڑی تعداد علاقے میں صف آراء ہو سکتی ہے جن کے پاس انتہائی جدید اسلحے کے ساتھ ساتھ جدید ترین صلاحیتں اور پلیٹ فارم موجود ہیں جس کی وجہ سے کوئی بھی حدف ناقابلِ رسائی نہیں ہے۔

ان سب کی وجہ اور مشرق وسطی میں امریکہ کی حکمت عملی کی منطق، اس بات کی متقاضی ہے کہ اسے بیان کرنے میں کچھ وقت صرف کیا جائے۔ یہ بہت ہلچل، افراتفری اور اندورنی ہنگامہ آرائی کا علاقہ بن سکتا ہے  -یہ چیلنج علاقے سے باہر نکل سکتے ہیں جس میں دہشتگردی کی شکل بھی شامل ہے - دنیا میں کسی بھی علاقے سے زیادہ امکانی طور پر۔ مگر اس افراتفری کے باجود، میں آپ کو اس بات کا یقین دلا سکتا ہوں کہ محکمہ دفاع ہمارے مشن کے بارے میں واضح اور حتمی رائے رکھتا ہے: یہ امریکہ کے قومی مفادات کا تحفظ اور انہیں حاصل کرنا ہے۔ وہ ہمارا شمالی ستارہ ہیں  -مشرق وسطی میں امریکہ کی حکمت عملی کے لیے مشعلِ راہ۔

ہمارے مفادات میں سے پہلے اور اہم بات اپنے لوگوں کا دفاع ہے۔ اور اس کے بعد وہ کچھ ایسے ہیں: اشتعال انگیری کو ختم کرنا، اپنے اتحادیوں اور دوستوں کی علاقے بھر میں سیکورٹی کو بڑھانا، گلف میں اور اس کے قرب وجوار میں نقل و حرکت کی آزادی کو یقینی بنانا، بڑے پیمانے پر تباہی کے ہتھیاروں کے پھیلاؤ کو روکنا اور ایران کی عدام استحکام کی سرگرمیوں پر نظر رکھنا اور اس کے علاوہ  -امریکہ کے عوام کی حفاظت سے براہ راست جڑی ہیں- دہشت گردی  اور متقدد انتہاپسندی کا مقابلہ کرنا جس میں اس وقت خصوصی طور پر داعش کو شکست دینا شامل ہے۔

اب مجھے یہ کہنے کی ضرورت ہے- اور یہ یہاں بھی اتنا ہی سچ ہے جتنا دنیا میں کسی اور جگہ پر - کہ امریکہ کے مفادات ہمیشہ وہ نہیں ہوتے جو علاقے کے ملکوں کے انفرادی طور پر ہوتے ہیں- نہ ہی وہ ان کے اپنے درمیان یکساں ہوتے ہیں۔ مگر اکثر و بیشتر وہ ایک دوسرے سے ملتے ہیں یا اکٹھے ساتھ چل سکتے ہیں۔ جب ایسا ہوتا ہے تو یہ امریکہ کے لیے اچھا ہے اور یہاں کے بہت سے ممالک کے لیے بھی اچھا ہے۔ اور ہمارے مفادات ایک جیسے اتنی دفعہ ہوئے ہیں کہ ہم موثر طریقے سے کام کرنے کے زیادہ سے زیادہ اہل ہوئے ہیں۔

ہمارے پائیدار مفادات ہی وہ وجہ ہیں کہ محکمہ دفاع کا دنیا کے اس حصہ کے ساتھ عہد اتنے عرصے تک جاری رہا ہے اور کئی دیہائیوں سے مسلسل قائم ہے اور میرے یقین کی بھی یہ ہی وجہ ہے کہ یہ مزید کئی دیہائیوں تک چلتا رہے گا۔ جیسا کہ میں آج بات بیان کروں گا کہ ہمارے ممالک نے باہمی مفادات کو حاصل کرنے کے لیے ماضی اور حال میں مشترکہ چیلنجوں کا کس طرح مل کر مقابلہ کیا ہے-  جو اس بات کو تجویز بھی کرتا ہے کہ ہمیں اسے مسقبل میں کیسے کرنے کی ضرورت ہے۔

ہمیں اسے زیادہ موثر طریقے سے اس جگہ کر سکے ہیں جہاں امریکہ نے پہلے صلاحیتوں کی تعمیر کرنے اور پھر علاقے میں اتحادیوں اور دوستوں کی افواج کو قابل بنانے میں راہنمائی کی تاکہ وہ امریکہ کی فوج کی زبردست صلاحیتوں کے ساتھ مل کر، ملک کے اندر اور ممالک کے درمیان دیرپا سیکورٹی کو قائم رکھ سکیں۔ بے شک اس کی سب سے حالیہ مثال یہ ہے کہ ہم علاقے میں سب سے تازہ اور فوری خطرے جو کہ داعش کا ہے، کا مقابلہ کیسے کر رہے ہیں۔ چونکہ داعش اس علاقے سے ابھری ہے اور اس کے لیے خطرہ بھی ہے اس لیے اس کی قریبی شکست امریکی افواج کی عالمی اتحاد کے حصہ کے طور پر، مقامی افواج کو داعش کو وہ شکست دینے کے قابل بنانے، جس کے وہ قابل ہے اور جو یقینی طور پر اس کے ملے گی، کی مثال ہے۔ اور اس شکست کو دائمی بنانا۔

ہم نے داعش کے مقابلے کے لیے اتحاد کی فوج کے منصوبے میں ایک اہم سنگِ میل حاصل کر لیا ہے۔ آج جب ہم بحرین میں ملاقات کر رہے ہیں، امریکہ اور اتحادی افواج  ایک شدید کوشش میں جتی ہیں عراق میں موصل اور شام میں راقہ میں داعش کے قبضے کے ختم کرنے اور انہیں تنہا کرنے کی کوششوں میں مدد کرنے کے لیے، اس سلسلے میں ہماری تمام صلاحیتں مقامی افواج کو حاصل ہیں جو ان کی اہلیت اور ان کے جذبے کو بڑھا رہی ہیں۔ ان دونوں شہروں پر قبضہ ضروری ہے تاکہ عراق اور شام میں داعش کے ناسور کی تباہی کو یقینی بنایا جا سکے - یہ ہماری عسکری مہم کا بنیادی مقصد ہے - اور داعش کو پائیدار شکست کے ناقابل واپسی راستے پر ڈالنا۔

اس سنگِ میل تک پہنچنا گزشتہ سال سے لیے جانے والے ارادی اقدامات کا نتیجہ ہے۔ پہلے، 2015 کے موسم گرما میں، میں نے عراق اور شام کے لیے جنگی کوششوں کو ایک واحد، متحد کمانڈ کے تحت کیا جس کی سربراہی پہلے لیفٹینٹ جنرل شان میکفارلینڈ نے کی اور پھر جنرل ٹاونسینڈ  -مجھے کہنا چاہیے کہ جو وٹل کو اور جو مجھے رپورٹ کرتے ہیں۔ جو آج یہاں موجود ہیں - ہائے جو۔ پھر گزشتہ اکتوبر میں، جوائنٹ چیف آف اسٹاف کے چیرمین جنرل جو ڈنفورڈ اور میں نے داعش کے خلاف مہم کو تیز کرنے کے لیے اصلاحات کے ایک سلسلے کے پہلے حصے کو تیار کیا، جس کی منظوری صدر اوباما نے دی- جس میں امریکی فوج کے ہر ہتھیار کو اس جنگ میں متعارف کروایا گیا۔ اور مجھے آپ کو یہ بتانا چاہیے کہ اس وقت سے اب تک، صدر اوباما نے اضافی افواج اور صلاحیتوں کی ہر اس تجویز کو منظور کیا ہے جسے میں اور چیرمین ان تک لے کر گئے ہیں جیسے ہی ہم نے مہم کو تیز کرنے کے کسی امکان کو دیکھا - جس میں گزشتہ ہفتے کی بات بھی شامل ہے جس کی تفصیل میں چند لمحات کے بعد پیش کروں گا۔

مجموعی کولیشن ملٹری کیمپین پلان جسے ہم نے گزشتہ سال تیار کیا تھا اور جو ابھی بھی جاری ہے، کے تین مقصد ہیں۔ پہلا تو داعش کے مادری سرطان کو عراق اور شام سے ختم کرنا ہے کیونکہ ہم داعش کے وحشیانہ نظریات کی بنیاد پر اسلامی ریاست کی حقیقت اور خیال دونوں کو ہی جتنی جلدی ختم کریں گے، ہم اتنے ہی محفوظ ہوں گے۔ یہ ضروری ہے مگر یہ کافی نہیں ہے۔ اس لیے دوسرا مقصد دنیا بھر میں کہیں بھی: افغانستان، لیبیا اور دوسری جگہوں پر، داعش کے ثانوی ناسور کو تباہ کرنا ہے۔ اور تیسرا مقصد اپنی انٹیلیجنس، ہوم لینڈ سیکورٹی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ کام کرنا ہے تاکہ اپنے مادرِ وطن اور اپنے لوگوں کو حملے سے بچایا جا سکے۔

 عراق، شام اور دوسری جگہوں پر ہماری عسکری مہم کی حکمت عملی کا نکتہ نظر یہ ہے کہ داعش کو ایک دائمی شکست دینے کی محرک مقامی افواج کو اہل اور قابل بنانے کے لیے تمام ہتھیار فراہم کیے جائیں۔ حکمت عملی کے اس طریقہ کار کی تجویز دینا اس لیے ضروری تھا کیونکہ اس بات کو یقین بنانے کے لیے کہ جب داعش کو شکست ہو تو یہ شکست قائم رہے ایک ہی راستہ تھا کہ مقامی افواج کو اس قابل بنایا جائے کہ وہ علاقے کو قبضہ میں لیں اور اس قبضے کے برقرار رکھیں بجائے اس کے کہ ان کی جگہ کام کیا جائے۔ اس طریقہ کار سے مطابقت رکھتے ہوئے ہم نے امریکہ کی فوج کی سب سے شاندار صلاحیتوں اور اپنے خصوصی ترین عملے کو جن کا تعلق فضائی طاقت اور خصوصی آپریشنز افواج سے ہے کو تعینات کیا تاکہ وہ تربیت، مشورہ، زمین پر صلاحیتوں میں مدد، انٹیلی جنس اور سائبر ہتھیار فراہم کر سکیں۔ وہ امریکہ اور اتحادی افواج کا مکمل بوجھ بھی اٹھا سکتی ہیں۔

اپنی صلاحیتوں کو اپنے مقامی شراکت داروں کے ساتھ ملانے سے، ہم ہر طرف سے اور ہر علاقے سے بیک وقت دباؤ ڈال کر داعش کو دبا رہے ہیں، ارادی ایکشن کے ایک سلسلے کے ذریعے تاکہ مومینٹم کو بنایا جا سکے۔ مثال کے طور پر جب امریکہ اور اتحادی خصوصی آپریٹر چھاپے مارتے، یرغمالیوں کو رہا کرواتے، انٹیلیجنس اکٹھی کرتے اور داعش کے راہنماؤں کو گرفتار کرتے ہیں تو اس سے بہتر انٹیلی جنس کا ایک مثالی سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ اس کے نتیجہ میں مزید حدف ملتے ہیں، مزید چھاپے مارے جاتے ہیں، زیادہ فضائی حملے ہوتے ہیں اور مزید مواقع پیدا ہوتے ہیں جن سے فائدہ اٹھا کر مزید مومینٹم پیدا کیا جا سکتا ہے۔

داعش مخالف اتحاد میں سے سب ممالک، جن میں علاقے کے کچھ ملک بھی شامل ہیں، ان عسکری کوششوں میں مدد کر رہے ہیں۔ مشرق وسطی میں سے بہت سے اتحادی افواج کی میزبانی کرتے ہیں جس سے ہم اپنی فوج کو زیادہ موثر طریقے سے استعمال کر سکتے ہیں۔ کچھ زمین پر بھی مدد کر رہے ہیں یا انہوں نے فضائی مہمات میں مدد کی ہے۔ اور جنگ سے قریب ترین ممالک سب سے اہم تبدیلی لا رہے ہیں جن میں اردن اور ترکی شامل ہیں۔ مثال کے طور پر ترکی نے، اتحادی حملے کے جنگی جہاز کی انکرلک میں میزبانی کی ہے اس کے ساتھ ہی ہائی موبیلٹی آرٹلری راکٹ سسٹم یا HIMARS کی گیزنٹپ میں۔ اور ترکی کی آپریشن یوفرئیس شیلڈ ترکی اور شام کے درمیان سرحد کو سیل کرنے میں مدد کر رہی ہے تاکہ داعش اس کا مزید ناجائز فائدہ نہ اٹھا سکے۔

ان سب کے نتیجہ میں، گزشتہ سال سے اب تک، آہستہ آہستہ، تیزی کے اوپر تیزی، قصبہ بہ قصبہ، ہر طرف سے اور ہر علاقے سے- اس مہم نے اہم نتائج دیے ہیں۔

عراق میں، امریکہ اور اتحادی افواج عراق کی سیکورٹی افواج اور کردش پشمرگا کی مدد کر رہی ہیں تاکہ داعش کو ایک کے بعد دوسرے شہر سے منظم طریقے سے نکالا جا سکے۔ رمادی، ہٹ، رتبہ، فلوجا، مخمور اور قیاراہ ان میں سے صرف چند نام ہیں۔ اور اب اتحاد ایسا ہی موصل میں کر رہا ہے اور شہر کو تنہا کر دیا گیا ہے اور عراقی ہماری مدد کے ساتھ اب مشرقی موصل میں قرب و جوار پر قبضہ کر رہے ہیں اور مغرب کی طرف پیش قدمی کر رہے ہیں۔ یہ ایک پیچیدہ مہم ہے اور اسے حاصل کرنے پر وقت لگے گا مگر مجھے یقین ہے کہ موصل میں داعش کے دن گنے جا چکے ہیں۔

شام میں، ہم اور ہمارے مقامی شراکت داروں نے داعش کے پھیلاور کو روکا اور منظم طریقے سے اسے راقہ کی طرف واپس بھیجنا شروع کر دیا، یہ ایک اہم مقصد ہے کیونکہ یہ نام نہاد خلافت کا دارالحکومت ہے اور انتہاپسندانہ حملوں کی منصوبہ بندی کرنے والوں کا گڑھ ہے۔ اہل اور متحرک مقامی شامی شراکت داروں کو کوبانی کا دفاع کرنے میں مدد فراہم کرنے کے بعد ہم نے انہیں شاہدادی، تشرن ڈیم، منبج، جارابولس اوردبیق کو واپس لینے کے قابل بنایا۔ نہ صرف ان علاقوں پر داعش کے کنٹرول کو ختم کیا گیا بلکہ اس کے عراق اور شام سے مواصلات کے اہم سلسلوں کو بھی کاٹا گیا معاف کیجے گا عراق اور ترکی۔ اب ہم سینکڑوں مقامی شامی افواج کی مدد کر رہے ہیں راقہ کو تنہا کرنے میں جس سے اب وہ صرف پندرہ منٹ کی دوری پر رہ گئے ہیں۔ اور جیسے ہی منصوبے کے مطابق تنہا کرنے کا مرحلہ جاری ہے ہم انہیں شہر پر قبضہ کرنے اور اس کا کنٹرول سنبھالنے کے لیے درکار اضافی مقامی افواج کو پیدا کرنے میں بھی مدد کر رہے ہیں۔

اب، راقہ کو تنہا کرنے کی کامیابی کو یقینی بنانے کے لیے، راقہ پر قبضہ کرنے کے لیے کافی مقامی افواج کو پیدا کرنے اور داعش کو راقہ سے آگے پناہ گاہیں حاصل کرنے سے روکنے کے لیے، میں آج آپ کو بتا سکتا ہوں کہ امریکہ تقریبا 200 اضافی امریکی فوجی بھیجے گا جس میں خصوصی آپریشنز فورسز کے تربیت کار، مشیر اور دھماکہ خیز مواد کو ناکارہ بنانے کی ٹیمیں شامل ہیں۔ یہ منفرد صلاحیتں رکھنے والے آپریٹر شام میں پہلے سے موجود 300 خصوصی آپریشنز فورسز کے ساتھ شامل ہوں گے تاکہ اہل اور متحرک مقامی افواج کو داعش کے ساتھ جنگ کرنے کے لیے منظم کرنے، تربیت دینے اور لیس کرنے کا کام کو جاری رکھا جا سکے اور یہ امریکی افواج کی مکمل طاقت کو طوفانی رفتار کے ساتھ مہمات میں شامل کر رہے ہیں۔ شام کے اندر اضافی افواج کا یہ حالیہ عزم ہمارے شراکت داروں کو داعش کی دیرپا شکست کے قابل بنانے کی طرف ایک اور قدم ہے۔

دریں اثنا، علاقوں کو واپس لینے کے ساتھ ساتھ، یہ مہم داعش کو سرمایہ، سامان، نقل و حرکت کی آزادی اور زندہ رہنے کے لیے کمانڈ اینڈ کنٹرول کی ضروریات سے محروم کر رہی ہے۔ اتحاد کے طور پر ہم نے نے داعش کے کنٹرول میں موجود تیل کے کنووں، تیل کو اسمگل کرنے والے ٹرکوں کو منظم طریقے سے نشانہ بنایا ہے- جس میں ابھی جمعرات کو ہونے والا حملہ بھی شامل ہے جس میں 168 ٹرکوں کو واحد حملے میں نشانہ بنایا گیا جو کہ ابھی تک اپنی قسم کا ایسا سب سے بڑا حملہ ہے اور ہم نے آمدنی کے ٹھکانوں کو بھی نشانہ بنایا ہے۔ ہم نے ارادتاً شام میں داعش کے زیرکنٹرول علاقے کو عراق میں زیرکنٹرول علاقے سے الگ کرنے پر توجہ مرکوز کی ہے۔ دہشت گرد گروہ کے راہنما اب راقہ اور موصل کے درمیان فضائی حملے کا نشانہ بنائے جانے یا اتحاد کی ایکسپڈیشنری ٹارگٹنگ فورس کی طرف سے پکڑے جانے کے خطرے کے بغیر سفر نہیں کر سکتے۔ درحقیقت، گزشتہ سال میں اپنی مہم کو تیز کرنے کے بعد سے اب تک، ہم نے داعش کے زیادہ تر اہم راہنماؤں کو ہلاک کر دیا ہے۔

اگرچہ عراق اور شام میں یہ نتائج حوصلہ افزاء ہیں، مگر اتحاد کو مہم کے منصوبے کے عملی جامہ پہنانے پر توجہ مرکوز رکھنی چاہیے۔ موصل اور راقہ پر داعش کے کنٹرول کا ناگزیر خاتمہ یقینی طور پر داعش کو دیرپا شکست کے راستے پر ڈال دے گا مگر اس کے بعد کرنے کے لیے بہت سا کام ہو گا تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ جب داعش کو ایک بار شکست ہو جائے تو یہ شکست قائم رہے۔

ہمیں فرار ہونے کی کوشش کرنے والے غیر ملکی جنگجووں کو پکڑنے اور داعش کی طرف سے جگہ بدلنے اور دوبارہ ابھرنے کی کوششوں کا مقابلہ جاری رکھنے کی ضرورت ہے۔ ایسا کرنے کے لیے، نہ صرف امریکہ بلکہ اتحاد کو مصروف رہنا چاہیے۔ خصوصی طور پر عراق میں، اتحاد کے لیے عراق کی سیکورٹی افواج کو پائیدار امداد دینا جاری رکھنا ضروری ہو گا تاکہ باقی کے ملک میں سیکورٹی کو مضبوط بنایا جا سکے اور تربیت دینے، لیس کرنے اور مقامی پولیس، سرحدی گارڈز اور دیگر افواج کی مدد کے کام کو جاری رکھا جا سکے تاکہ علاقوں کو داعش سے پاک رکھا جا سکے اور ہمیشہ کی طرح اس کے لیے عراقی حکومت کی مکمل مدد اور اجازت حاصل ہو۔

سیکورٹی کے علاوہ، قصبوں کو تعمیر کرنے، سہولیات کو قائم کرنے اور مواصلات کو بحال کرنے کی ضرورت ہو گی۔ یہ عسکری معاملات نہیں ہیں مگر یہ اس کا حصہ ہیں کہ جنگ کو جیتنے کے بعد آپ امن کو جیتتے ہیں۔

اس لیے اس موقع پر میری بنیادی تشویش یہ ہے کہ بین الاقوامی برادری کی استحکام اور گورنس کی کوششیں عسکری مہم سے پیچھے رہ جائیں گی۔ جب میں گزشتہ اپریل میں ریاض میں اپنے گلف کے ہم منصبوں سے ملا تھا تو میں نے اس وقت زور دیا تھا کہ یہ ایک ایسا میدان ہے جس میں علاقے کے ممالک حقیقت میں کچھ اچھا کر سکتے ہیں۔

ایک مشمولہ اور کثیر فرقہ وارانہ عراق کو مسلسل جاری سیاسی مدد کی بھی ضرورت ہو گی۔ ایک ایسا علاقہ جہاں فرقہ وراریت بڑھ رہی ہے، داعش کے خطرے نے لوگوں کو اس مشترکہ دشمن کے خلاف متحد کر دیا ہے۔ یہ واقعی عراق میں درست ہے  -جہاں وزیراعظم عابدی اور کردستان کی علاقائی حکومت کے صدر بارزانی کی قیادت اور اتحاد کے باعث، موصل کو واپس لینے کی جنگ میں عراقی سیکورٹی افواج اور کردش پشمرگا کے درمیان تعاون ایک ایسی سطح پر پہنچ چکا ہے جس کے بارے میں ایک سال پہلے سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا۔ مثال کے طور پر، تقریبا چھہ ہفتے پہلے، میں اربل میں تھا اور عراقی فوج کے حملہ آور ہیلی کاپٹر کے پائلٹوں سے ملا جو کہ داعش کے خلاف کردستان کے علاقے سے مہمات انجام دے رہے تھے۔ اور آج، اتحاد اس وحدت کو قائم رکھنے کے لیے اور اس کو فروغ دینے کے لیے اقدامات کر رہا ہے۔ کیونکہ ہمیں علم ہے کہ یہ داعش کو شکست خوردہ رکھنے کا واحد راستہ ہے۔ اس وحدت کے لیے سیاسی مدد ایک دوسرا ایسا راستہ ہے جس میں علاقے کے ممالک فرق لا سکتے ہیں۔

تاہم، شام میں راقہ پر قبضہ اور داعش کی شکست کے بعد بھی تشدد اس وقت تک ختم نہیں ہو گا جب تک کہ وہاں کی المناک خانہ جنگی کا خاتمہ نہیں کیا جاتا۔ روس یہ کہتے ہوئے خانہ جنگی میں شامل ہوا کہ وہ شام میں ایک ہموار سیاسی تبدیلی کو فروغ دینا چاہتا ہے جو شام کے ریاستی ڈھانچے کو قائم رکھے، جس کو میں سمجھتا ہوں اور جو شام کی خانہ جنگی کو ختم کرنے اور اس المناک طور پر تباہ ہوئے ملک میں مہذب زندگی کو بحال کرنے کے لیے ضروری ہے۔ اور روس نے کہا کہ وہ داعش سے جنگ کرے گا۔ مگر پھر اس نے ان دونوں میں سے کوئی کام نہیں کیا اور اس کی بجائے خانہ جنگی کو ہوا ہی دی ہے اور شام کے لوگوں کے مصائب میں اضافہ ہی کیا ہے۔

اب جیسا کہ میں نے پہلے کہا کہ داعش کے خلاف عراق اور شام میں کامیابی ضروری ہے مگر یہ داعش کو ایک دیرپا شکست دینے کے لیے کافی نہیں ہے۔ اس لیے اتحاد اور وزارت دفاع نے، اپنی مہم کے دیگر اہم ترین مقاصد پر توجہ مرکوز کی ہے - دنیا بھر میں داعش کے ثانوی ناسور کا مقابلہ کرنا اور اپنی مادرِ وطن اور لوگوں کی حفاظت میں مدد کرنا۔

جہاں تک ثانوی ناسور سے جنگ کرنے کا معاملہ ہے، امریکہ کی فوج نے لیبیا اور افغانستان میں اہل اور متحرک مقامی افواج کی مدد کے لیے ٹھوس اقدامات کیے ہیں۔ لیبیا میں ہم نے گورنمنٹ آف نیشنل اکارڈ اور اس کی افواج کو فضائی مدد فراہم کی ہے تاکہ سرتے میں داعش کے کنٹرول کو تنہا اور ختم کیا جا سکے۔ اور اس کے نتیجہ میں سرتے سے داعش کو نکال دیا گیا ہے۔ اور افغانستان میں- جہاں سے میں گزشتہ رات ہی واپس آیا ہوں - چیرمین ڈنفورڈ اور میری تجاویز پر صدر اوباما نے اس سال امریکی افواج کو وسعتی اختیارات دیے کہ وہ ہمارے افغان شراکت داروں کو ایسی مہمات میں مستعدی سے معاونت فراہم کر سکیں جن کے اسٹریجک اثرات ہوں گے۔ انہوں نے 2017 تک وہاں پر 5,500 امریکی فوجیوں کو رکھنے کے ہمارے پہلے کے منصوبے میں تبدیلی کرتے ہوئے   8,400 فوجیوں کو وہاں رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اور اقوام متحدہ افغان نیشنل ڈیفنس اور سیکورٹی فورس کے لیے اپنے مالی وعدے پورے کرتی رہے گی۔ حکام، افواج اور مالیات میں یہ ٹھوس وعدے  - جن کو نیٹو کے وعدوں سے تقویت ملی ہے  -اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ ہم نہ صرف افغانستان کی سیکورٹی افواج کی مدد کو جاری رکھیں بلکہ افغانستان میں انسداد دہشت گردی کے علاقائی پلیٹ فارم کو بھی قائم رکھ سکیں۔ مثال کے طور پر، افغان شراکت داروں کے ساتھ، امریکی افواج نے حال ہی میں افغانستان میں داعش کے خلاف دو بڑے پیمانے کی مہمات سرانجام دیں جس میں ملک میں اس کا اہم ترین راہنما ہلاک ہو گیا اور وہاں پر اس کی صلاحیتوں کو قابل قدر نقصان پہنچا۔ اس سال کے آغاز میں، ہم نے ملا منصور کو ہلاک کیا جو کہ افغان طالبان کا راہنما تھا۔ اس کے علاوہ ہم نے القاعدہ کے ایک ایسے سیل کے راہنما کو بھی ہلاک کیا جو امریکہ کی سرزمین پر حملوں کی منصوبہ بندی کر رہا تھا۔

مہم کے لیے ہماری منصوبہ بندی کے تیسرے مقصد، یعنی اپنی سرزمین اور لوگوں کی حفاظت، کے حوالے سے محکمہ دفاع، اندرون ملک اور بیرون ملک دونوں میں، انٹیلی جنس، محکمہ ہوم لینڈ سیکیورٹی، اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ قریبی شراکت کر کے کام کر رہا ہے.  یہاں، اتحادی فوجیں انٹیلی جنس جمع کرنے کے لئے آپریشنز کر رہی ہیں جن کی خصوصی توجہ بیرونی کارروائیوں کے لیے مختض داعش کے دستوں کو تباہ کرنا ہے. نتیجے کے طور پر، ہم نے نہ صرف بیرونی کارروائیوں کے لیے داعش کے سربراہ کو ہلاک کیا ہے، بلکہ ہم نے 30 خارجی کارروائیوں کی منصوبہ بندی کرنے والوں کو بھی نشانہ بنا کر ہلاک کر دیا ہے.   

اب، بلاشبہ، امریکہ یہ سب تنہا نہیں کرتا رہا ہے۔ داعش کے خلاف اتحاد کی کارکردگی فیصلہ کن اور موثر رہی ہے، اور اس مہم کے دوران ایک تہائی سے زیادہ افواج ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے علاوہ دیگر ساتھی ممالک کی طرف سے آئے ہیں. اور یہ کوئی خلاف توقع بات نہیں چونکہ داعش کے خلاف اتحاد ایک با مقصد اور عملی فیصلہ تھا- اور ایسے ممالک بہت ہیں جو اپنے روبرو داعش کے خطرے کو ختم کرنے کا مصمم ارادہ رکھتے ہیں.          

اب جیسے ہمیں اندازه ہو رہا ہے کہ عراق اور شام میں جنگ کیسے ختم ہو گی،تو اتحادیوں کو نہ صرف غیر ملکی جنگجوؤں کی جانب سے خطرے کا مقابلہ کرنے کے لیے تیا رہنا ہو گا، بلکہ داعش کی جانب سے کسی دوسری شکل میں دوبارہ سامنے آنے کی کوششوں کو ناکام بنانے کے لے بھی چوکنا رہنا پڑے گا. ہم مکمل طور پر پیشگوئی نہیں کر سکتے کہ عراق اور شام میں شکست کھانے کے بعد کیاداعش پوری دنیا میں بکھرے ہوئے ایک دہشت گرد نیٹ ورک کی شکل اختیار کرے گا، یا محض ایک ڈھانچہ نما تنظیم کے طور پر یہ صحرا کی ریت میں پڑا انتظار کرتا رہے گا، یا ایسے کسی متشدد انتہا پسند تنظیم کا شکل اختیار کر لے گا جو انٹرنیٹ کے کونوںمیں جیتا چھپتا پھرے گا. پس ہمیں کسی بھی حالت کے لئے تیار رہنا چاہیے۔   

تو اسی خاطر، اورجیسےمیں نے پہلے ذکر کیا، کہ اگر داعش کو موصل اور رقعہ سے نکال بھی دیا جائے، ہمارے اس اتحاد کو قائم اور فوجی طور پر مشغول رہنا چاہیے. ہم سب، ارادتاً، ایک اتحاد میں داعش کو شکست دینے کے لئے اکهٹے ہوئے، اور ان کی شکست کو عرصہ دراز تک برقرار رکهنے کے لیے ضروری ہے کہ اتحادی مل کر کام، تعاون اور مشترک اپریشنز کرتے رہیں.   میں امید کرتا ہوں کہ روان ہفتے اس موضوع پر خطے کے کئی ہم منصبوں سے بات چیت کروں گا، او پهر اگلے ہفتے بهی، جب داعش کے خلاف اتحادیوں کے وزراء دفاع اکهٹے ہوں گے. 

اب جب ہم داعش کی شکست کے بعد کے حالات کو دیکهنے لگے ہیں - داعش کی شکست کو دیرپا بنانے کے لیے مکرر کہتا ہوں کہ انسدادِ دہشتگردی کی ایک مسلسل کوشش کی ضرورت ہو گی - تو داعش کے خلاف مہم سے یہ واضح ہوتا ہے کہ امریکہ کا محکمہ دفاع مشرق وسطی میں کیسے اپنے مفادات کا تعاقب کرتا ہے - اور ہم اپنے مفادات کا بلا جھجک تعاقب کرتے ہیں، لیکن ہمارے اپنے مفادات کی کوششیں اکثر ہمارے دوستوں اور اتحادیوں کے مفادات کے ساتھ سیدھ میں ہوتی ہیں.   اور یہ کیمپین گواہی دیتا ہے کہ خطے میں ہماری پائیدار وابستگی اور ہمارا عظم ایک منفرد قدر کے حامل ہیں.

بے شک یہ بات بالکل واضح ہے کہ کوئی دوسری قوم اس قابل نہیں تهی کہ امریکہ کی طرح وسائل کی فراہمی براداشت کرے، ایک اتحاد اکهٹی کر لے، اور ایک جامع مہم کو عملی جامہ پہنانے کی خاطر قیادت فراہم کر سکے. اور جس طرح سے ریاست ہائے متحدہ امریکہ نے یہ کام کر دکهایا ہے، داعش کے خلاف اور وسیع تر مشرق وسطی میں – اپنے عظیم فوجی طاقت کا استعمال کر کے.., ساتھ ساتھ دوستوں اور اتحادیوں کی حمایت کر کے، اپنے شراکت داروں کی صلاحیت کی تعمیر کر کے، اور ان کی ذاتی صلاحیت بڑهانے کی خاطر ان کی حوصلہ افزائی اور مدد کر کے - ان سب کے نتیجے میں یہ حقیقت تسلیم کرنی پڑے گی کہ کامیابی پائیدار صرف تب ہو سکتی ہے جب مقامی افواج علاقہ خود محفوظ کر لیں اور مقامی نظام حکومت اپنی گرفت مضبوط کر لے.   تو مقامی فورسز پر توجہ مرکوز کرنا، جنہیں امریکہ نے اہلیت دی ہے، ہماری حکمتِ عملی میں کلیدی حیثیت رکهتا ہے۔ یہ اس خطے میں ہماری فوج کی پائیدار وابستگی کی نوعیت کی وضاحت کرتا ہے۔

علاوہ از ایں، داعش کے خلاف جو مہم میں نے بیان کی، اور اس کے نتائج، ایسے وقت میں انجام پذیر ہوئے جب اسی عرصے میں یورپ او ایشیا میں امریکہ کے فوجی فرائض اور بهی بڑھ رہے تهے - جہاں امریکی افواج یورپ میں نیٹو کے اتحادیوں کے خلاف روسی جارحیت کو روکے ہوئے ہیں، کوریائی جزائر پر حفاظتی کام سرانجام دے رہے ہیں، اور ایشیا-بحراالکاہل کے خطے میں طاقت کا از سر نو توازن قائم کرنے میں مصروف ہیں. اور، مزید برآں، اس خطے میں داعش کے خلاف مہم کے علاوہ، امریکہ نے اس بین الاقوامی حکمت عملی کی بهی تخلیق کی جس کے نتیجے میں پچهلے سال کا وہ معاہدہ طے پایا جو ایران کو تصدیقی بنیاد پر جوہری ہتھیار حاصل کرنے سے روکتا ہے. اور جب ہم سب ایران کی جانب سے جوہری معاہدے کے نفاذ کی نگرانی کر رہے ہیں، اسی عرصے میں محکمہ دفاع نے جارحیت روکنے کی خاطر اپنی پوزیشن برقرار رکھی ہوئی ہے اور، جی ہاں، محکمہ کسی بهی اضطراری حالت سے نمٹنے کے لیے تیار ہے، اور ایران کے ناپاک اور عدم استحکام پیدا کرنے والی سرگرمیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے محکمہ خطے میں اپنے اتحادیوں اور دوستوں کے ساتھ مضبوط کهڑا ہے.   اور مزید یہ کہ، جب یمن سے سعودی عرب کے علاقوں کو خطرہ تها، تو امریکہ نے اس کے دفاع میں مدد کی، اور ساتھ ساتھ یمن میں القاعدہ سے نبٹ لیا اور بیک وقت یمن میں سیاسی عمل کو بهی فروغ دیا جو استحکام کی بحالی میں مدد فراہم کرے گا.  

اب، جبکہ داعش کے خلاف مہم ہمارے منصوبہ کے مطابق آگے بڑھ رہی ہے، داعش کے خطرے کے خلاف خطے کے جواب میں مجموعی طور پر کچھ خامیاں نظر آتی ہیں.  جب امریکہ، نیٹو ممالک اور عراقی حکومت – کُرد علاقائی حکومت سمیت - نے اس جنگ میں اہم کردار ادا کیا ہے، یہاں مشرق وسطی میں بعض علاقائی طاقتوں نے اپنی تاریخ، جغرافیائی محل وقوع اور جنگ کے نتیجہ سے جڑے ان کے مفاد کے باوجود اپنی پوري صلاحیتیں اس حد تک بروئے کار نہیں لائیں جس حد تک ان سے توقع تهی. ایسی علاقائی طاقتیں مزید کام کر سکتی ہیں، اور بیشک ان کا منفرد مقام انہیں موقع فراہم کرتا ہے کہ داعش کے خلاف جنگ میں، خاص طور پر اس مہم کے سیاسی اور اقتصادی پہلوؤں میں، مقامی افواج کو مضبوط کرنے میں ہم جیسوں کی مدد کریں جو خطے سے باہر ہیں. تاہم، دیگر صورتوں میں، یہاں کی طاقتیں لازمی صلاحیتوں میں کمی کی وجہ سے ایک بڑا کردار ادا کرنے سے قاصر ہیں.   چنانچہ امریکہ، خطے میں دیرینہ دفاعی شراکت داری کے ذریعے، ان ممالک کی صلاحیتیں او استعدادات تعمیر کرنے میں بهی مدد فراہم کر رہا ہے.

اب، مشرقِ وسطیٰ کی منفرد تاریخ اور کردار کی وجہ سے، یہاں سیکیورٹی کے تعلقات کبھی بهی نیٹو کی طرح ایک رسمی ساخت میں نہیں سمے جو پورے علاقے تک پهیلی ہوئی ہو.   یہی وجہ ہے کہ خطے میں محکمہ دفاع کی مشغولیت اکثر و بیشتر دو طرفہ تعلقات کے ذریعے رہی ہے ۔

ان تعلقات میں کئی آزمودہ دوستیاں اور اتحاد ہیں جو نصف صدی پرانے ہیں ۔ یہ نہ صرف اب بھی پهل پهول رہے ہیں؛ بلکہ کچھ تو نئی بلندیوں پر پہنچ رہے ہیں۔

مثال کے طور پر، سعودی عرب کے ساتھ ہمارا سیکیورٹی تعاون چھ دہائیوں پر مشتمل ہے جس کے دوران ادارتی استعداد بڑھانے، مل کر کام کرنے کے ضوابط کو بہتر بنانے، اور اور باہمی خطرات کا مقابلہ کرنے پر مسلسل کام ہوتا رہا ہے۔  اور ہم کئی طریقوں سے ان کی صلاحیتوں کو زیادہ مضبوط کرنے میں مدد کر رہے ہیں – جس کی سب سے تازہ مثال ان کو حال ہی میں اعلی F-15SA لڑاکا جیٹ طیاروں کی فراہمی ہے، جن میں پہلا طیارہ اگلے ہفتے دے دیا جائے گا.

بحرین بھی یہاں خلیج میں ہمارا ایک مکرم حلیف ہے؛ جن سے خطے کی سطح پر امریکہ کے دفاعی تعلقات سب سے پرانے تعلقات میں سے شمار ہوتے ہیں۔   بحرین ہماری بحریہ کے پانچویں بیڑے اور یو ایس نیول فورسز سنٹرل کمانڈ ہیڈکوارٹر کا میزبان ہے،جہاں میں آج ایک دورہ کروں گا - اور یہ بحری افواج نہ صرف خلیج میں، بلکہ بحیرہ عرب، بحیرہ احمر اور بحر ہند کے بعض علاقوں میں بهی بحری سیکیورٹی کو یقینی بنانے میں مدد کرتے ہیں۔

اور اگر ایک لمحے کے لئے خلیج سے آگے بڑھیں، تو اردن بھی ہمارے قدیم ترین سلامتی شراکت داروں میں سے ایک ہے - اور آج، یہ امریکی فوج کا خطے میں سب سے زیادہ ثابت قدم، انمول اور قابل اتحادی ہے، خاص طور پر ان کے سپشل آپریشن فورسز۔   اور اردن میں ہی اس خطے میں سب سے بڑی فوجی مشقیں، ایگر لائن، منعقد ہوتی ہیں جس میں ہر سال 3,000 باری پر آنے والے امریکی فوجی شامل ہوتے ہیں۔

خطے میں ہمارا ایک اور بہت پرانا حلیف، بلاشبہ، اسرائیل ہے– جن کے ساتھ ہمارے دفاعی تعلقات غیر متزلزل اور ہمیشہ سے زیادہ مضبوط ہیں۔  ستمبر میں ہمارے ممالک نے سیکیورٹی امداد کی ایک نئے 10 سالہ یادداشت پر دستخط کیے، جس سے ہماری شراکت داری ایک نئی نہج پر پہنچ گئی ہے.  اور میں اگلے ہفتے اسرائیل کا دورہ کروں گا، تاکہ ان کو ان کی پہلے دو F-35 سٹلت (مخفی) جنگجو طیارے پہنچاؤں.

ہم لبنان کے ساتھ بهی مشغولیت کی ایک طویل تاریخ رکهتے ہیں، جن کی فوجیں گزشتہ عشرے میں بہتر ہوئی ہیں۔   2005 میں لبنان سے شامی فوج کے انخلاء کے بعد، محکمہ دفاع نے لبنان کی فوج اور اسپیشل فورسز کو سیکیورٹی امداد کے ذریعے کئی مفادات آگے بڑهائے ہیں تاکہ داعش اور النصرہ کے پهیلاو کا مقابلہ کیا جا سکے اور ایران اور حزب اللہ کے اثر و رسوخ کو روکا جا سکے.

مصر، جو خطے کا ایک تاریخی رہنما ہے اور خطے میں استحکام کے لیے حکمت عملی میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے، کے ساتھ ہمارا سیکیورٹی تعاون گہری جڑیں رکهتا ہے.

اب جبکہ خطے میں امریکہ کے دیگر شراکتیں نسبتاً نئی ہیں، لیکن حالیہ برسوں میں یہ تعلقات بهی بہت نمایاں طور پر مضبوط ہوئیں ہیں۔  ان اقوام میں سے اکثر امریکی افواج کے میزبان ہیں اور ان کے اخراجات میں شریک ہیں۔   اور ہماری مدد کے ساتھ، وہ بتدریج اپنی صلاحیتوں میں اضافہ کرتے آ رہے ہیں.   

مثال کے طور پر، کویت کے ساتھ ہمارا  سیکورٹی تعاون 1991 ء کی خلیجی جنگ میں نمایاں طور پر بڑھا، اور تب سے اس تعاون میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے.   گزشتہ ماہ، ہم نے کویت کو F-18 لڑاکا جیٹ طیاروں کی فروخت کا اعلان کیا – جو کویت کی دفاعی صلاحیتوں کو بڑی حد تک بڑها دینگے، امریکی افواج کے شانہ بشانہ بہتر کام کر پائیں گے، اور کویت کو اہلیت بخشیں گے کہ وہ علاقائی سلامتی کی ذمہ داریوں کا زیادہ بڑا حصہ اپنے کندهوں پر لے.

قطر ایک اور خلیجی ملک ہے جن کے ساتھ پچهلے کئی سالوں میں ہماری شراکت داری کی نشو و نما تیز ہوئی ہے.   یہ ہمارے کمبائنڈ فضائی آپریشن سنٹر کا میزبان ہے، جو عراق، شام، اور افغانستان میں اتحاد کے ہوائی مہمات کا انتظام کرنے کے لیے انتہائی اہم ہے.   اور ہماری افواج تیزی سے ہوا، زمین اور بلسٹک میزائل ڈیفنس کے حوالوں سے ایک دوسرے کے ساتھ مشترک کام کرنے کا قابل ہو رہیں ہیں - درحقیقت، صرف اسی ہفتے میں ہی، ہم نی قطر کے ساتھ ایک معاہدہ مکمل کیا ہے جس کے تحت وہ اپنی میزائل ڈیفنس بہتر بنانے کے لیے ایک 5000 کلومیٹر پیشگی خبرداری دینے والا راڈار سسٹم خریدے گا.

اور اس طرح میں متحدہ عرب امارات کی طرف آتا ہوں جو بلاشبہ مشرقِ وسطیٰ میں  سب سے زیادہ باصلاحیت فوج رکهتا ہے، اور ہمارے ساتھ ان کے دو طرفہ تعلقات بهی مضبوط ہیں اور فوجی ادارے کا نظام روز برزو زیادہ بہتر ہو رہا ہے۔  متحدہ عرب امارات نے نہ صرف مؤثر صلاحیت حاصل کر لی ہے، بلکہ یہ اس کھیل میں خطرے بهی مول لینے کو تیار رھتا ہے۔   اس وجہ سے متحدہ عرب امارات امریکہ کے لیے ایک اہم پارٹنر ہے۔

اور آخری لیکن اہم ملک عراق ہے،چونکہ ہم نے داعش کے خلاف مہم کے نتائج دیکهے ہیں– جہاں ہمارے حلیف اور عراق کے سیکورٹی اہلکار اب تک سب سے موثر رہے ہیں.   امریکی فوج نے اپنی صلاحیتوں کو بھی بروئے کار لایا ہے، لیکن اسی دوران عراقیوں کی مدد بھی کرتے رہیں ہیں.   اور جیسا کہ میں نے پہلے ذکر کیا، یہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ اور داعش کے خلاف اتحاد کے لیے ضروری ہو گا کہ وہ عراقی فوجوں کو مضبوط کرنے کا وعدہ پورہ کریں، تاکہ وہ عراقی سرحدوں کو محفوظ اور کنٹرول کر سکیں اور یقینی بنایا جا سکے کہ داعش عراق میں دوبارہ اپنے آپ کو زندہ نہ کر پائے.

ان سب کاموں کا نتیجہ یہ ہے کہ ہم نے اپنے شراکت داروں کی مدد باہمی تعلقات کی بنیاد پر کی، لیکن ان کو اس کا فائدہ اس سے زیادہ پہلووں میں ہوا ہے - یعنی پورہ مجموعہ اپنے انفرادی حصوں سے زیادہ فائدہ مند  ثابت ہوا، اور اس سے باہمی مفادات کو فروغ دینے میں مدد ملی ہے.   ہم خطے بھر میں ممالک اور افواج کے ساتھ ناطے بناتے اور مضبوط کرتے آئے ہیں تاکہ ہم سب، پہلے سے زیادہ عمدہ اور موثر طریقے سے، اکهٹے پلان کر سکیں، مشقیں اور تربیت کر سکیں، اور ضرورت کے مطابق کندهے سے کندها ملا کر لڑ سکیں.

ہم نے داعش کے خلاف مہم میں یہی دیکھا ہے کہ خطے کے ملکوں نے داعش کے خلاف ہوائی مہم میں کردار ادا کیا، زمین پر بهی مقامی افواج کی تربیت اور اہلیت بڑهانے میں مدد کی، اور اتحادی فوجوں کی میزبانی کی.

ہم نے یہ سمندر اور خیلیج کے اندر او اردگرد دیکها ہے کہ بحرین، اردن، کویت، قطر، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، ترکی اور دوسرے شریکین کثیرالفریق سمندری اتحادوں میں شریک ہو کر قزاقی اور دہشتگردی کا انسداد کرتے ہیں اور یقینی بناتے ہیں کہ بحری سفر اور تجارت آزادی سے سر انجام پائے.

اور ہم یہ ان درجنوں باہمی او کثیر الفریق مشقوں میں دیکھتے ہیں جو ہر سال ایک وسیع رینج کے شعبوں اور جسمانی میدانوں میں کیے جاتے ہیں.   یہ بارودی مواد کو ٹهکانے لگانے، بارودی سرنگوں کو ختم کرنے، مربوط ہوائی اور میزائل دفاع، ٹیکٹیکل فضائی اپریشن، بحری اپریشن، مشترکہ اسلحہ، او خصوصی اپریشنز کے دوران باہمی تعاون اور مل کر کام کرنے کی قابلیت بڑهاتے ہیں.

مجموعی طور پر محکمہ دفاع یقینی بناتا ہے کہ امریکہ کے شراکت دار طاقتور اور مضبوط ہوں تاکہ خطے کی سیکیورٹی مضبوط ہو اور نہ صرف اپنی ضروریات کو پورہ کرنے کے قابل ہوں، بلکہ خطے کے لیے بهی مفید ثابت ہوں، جہاں امریکہ کی فوج ان کے شانہ بشانہ کھڑے ہونے کو تیار رہتا ہے.   اور امریکی مفادات کو آگے بڑهانے کے علاوہ، اس طریقے سے ریاست ہائے متحدہ امریکہ اکیسویں صدی میں سیکورٹی تعاون میں سب سے زیادہ مؤثر ہے۔   ہم دوستوں، اتحادیوں اور علاقائی سلامتی ارکیٹکچر کو ایسے طریقوں سے حمایت کرتے ہیں کہ وہ زیادہ مربوط اور مضبوط ہو جائے، اور وہ متعلقہ علاقوں کے روایات اور ضروریات کے لیے مناسب ہوں.

یہاں مشرقِ وسطیٰ میں یہ واضح ہے کہ محکمہ دفاع نے علاقائی شراکت داروں کو زیادہ قابل اور پیوستہ بنانے کےلیے جو کچھ کیا ہے، وہ امریکہ اور اس کے شراکت داروں کے لیے اچھا رہا ہے - ان سے ہم سب کے مفادات کو فروغ ملی ہے.   مستقبل میں زیادہ کام کرنے کی ضرورت ہو گی، کیونکہ ہمارے ممالک کو اہم خامیوں کو پورہ کرنے کی لیے مزید مل کر کام کرنا ہو گا - خاص کر بری افواج، سپشل اپریشنز افواج، بحری افواج، بیلسٹک میزائل کے خلاف دفاع، اور سائبر دفاع کے میدانوں میں مل کر کام کرنا ہو گا.

حقیقت یہ ہے کہ اگر خطے کے ممالک کو ایران کی جانب سے عدم استحکام پیدا کرنی والی سرگرمیوں کے بارے میں تشویش ہے - اور یہ تشویش امریکہ کو بهی ہے - تو ان ممالک کو پورے کهیل کا حصہ بننا ہو گا.   جس کا مطلب ہے کہ ان کو ایک دوسرے کے ساتھ زیادہ شراکت شروع کرنی پڑے گی, اور خطرے سے نمٹنے کے لیے صحیح صلاحیتوں میں سرمایہ کاری کرنی پڑے گی.   خطے میں مسلسل موجود چیلنجز کو دیکهتے ہوئے - اور چونکہ مستقبل ہمیشہ غیر یقینی ہی ہوتا ہے– ان بنیادی صلاحیتوں کو بڑهانا آپ کی سلامتی کے لئے اتنے زیادہ اہم ہو جائیں گے کہ انتے اہم کهبی نہیں تهے۔  اور اگر آپ انہیں نظر انداز کریں تو آپ خود کو خطرے میں ڈال رہے ہیں.

ایک مثبت نوٹ پر کہتا ہوں کہ پچهلے سال مئی کے بعد کچھ پیش رفت ہوئی ہے جب صدر اوباما نے ریاست ہائے متحدہ امریکہ اور خلیجی تعاون کونسل کے اقوام کے درمیان کیمپ ڈیوڈ پر کانفرنس کی تهی، جس کے بعد گزشتہ اپریل میں ریاض کے مقام پر دفاعی سربراہوں او ہمارے ممالک کے درمیان اجلاس ہوا.

سب سے پہلے، غیر روایتی خطرات کا بہتر مقابلہ کرنے کے لیے خطے میں زمینی دستوں کی قابلیت بڑهانے کے لیے - خصوصی آپریشن فورسز اور انسدادِ دہشت گردی کے دستوں سے شروع کرتے ہوئے- ہم ایک خصوصی آپریشنز رسپانس فورس کا اقدام کے نام پر منصوبے کو ڈیزائن کر کے عملی جامہ پہنا رہے ہیں جس کے دوران خلیجی ممالک کے سپشل اپریشنز یونٹس اور امریکی افواج کے درمیان مل کر کام کرنے کو بہتر بنا رہے ہیں اور باہمی منصوبہ بندی کو بہتر کر رہے ہیں.   ہمارے زمینی افواج کو مزید بہتر بنانے کے لیے ہمیں رسد، تعمیر نو اور استحکام، اور انسداد بغاوت کے مشنز پر توجہ دینی چاہیے – کہنے کا مطلب یہ ہے کہ، دیرپا فتح کے حصول کے تمام اجزاء پر توجہ دینی چاہیے۔

اس کے علاوہ، ہم نے بحری میدان میں بهی پیش رفت کی ہے، کیونکہ گلف کواپریشن کونسل کے مختلف ریاستوں، بشمول سعودی عرب اور کویت، نے حالیہ وقتوں میں کمبائنڈ ٹاسک فورس 152، جو خلیج کے پانی کی حفاظت اور گشت کے لیے ایک بحری ٹاسک فورس ہے، کا کمانڈ کیا ہے.   گزشتہ سال ایک سال میں، امریکہ اور اتحادی افواج نے چار ایسے بحری جہازوں کا راستہ روکا ہے جو ایران سے خفیہ طور پر اسلحہ لے جا رہے تهے جن کا ممکنہ منزل یمن تها.   دریں اثناء، یہاں بحرین میں ہماری مضبوط بحری موجودگی کے ذریعے، امریکی نیوی  نے خلیج میں بحریہ فورسز کو مختلف مشقوں کے ذریعے اپنی تربیت جاری رکھی ہوئی ہے۔   اور بھی زیادہ بہتر بننے کے لیے، ہم تمام خلیجی ممالک کو دعوت دیتے ہیں کہ مشترکہ گشت میں شرکت کریں، تاکہ ہم اور بھی زیادہ بلا رکاوٹ طریقے سے ایک دوسرے کے ساتھ کام کر سکیں، اور ہماری مشترکہ حالات کی آگاہی کو بہتر بنائیں.

علاوہ از ایں، بلسٹک میزائیل دفاع کی مد میں ہماری پیش رفت بهی اہم ہے، کیونکہ ایران اقوام متحدہ کو چیلنج کرتے ہوئے ایسے میزائیل کے تجربے اور میدان میں لانا جاری رکهے ہوئے ہے. 

سلامتی کونسل:  اس لیے ہم خطے میں بلسٹک میزائل کے خلاف دفاع کے سہولیات کا ایک مشترکہ خاکہ تیار کر رہے ہیں جو پورے خطے میں موجود صلاحیتوں کو یکجا کر لے گا - مختلف ممالک میں نصب پیٹریاٹ بیٹریوں سے لے کر، اونچی سطح پر ہوائی دفاع کا ٹرمینل (THAAD)، متحدہ عرب امارات میں موجود نظام، قطر میں مستقبل کا ابتدائی تنبیہ کے ریڈار تک، بشمول وہ نظامات جو ابهی بنیں گے.

اور آخر میں, ہم نے سائبر دفاع میں بهی پیش رفت کی ہے۔  چونکہ ایران سائبر کارروائیاں کرنے کی صلاحیت کا مظاہرہ کر چکا ہے، اور تشدد آمیز انتہا پسندوں اور سب-ریاستی اداکار انٹرنیٹ کا استحصال کرتے رہے ہیں، تو ہم نے مختلف ممالک کے ساتھ مل کر جائزے لیے ہیں تاکہ سائبر دفاعی حکمت عملیاں اور پالیسیاں بنانے مبں مزید بیش رفت ہو سکے، حملے کے خطرے سے دوچار اہم بنیادی ڈھانچے کی شناخت کی جا سکے، اور ان خطرات کو بند کرنے کے لیے ماہر سائبر سٹاف کی تعمیر میں مدد فراہم کی جا سکے.

حالانکہ یہ سب پیش رفت اچھی ہے لیکن آگے بڑھ کر اس پر مزید کام کرنا ہو گا.

یہ حقیقت ہے کہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ اور مشرق وسطی میں اس کے دوست ممالک ایک دوسرے کے لیے قربانیوں کی ایک قابل فخر تاریخ، پائیدار باہمی عزائم، اور سب سے اہم یہ کہ، اکثر و بیشتر باہمی مفادات کی تاریخ رکهتے ہیں.   تاہم، ہمارے اتحادی اور شراکت دار ہی دنیا کے اس حصے میں رہنے والے لوگ ہیں اور ہم ان کی جگہ نہیں لے سکتے– ہم مدد کر سکتے ہیں، تاہم صرف وہ ہی پائیدار سلامتی کو یقینی بنا سکتے ہیں۔  یہ ایک اہم حقیقت ہے ۔  اور اس لیے یہ کہنا ضروری ہے - جیسا کہ میں اپنے ہم منصبوں کو کئی بار کہہ چکا ہوں - کہ باہمی مفاد کے لیے باہمی عزم درکار ہوتا ہے۔

بعید از عقل نہیں کہ کسی بھی ملک سے اس کے اپنے مفادات کو آگے بڑھانے کی خاطر مزید کام کرنے کی توقع کی جائے.   میں آپ سے تصور کرنے کی درخواست کرتا ہوں کہ اس وقت امریکی فوج اور دفاع کے رہنما کیا سوچتے ہونگے جب ان کو شکایات سننی پڑتیں ہیں کہ امریکہ کو مزید کام کرنا چاہیے، حالانکہ واضح طور پر دیکها جا سکتا ہے کہ اکثر و بیشتر جو لوگ شکایت کر رہے ہوتے ہیں، انہی کو زیادہ کام کرنے کی ضرورت ہوتی ہے.

اس امر کے باوجود کہ محکمہ دفاع کا اس خطے کے ساتھ وابستگی سٹریٹجک ادوار اور صدارتی انتظامیوں میں تبدیلیوں کے بعد بهی تسلسل قائم رکهی ہوئی ہے، ہمیں یہ یاد رکهنا چاہیے کہ سلامتی کی شراکت داریاں دو طرفہ سڑک کی مانند ہوتی ہیں.   اس خطے میں ممالک کے لیے ضروری ہو گا کہ وہ نہ صرف اس شراکت داری کو انتہائی حد تک یک طرفہ ہونے سے بچائیں، بلکہ ایسے تصورات کا مقابلہ بهی کریں.

میں اس تصدیق کے ساتھ اپنی بات ختم کرنا چاہتا ہوں کہ آج، ہمیشہ سے زیادہ، محکمہ دفاع کے پاس وہ صلاحیت اور عزم ہے کہ اس خطے کے لیے ایک بہترین سیکیورٹی پارٹنر بنا رہے، اور ، جیسا کہ میں نے یہاں واضح  کر دیا کہ ہماری باہمی وابستگی کا منطق اتنا بہترین ہے کہ ہماری شراکت داری  چلتی رہے گی.

آخر کار یہ بلاوجہ تو نہیں ہے کہ ہم نے اپس میں مل جل کر کام جاری رکها ہوا ہے - یہ بلاوجہ نہیں ہے کہ مشرق وسطٰی کے ممالک بار بار محکمہ دفاع کے ساتھ سب سے زیادہ کام کرتے ہیں، ہم سے سب سے زیادہ خریداری کرتے ہیں، ہمارے ساتھ سب سے زیادہ مشقیں کرتے ہیں، اور سب سے زیادہ اپریشنز ہماری شراکت داری میں کرتے ہیں.   یہ ممالک ہم سے مل کر کام کرنا چاہتے ہیں کیونکہ ہماری صلاحیت انتہائی زبردست ہے، ہم اصول پسند ہیں، اور، اگر سیدهے الفاظ میں بولوں، تو ہمارے علاوہ ان کے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے. ہم سب سے زیادہ قابل اعتماد ہیں۔

چاہے دنیا میں کہیں اور یا امریکہ میں کچھ بهی ہو، اس خطے میں اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے کے لیے ہماری فوج کا عزم اور صلاحیت ہمیشہ جاری رکهی جائے گی.   اس لیے کہ امریکہ یہاں مفادات رکهتا ہے جسے وہ چهوڑ نہیں سکتا.   اور ان مفادات ہی کی وجہ سے یہ خطہ ہمیشہ اہم رہے گا - یعنی جارحیت کو روکنے کی ضرورت، اپنے اتحادیوں اور دوستوں کا دفاع، سمندری سفر میں ازادی کی برقراری، مخصوص ہتهیار کے پھیلاؤ کا مقابلہ، اور انسداد دہشتگردی او انتہا پسندی.   چاہے امریکہ کی وابستگی جس طرح بهی ہو، یہ تمام طویل المدت، پائیدار قومی مفادات ہیں جن کے حوالے سے محکمہ دفاع بار بار ثابت کیا ہے کہ وہ ان کا دفاع برقرار رکھ سکتا ہے اور رکهے گا - صرف اس خطے میں نہیں، بلکہ اور خطوں میں بهی.   یہ ایسا رہا ہے او رہے گا.

ایک ایسے بندے کے طور پر جس نے خود 30 سال تک پوری دنیا میں ہماری فوج کی مشنز کی حمایت میں کام کیا ہے - جس کے دوران میں نے تقریباً 12 ڈیموکریٹک اور ریپبلیکن حکومتوں کے سکرٹری دفاعوں کے لیے کام کیا، اور اب جو میں خود سکرٹری دفاع ہوں - اور اس دوران میں وسیع اور چهوٹے بجٹ دیکهے، امن، جنگ، اور بیچ میں ہر قسم کے حالات تجربہ کیے، جن میں اس خطے زبردست ہنگامے بهی شامل ہیں، میں نے ہمیشہ دیکها ہے کہ امریکہ کا محکمہ دفاع ایک سادہ وجہ کے بنیاد پر اس خطے کے ساتھ ہمیشہ وابستہ اور اس کی حوالے سے پرعزم رہا ہے: کیونکہ ایسا کرنا امریکہ اور اس کے سیکیورٹی مفادات کے لیے اچها ہے، اور یہ یہاں کے ممالک اور ان کے مفادات کے لیے بهی اچھا ہے. یہ آج بهی اتنا ہی سچ ہے جتنا پہلے رہا ہے، او مجھے اعتماد ہے کہ آنے والے برسوں میں یہی سچ رہے گا۔

شکريہ۔

ایک نظر اس پر بھی

بھٹکل کا کھلاڑی ابوظبی انڈر۔16 کرکٹ ٹیم میں منتخب؛

بھٹکل کے معروف اور مایہ ناز بلے بازاور کوسموس اسپورٹس سینٹر کے سابق کپتان ارشد گنگاولی کے فرزند ارمان گنگاولی کو ابوظبی انڈر۔ 16 کرکٹ ٹیم میں شامل کیا گیا ہے جو جلد منعقد ہونے والے انڈر 16  ایمریٹس کرکٹ ٹورنامنٹ میں اپنے کھیل کا مظاہرہ کریں گے۔

ووٹنگ کے لئے خلیجی ممالک سے لوٹ آئے تیس ہزار سے زائد ملیالیس ؛ گلف کی مختلف جماعتوں پر لگی ہیں بھٹکل اور اُترکنڑا کے ووٹروں کی نگاہیں

ملک میں لوک سبھا کے  دوسرے مرحلہ  کے  انتخابات  جمعہ  26 اپریل کو ہونے والے ہیں ، جس میں  پڑوسی ضلع اُڈپی، مینگلور اور پڑوسی ریاست کیرالہ شامل ہیں۔ مگر اس بار  مودی حکومت سے ناراض   اور ملک میں جمہوری کو اقدار کو باقی رکھنے کے مقصد سے  کیرالہ کے تیس ہزار افراد صرف ووٹنگ کےلئے ...

قطر میں بھٹکل مسلم جماعت کی خوبصورت عید ملن تقریب

بھٹکل مسلم جماعت کی طرف سے حسب سابق۲ شوال  مطابق ١١ اپریل  بروز جمعرات قطر کے مختلف علاقوں میں رہائش پذیر بھٹکلی احباب کے لئے عید ملن کے نام سے ایک گیٹ ٹوگیدر تقریب کا اہتمام کیا گیا جس میں بچوں نے اپنی گوناگو صلاحیتوں کا مظاہرہ پیش کرتے ہوئے شریک حاضرین سے داد و تحسین حاصل ...

متحدہ عرب امارات میں شدید بارش؛ نظام زندگی مفلوج، عمان میں 18 افراد جاں بحق

  متحدہ عرب امارات (یو اے ای) اور اس کے گردونواح میں منگل کو طوفانی بارش ہوئی۔ صورتحال ایسی ہو گئی کہ متحدہ عرب امارات میں ہر طرف پانی ہی پانی نظر آیا۔ سیلاب کے باعث کئی شہر جام ہو گئے۔ وہیں، پڑوسی ملک عمان میں شدید بارشوں سے آنے والے سیلاب کے باعث 18 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

عمان میں سیلاب سے تباہی، 13 افراد جاں بحق، لاپتہ لوگوں کی تلاش جاری

مشرق وسطیٰ کے شہر عمان میں اس وقت سیلاب نے زبردست تباہی مچا رکھی ہے۔ اتوار سے ہی عمان میں سیلاب کا قہر دیکھنے کو مل رہا ہے اور پیر کے روز بھی موسلادھار بارش کی خبریں سامنے آ رہی ہیں۔ موصولہ اطلاع کے مطابق اب تک اس سیلاب نے 13 لوگوں کی جان لے لی ہے اور کئی دیگر لاپتہ ہیں جن کی تلاش ...

سعودی عربیہ میں روڈ ایکسڈینٹ کے کیس میں پھنسا ہے بھٹکل کا ایک نوجوان؛ بھٹکل کمیونٹی جدہ اور بھٹکل مسلم خلیج کونسل سے مدد کی اپیل

  بھٹکل بیلنی کا ایک  28 سالہ نوجوان محمد خالد ابن محمد جعفر گذشتہ چار سال سے   سعودی عربیہ کے   تيماء  میں معمولی  روڈ ایکسیڈنٹ کے   ایک کیس میں بری طرح پھنس گیا ہے اور عدالت نے اُس پر 34500 ریال (قریب سات لاکھ ہندوستانی رقم ) کا جرمانہ عائد کیا ہے۔ نوجوان کا کہنا ہے کہ اُس کی ...

ایشیائی ممالک میں شدید گرمی کی وجہ سے پانی کا شدید بحران پیدا ہو جائے گا : اقوام متحدہ

اقوام متحدہ کے موسم اور موسمیاتی ادارے نے تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ایشیائی ممالک میں گرمی کی لہر کے اثرات انتہائی سنگین ہوتے جا رہے ہیں اور گلیشیئروں کے پگھلنے سے آنے والے وقت میں خطے میں پانی کا شدید بحران پیدا ہو جائے گا۔

اسرائیلی جہاز پر پھنسے 17 ہندوستانیوں سے ہندوستانی افسران کی جلد ہوگی ملاقات، ایران کی یقین دہانی

  ایران و اسرائیل کی کشیدگی کے دوران جہاں ایک جانب ہندوستانی اسٹاک ایکسچنج لڑکھڑا نے لگا ہے تو وہیں ایران کی جانب سے ہندوستان کے لیے ایک راحت کی خبر بھی ہے۔ ایران نے اعلان کیا ہے کہ وہ ہندوستانی افسران کو اسرائیلی مقبوضہ جہاز پر سوار 17 ہندوستانیوں سے ملاقات کی جلد اجازت دے گا۔ ...

کینیڈا میں 24 سالہ ہندوستانی طالب علم کا گولی مار کر قتل

کینیڈا کے شہر وینکوور کے علاقے سن سیٹ میں 24 سالہ ہندوستانی طالب علم کو اس کی کار میں گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا۔ پولیس نے اتوار کو یہ جانکاری دی۔ وینکوور پولیس نے ایک بیان میں کہا کہ 24 سالہ چراغ انٹیل علاقے میں ایک گاڑی کے اندر مردہ پایا گیا۔

افغانستان میں سیلاب کے باعث 33 افراد ہلاک

ا فغانستان کے کچھ حصوں میں گزشتہ تین دنوں میں شدید بارشوں، برف باری اور سیلاب کی وجہ سے 33 افراد کی موت ہو گئی اور 27 دیگر زخمی ہو گئے۔نیشنل ڈیزاسٹر اتھارٹی کے ترجمان ملا جانان سائک نے اتوار کو یہ اطلاع دی۔

ایران کا اسرائیل پر ڈرونز اور کروز میزائلوں سے بڑا حملہ؛ خطے میں مچ گئی افراتفری

ایران نے شام میں قونصل خانے پر اسرائیلی بمباری کے جواب میں اسرائیل پر حملہ کردیا ہے۔ رپورٹوں کے مطابق ایران نے اسرائیل پر درجنوں ڈرونز اوع کروز میزائل داغے ہیں، جس کے ساتھ ہی پورے خطے میں افراتفری مچ گئی ہے۔

بیدر میں وزیراعلیٰ سدرامیا نے وزیراعظم مودی پر کی سخت تنقید 

بیدر کے انتخابی دورہ پر کرناٹک کے وزیراعلیٰ سدرامیا نے وزیراعظم نریندر مودی پر  یہ کہہ کر سخت تنقید کی کہ  اُنہیں انتخابات کے موقع پر ہی  کرناٹک کی یاد آتی ہے۔ شہر کے گنیش میدان میں منعقدہ کانگریس پارٹی کے انتخابی جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ریاست میں شدید خشک سالی ...

بی جے پی نے باغی لیڈر ایشورپا کو 6 سال کے لئے پارٹی سے معطل کر دیا

  کرناٹک میں آزاد امیدوار کے طور پر لوک سبھا الیکشن لڑ رہے بی جے پی کے باغی لیڈر کے ایس ایشورپا کو پارٹی نے 6 سال کے لئے معطل کر دیا۔ زیر بحث شیوموگا لوک سبھا سیٹ سے اپنی نامزدگی واپس نہیں لینے کے ایشورپا کے فیصلے کے بعد بی جے پی کی تادیبی کمیٹی نے اس تعلق سے ایک حکم جاری کر دیا۔ ...

یوپی-بہار میں شدید گرمی کی لہر کی پیش گوئی، کئی ریاستوں میں بارش کا الرٹ

راہملک کی شمالی ریاستوں میں درجہ حرارت ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھ رہا ہے۔ بڑھتی ہوئی گرمی کے باعث لوگوں کو شدید پریشانی کا سامنا ہے۔ تاہم کچھ ریاستوں میں بارش بھی ہو رہی ہے۔ ہندوستان کے محکمہ موسمیات (آئی ایم ڈی) نے کہا ہے کہ ہمالیائی مغربی بنگال، بہار، اوڈیشہ، آسام، مغربی ...

بی جے پی کی پالیسیوں کی وجہ سے دلت ومسلم ترقی سے محروم: مایاوتی

بہوجن سماج پارٹی(بی ایس پی) سپریمو مایاوتی نے کہا کہ بی جے پی کی ذات پات ، فرقہ وارانہ و پونجی وادی سوچ اور پالیسیوں کی وجہ سے ملک کے غریب، قبائلی، دلت اور مسلمانوںکی ترقی نہیں ہوسکی۔  مایاوتی نے یہاں سکندرآباد میں گوتم بدھ نگر علاقے کے پارٹی امیدوار راجندر سولنکی اور بلندشہر ...