دیشپانڈے کے سیاسی شاگرد شیورام ہیبار۔ استاد کے مقابلے میں استادی دکھانے کے لئے تیار!
بھٹکل 25/جولائی (ایس او نیوز) سیاسی طاقت کا نشہ ہی کچھ اور ہوتا ہے۔ اس میدان میں کون کب تک کس کا وفادار رہے گا یہ کہنا اب کسی کے بس کی بات نہیں رہی ہے۔کرناٹکا میں کھیلا گیا سیاسی ناٹک اور گرگٹ کی طرح رنگ بدلنے والے سیاسی لیڈروں کی چالیں اور اتھل پتھل اس کی تازہ ترین مثال ہے۔ ہوسکتا ہے کہ ملک کی دیگر ریاستوں میں بھی آئندہ دنوں میں ایسے واقعات دہرائے جائیں۔
کرناٹکا کے حالیہ سیاسی ڈرامے میں ایک کردار ضلع شمالی کینرا کے یلاپور کے ایم ایل اے شیورام ہیبار کا بھی ہے۔ سیاسی گلیاروں میں سب جانتے ہیں کہ ضلع انچارج وزیر سینئر سیاست دان آر وی دیشپانڈے شیورام ہیبار کے سیاسی گرو ہیں۔ لیکن اقتدار کی ہوس میں شیورام ہیبار نے اپنے استاد کے سامنے ہی استادی دکھانے کا فیصلہ کیا ہے اور اب وہ کانگریس سے نکل کر بی جے پی میں شامل ہونے کی راہ پر چل پڑے ہیں۔
دَل بدلی کرتے رہے ہیں: شیورام ہیبار نے جنتادل پریوار میں شمولیت کے ساتھ اپنے سیاسی کیریئر کا آغاز کیا تھا۔آر وی دیشپانڈے نے سیاسی میدان میں انہیں آگے بڑھانے کا کام کیا۔مگرکچھ عرصے بعد شیورام ہیبار جنتادل سے نکل کربی جے پی میں شامل ہوگئے۔ پھر جب وہاں پر بھی اقتدار کی ہوس پوری نہیں ہوئی تو کنول کو چھوڑکر ہاتھ کا ساتھ نبھانے کے لئے کچھ برس پہلے کانگریس میں داخل ہوئے۔حالیہ اسمبلی انتخابات کے بعد وزارت کا قلمدان نہ ملنے سے ناراض ہیبار کے بارے میں یہ خبریں بار بار عام ہورہی تھیں کہ وہ جلد ہی دَل بدل کر واپس کنول کو گلے لگاتے ہوئے بی جے پی کیمپ میں داخل ہونے والے ہیں۔ اور اب حالیہ ڈرامے کے دوران انہوں نے اپنا کردار پوری طرح اداکرتے ہوئے مخلوط حکومت کو گرانے کی سازش میں شامل رہے اور پھر بی جے پی میں شمولیت کے راستے پر نکل پڑے ہیں۔
دیشپانڈے سے تعلقات بگڑنے کا سبب: کانگریس میں رہتے ہوئے دیشپانڈے کے قابل اعتماد شاگرد کے طور پرپہچانے جانے والے ہیبار نے بعدکے دنوں میں اپنا رنگ بدل لیا تھا۔ جب ضلع میں مارگریٹ آلوا اور دیشپانڈے کے درمیان سیاسی سردجنگ چل رہی تھی تو ہیبار مارگریٹ آلوا کے خیمے سے قریب ہوگئے تھے۔شیورام ہیبار پر یہ الزام بھی لگتا رہا ہے کہ 2014کے پارلیمانی انتخابات میں کینرا ایم پی سیٹ پر مقابلہ کرنے والے دیشپانڈے کے فرزند پرشانت کو شکست دینے کے لئے ان کے خلاف کام کرنے والوں میں وہ بھی شامل رہے ہیں۔اورسیاسی جانکار مانتے ہیں کہ یہیں سے ہیبار او ردیشپانڈے کے تعلقات میں تلخیاں بڑھ گئیں۔
کیا دیشپانڈے نے کاٹا تھا پتہ؟: شیورام ہیبارکے قریبی لوگوں کاکہنا ہے کہ ہیبار کو اس بات کایقین ہوگیا تھا کہ اس مرتبہ اسمبلی الیکشن جیتنے کے بعدمخلوط حکومت میں وزارتی قلمدان ملنے کی انہیں جو امید تھی اس پر پانی پھیرنے میں وزیر دیشپانڈے کا پورا ہاتھ ہے۔ اور اس ٹھیس کی وجہ سے انہوں نے اپنے استاد کو ہی سبق سکھانے کا ارادہ کیا جس کے تحت دیگر کچھ اراکین کو کانگریس پارٹی سے بدظن کرنے اور بڑے پیمانے پر بغاوت کا پرچم بلند کرنے کی سازش رچنے والوں میں وہ شامل ہوگئے۔ پھر بی جے پی میں وزاتی قلمدان کا لالچ ملتے ہی کانگریسی رکن اسمبلی کی طورپر انہوں نے استعفیٰ دے ڈالا۔
حمایتی کارکنان کے ساتھ میٹنگ: معلوم ہوا ہے کہ مخلوط حکومت اعتماد کا ووٹ پانے میں ناکام رہنے سے دو دن پہلے ہی شیورام ہیبار باغی اراکین اسمبلی کے محفوظ ٹھکانے ممبئی ریسارٹ سے یلاپور واپس لوٹ آئے تھے۔ حکومت گرنے کے بعد انہوں نے اپنے مکان پر حمایتوں کے ساتھ بات چیت کے لئے ایک نشست منعقد کی اور اس بات کا جائزہ لیا کہ آئندہ ان کی بی جے پی میں شمولیت کی صورت میں کتنے لوگ ان کا ساتھ دینے والے ہیں۔اس میٹنگ کے دوران ہیبار کے حمایتی کارکنان کو ان کی بی جے پی میں شامل ہونے کی تاریخ اوروہاں ملنے والے وزارتی قلمدان کی تفصیلات سے بھی آگاہ کیا گیا۔
بی جے پی کی مشکلیں: اس بیچ یہ بھی پتہ چلاہے کہ بی جے پی کے اندر ہی اس بات پرابھی الجھن بنی ہوئی ہے کہ اپنی پارٹیوں سے بے وفائی کرکے مخلوط حکومت گرانے کا منصوبہ پورا کرکے بی جے پی میں شامل ہونے والے کتنے اراکین کو وزارتیں دی جائیں گی۔ معتبر ذرائع کے مطابق ہائی کمانڈ اور آر ایس ایس نے واضح کیا ہے کہ پارٹی چھوڑ کر آنے کے باوجود سیاسی زندگی میں جو لوگ سینئر اور تجربہ کار ہیں انہی کو فوقیت دینا ہوگا۔اس کے علاوہ علاقہ، ذات پات اور دیگر عوامل کے ساتھ متوقع وزیراعلیٰ ایڈی یورپا سے قربت رکھنے والوں کو زیادہ ترجیح دیے جانے کی باتیں گردش کررہی ہیں۔ جس سے ظاہر ہورہا ہے کہ اگر ریاست میں بی جے پی کی حکومت بن بھی جاتی ہے تو دیگر پارٹیوں سے بغاوت کرکے آنے والے تمام اراکین کو وزارت میں شامل کرنا اور اُن کو مطمئن رکھنا بی جے پی کے لئے بھی آسان نہیں ہوگا۔