یلاپور ضمنی انتخاب میں عوام کے لئے یہ سمجھنا مشکل ہوگیا ہے کہ کس کا تعلق کس پارٹی سے ہے
یلاپور24/ستمبر (ایس او نیوز) ریاستی اسمبلی انتخابات کو مکمل ہوئے ابھی دوسال بھی پورے نہیں ہوئے تھے کہ بعض اراکین اسمبلی کی اپنی پارٹیوں سے بغاوت او ر استعفے کے بعد دوبارہ ضمنی انتخا بات کا موسم آگیا ہے۔ اس میں ضلع شمالی کینرا کا یلاپور اسمبلی حلقہ بھی ہے۔
یلاپور میں سیاسی پارٹیوں اور کارکنوں کی موجودہ صورت حال کچھ ایسی ہے کہ عوام کے لئے یہ سمجھنا مشکل ہوگیا ہے کونسا سیاسی لیڈر اور کارکن کس پارٹی سے تعلق رکھتا ہے، کیونکہ بعض سیاسی کارکنان او رلیڈر ہر پارٹی کے اجلاس میں دکھائی دے رہے ہیں یا پھر اندرونی طور پر ایک دوسرے کے ساتھ سانٹھ گانٹھ بنائے ہوئے ہیں۔پیر کے دن جے ڈی ایس پارٹی کی میٹنگ منعقد کرنے کے لئے رکن اسمبلی کوناریڈی یلاپور پہنچے تھے۔اس موقع پر جب کوناریڈی ہوٹل سے باہر نکلے تومعروف سیاسی لیڈروی وی جوشی ان کے ساتھ گھل مل کر خوش مذاقی کرتے ہوئے نظر آئے۔ یہ وہی جوشی ہیں جو پہلے جنتادل ایس کے تعلقہ صدر تھے، وہاں سے دَل بدلی کرتے ہوئے انہوں نے کانگریس میں شمولیت اختیار کی اور بلاک کانگریس صدر بن گئے۔ پھر جب سٹنگ ایم ایل اے شیورام ہیبار نے پارٹی سے بغاوت کی اور نااہل قراردئے گئے تو یہی جوشی ان کی حمایت میں کھڑے ہوگئے۔
اب جب جنتادل ایس کے رکن اسمبلی کے ساتھ کھڑے ہوکر انہوں نے کیمروں کو پوز دیا تو جنتادل کے پرانے ساتھی وی وی جوشی کو خوش آمدید کہتے ہوئے دکھائی دئے۔اس سے عوام کو گمان ہورہا ہے کہ شاید جوشی پھر ایک بار جنتادل ایس میں شامل ہونے جارہے ہیں۔لیکن خود جوشی نے اخبار نویسوں کے اس سوال نہ دیتے ہوئے مسکرانے پر ہی اکتفا کیا۔
ایک دوسرے واقعے میں یلاپور پٹن پنچایت میں جے ڈی ایس سے تعلق رکھنے والے تنہا رکن سید قیصر کانگریس پارٹی کی طرف سے ویدویاس ہال میں منعقدہ پارٹی میں بلاک کانگریس صدر اور دیگر لیڈران کے ساتھ گھلتے ملتے دکھائی دئے۔ وہاں پر انہوں نے بھی اخبارنویسوں کو بھرپور مسکراہٹ کے ساتھ فوٹو اتارنے کے لئے پوز دئے۔تیسری طرف جہاں تک بی جے پی کا تعلق ہے وہاں سے بھی یہ سن گن مل رہی ہے کہ پارٹی کے سابق رکن اسمبلی وی ایس پاٹل اس مرتبہ کانگریس یا جنتادل ایس میں شامل ہوکر شاید انتخابی اکھاڑے میں اترنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔
اس غیر یقینی او ربدلتے سیاسی منظر نامے میں اپنی اپنی پارٹیوں سے وفاداری نبھانے والے چھوٹے کارکنان اس الجھن میں ہیں کہ وہ آخر کس پر بھروسہ کریں اور کیا لائحہ عمل اپنائیں۔اس وجہ سے ممکن ہے کہ اس بار جو ضمنی انتخاب ہونے جارہا ہے اس میں نچلی سطح کے سیاسی کارکنان شاید زیادہ دلچسپی نہ لیں اور کسی ایک پارٹی کے لئے ہی مخلص ہوکر انتخاب جیتنے کے لئے میدان میں نہ اتریں۔کیونکہ جب قائدین ہی اس شاخ سے اس شاخ پر پھدکنے لگیں تو بے چارے کارکنان کیا کرسکتے ہیں۔