جوئیڈا کے چھوٹے سے دیہات میں ٹیلی فون کے ذریعے جاری ہے بچوں کی تعلیم کا سلسلہ
جوئیڈا 16/جولائی(ایس او نیوز)شہری آبادی سے دور گھنے جنگل میں واقع ڈیریہ نامی دیہات میں آج کل بچوں کے لئے ٹیلی ایجوکیشن کا سلسلہ چل رہا ہے جس سے وہاں پر بسنے والے قبائلی طبقے کے طلبہ خوب مستفید ہورہے ہیں۔
جوئیڈا سے 12کلو میٹر دور واقع اس گاؤں سے 500کلو میٹر سے زیادہ فاصلے پر رہنے والی ایک ٹیچربچوں کے سامنے آئے بغیر صرف ٹیلی فون کے ذریعے ان کو انگریزی، حساب اور بایولوجی کی تعلیم ہر روز شام میں ایک گھنٹہ تک دے رہی ہے اور’کُنبی قبیلے‘ کے طلبہ دلچسپی کے ساتھ ٹیچر کی آواز سن کر اسباق سے استفاد ہ کررہے ہیں۔
ڈیریہ گاؤں کے دس قبائلی بچوں پر مشتمل چوتھی جماعت سے ایس ایس ایل سی تک کی کلاس چلانے والی ٹیچر میسورو کے ونٹی کوپا کی رہنے والی ڈاکٹر پورنیما ہے جو کہ کرناٹکا اوپن یونیورسٹی کی ایک ریٹائرڈ پروفیسر ہے۔ حالانکہ اس چھوٹی گاؤں میں موبائل کے سگنل صاف نہیں ہوتے۔ صرف دو ایک گھروں کے احاطے میں بہت ہی کمزور سگنل مل رہا ہے۔یہاں پر انٹرنیٹ رابطے کے بارے میں توسوچنا بھی ممکن نہیں ہے۔ اس لئے آن لائن کلاس کا موقع نہ رہنے کے باوجود صرف فون پر آواز سناکر بچوں کی تعلیم کاسلسلہ جاری رکھنا بڑے خلوص اور دلچسپی کا مظہر ہے۔
بتایا جاتا ہے کہ قبائلی بچوں کی تعلیم کے لئے ڈاکٹر پورنیما کی دلچسپی کو دیکھتے ہوئے جوئیڈا کے اس ’کُنبی‘ قبیلے کے صدر ڈاکٹر جیا نند ڈیریکر نے ایک موبائل فون اور بلیو ٹوتھ اسپیکربازارسے خریدا۔پھرموبائل سگنل ملنے والے گاؤں کے ایک گھر میں روزانہ شام 4.30بجے سے ایک گھنٹے کے لئے ٹیلی کلاس کا انتظام کردیا۔
ڈاکٹر پورنیماکا کہنا ہے کہ”امسال ایک مہینے تک جوئیڈا میں خصوصی کلاسس چلانے کا ارادہ تھا۔ مگر لاک ڈاؤن کی وجہ سے یہ ممکن نہیں ہوسکا۔ اب بچوں کو ٹیلی کلاس سے فائد ہ اٹھاتے دیکھ کر بہت زیادہ خوشی ہوتی ہے۔بچوں کو اسباق کی ایک نقل بنا کر دی گئی ہے۔ بچے اس کو دیکھ کر پڑھائی کرتے ہیں اور جہاں دشواری ہوتی ہے اس کے بارے میں پوچھ لیتے ہیں۔میں ڈراموں کے ذریعے بھی بچوں کو انگریزی زبان او ر اس کا گرامر سکھایا کرتی ہوں۔اس کا بچوں کی پڑھائی پر بہت ہی زیادہ اچھا اثر پڑتا ہے اور جلد ہی اسباق سیکھ جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ چلڈرنس لٹریری کلب کے ذریعے بچوں کی ثقافتی اور تعلیمی سرگرمیوں کو فروغ دیا جاتا ہے۔“
ڈاکٹر جیانند کاکہنا ہے کہ ”لاک ڈاؤن کی وجہ سے دیہاتوں کے بچوں کی تعلیم میں رکاوٹ نہیں آنی چاہیے۔ ڈاکٹر پورنیما جیسے وظیفہ یاب پروفیسر کے ذریعے بچوں کی پڑھائی جاری رہنا ایک خوش قسمتی کی بات ہے۔“جبکہ ڈاکٹر پورنیما کہتی ہیں کہ ”دیہاتوں کے بچوں کو بہتر انگریزی تعلیم ملنا چاہیے۔ انہیں مسابقت دور میں کمتری کا احساس نہیں ہونا چاہیے۔یہی میرا مقصد ہے۔“اسی طرح ۹ ویں جماعت کی ایک طالبہ سنیہا کہتی ہے کہ ”سامنے ٹیچر کی موجودگی کے بغیر پڑھائی کرنا بالکل ایک نیا تجربہ ہے۔اس سے اسکول کے کلاس روم میں فائدہ ہوگا۔“