صدیق کپن اور کمار ساؤئیر : کمار نے عدالت کو بتایا کہ ہم دونوں کا مذہب ایک ہے!!
بھٹکل:10؍ فروری (ایس اؤ نیوز )کمار ساؤئیر اور صدیق کپن دونوں صحافی ہیں۔ لیکن ایک دوسرے کو نہ جانتے ہیں نہ پہچانتے ہیں۔ اور نہ کبھی اس سے پہلے دونوں کی ملاقات ہوئی، لیکن عدالت کے سامنے کمار نے کہا کہ وہ صدیق کپن کو اچھی طرح جانتے ہیں اور ہم دونوں کا مذہب ایک ہے۔
صدیق کپن لکھنؤ جیل سے جب رہا ہوئے تو ان کی خواہش تھی کہ وہ سب سے پہلے کمار ساؤئیرکودیکھیں۔ رہائی کے بعد جیسے ہی دونوں کا آمنا سامنا ہواتو بس بڑی دیر تک صرف گلے ملے ،چپ چاپ کھڑے رہے، کوئی بات چیت نہیں ۔ وہ ایک جذباتی سین تھا جو دیکھنےلائق تھا۔
کمار لکھنؤ سے تعلق رکھنے والے ایک صحافی ہیں۔ 28مہینوں سے جیل میں بند صدیق کپن کو رہائی کےلئے ضمانتی بانڈ چاہئے تھا تو کمار ساؤئیر نے ضمانتی بانڈ دیا۔ کمارنےلکھنؤ کے پکشی کا تالاب علاقےمیں موجود اپنے نام والی 9000مربع فٹ زرعی زمین کو ہی بطور ضمانتی بانڈ رکھا ہے۔ دیانت دار ، حقائق والی رپورٹنگ کرنے والے صحافیوں کےلئے خطرناک سمجھی جانے والی،بدنام ریاست میں کمار کی مذکورہ ہمدردی اور ان کی معاونت کی بہت سارے لوگ ستائش کررہے ہیں۔ اس تعلق سے سوشیل میڈیا پر 63سالہ کمار نےلکھا ہےکہ ’’ہم ایک ذمہ دار، جذباتی،سماجی اور حساس مخلوق ہیں۔ ہماری زندگی، ہمارے اپنے ہم جنسوں کےلئے سہارا دینےکی ہونی چاہئے۔ دوسروں کی آنکھوں کے آنسوؤں کے پیچھے چھپے ہوئے درد کو محسوس کرتےہوئے ان آنسوؤں کو پونچھنا ہمارا فرض ہے۔
ہاتھرس میں ایک درج فہرست لڑکی پر ہوئی مبینہ عصت دری کی رپورٹنگ کے لئےجارہے صدیق کپن کو 5اکتوبر 2020 میں اترپردیش کی پولس نے گرفتارکیاتھا اور ان کےخلاف ملک غداری ، یو اے پی اے جیسے کئی سخت قوانین کے تحت مقدمات درج کئے تھے ۔ 2ستمبر 2022کو انہیں سپریم کورٹ میں ضمانت ملی بھی تو ای ڈی معاملہ کو لے کر جیل میں ہی رہنا پڑا۔ 2دسمبر 2022میں اس معاملےمیں بھی انہیں ضمانت ملی تو عدالت میں ضمانت دینے کےلئے کوئی نہیں ملا جس کی وجہ سے مزید کئی ماہ جیل میں ہی رہناپڑا۔حساس معاملہ ہونے اورحکومت کے خوف کی وجہ سے کوئی بھی صدیق کپن کو ضمانت دینےکےلئے تیار نہیں ہورہاتھا۔ ایسے وقت کمار ساوئیر سامنے آئے اور ضمانت دینے تیار یوگئے، ان کی ہی دی گئی ضمانت کی وجہ سے صدیق کپن رہا ہوگئے۔
میڈیا رپورٹوں کی مانیں تو کمار جب ضمانت دینےکےلئے راضی ہوئے تو پولس کی طرف سے انہیں کافی ہراساں کیا گیا۔ عدالت پہنچ کر ضمانت کی یقین دہانی کرانے کے بعد کمار کو دماغی اسٹروک ہوگیا جس کی وجہ سے انہیں اسپتال میں داخل کرنا پڑا۔ بتایا گیا ہے کہ ان سنگین حالات میں بھی پولس نے انہیں عدالت میں حاضری دینے کے لئے ستانا شروع کردیا۔ ضروری اور لازمی دستاویزات سونپنے کے بعد بھی کہاگیا کہ انہیں ازخود عدالت میں حاضر ہونا ہوگا۔ کمار دوبارہ یکم فروری 2023کو عدالت میں حاضر ہوئے۔ عدالت میں کمار سے پوچھا گیا کہ تم نے یہ زمین کس سے خریدی ہے؟ اسی طرح کے پوچھے گئے دیگر سوالات کو بے کار بتانے والے کمار کہتے ہیں کہ لوگ جب اچھا کام کرتےہیں تو انہیں ہراساں نہیں کرنا چاہئے۔ کمار نے ایک دیانت دار، بے خوف اور نڈر صحافی کے طورپر اپنی شناخت بنائی ہے۔ان سے صرف سیاست دان ہی نہیں بلکہ خود ان کےہم پیشہ ساتھی بھی دور ہی رہتےہیں۔
ان کے والد سیارام ترپاٹھی سنئیر صحافی رہے ہیں۔ باپ اور دادا دونوں بائیں بازو والی فکر رکھتے تھے انہوں نے ہمیشہ انصاف پر قائم رہنےکی تلقین کی تھی۔
کمار جب صدیق کپن کی حمایت میں پہلی مرتبہ عدالت میں حاضر ہوئے تھے توانہیں پوچھا گیا کہ کیا تم صدیق کپن کو جانتے ہو؟۔کمار کا جواب تھا۔ ہاں ، ایک صحافی ہونےکے ناطے ہم دونوں کا ایک ہی مذہب ہے۔ کمار ساوئیر جب راست گوئی اور حقیقت پر مبنی رپورٹنگ کو جرم کہےجانے والی دنیا میں ایک انجان صحافی کی حمایت میں اپنی صحت اور دولت کو داؤ پر لگاتے ہوئے صدیق کے حق میں کھڑے ہوگئے تو صدیق کپن ضمانت پر جیل سے باہر آنے میں کامیاب ہوگئے۔