بھٹکل کے ڈاکٹروں اور سماجی خدمت گاروں کے تعاون سے کنداپور کا فالج زدہ مریض سعودی عربیہ سے پہنچا اپنے وطن
بھٹکل25؍مارچ (ایس او نیوز) ساحلی کرناٹکا کے کنداپور سے تعلق رکھنے والا چندرا شیکھر پانڈو رنگا سارنگ نامی ایک شخص فالج کا حملہ ہونے کے بعد ریاض سعودی عربیہ کے اسپتال میں گزشتہ ساڑھے تین مہینےسے داخل تھا۔ فالج کی وجہ سے چندرا شیکھر اپنے ہاتھ پاوں یا جسم کو حرکت دینے سے قاصر ہے۔ صرف اس کی آنکھیں حرکت کرتی ہیں۔ اس کی اس حالت کا پتہ لگنے پر سعودی عربیہ میں مقیم بھٹکل اور مرڈیشورکے ڈاکٹروں اور سماجی خدمت گاروں نے اس معاملے میں دلچسپی لی اور انسانی ہمدردی کی بنیاد پر اس مریض کو اس کے اپنے وطن پہنچانے اور یہاں پر اسپتال میں داخل کروانے کا پورا انتظام کر دیا۔
خیال رہے کہ چار سال قبل بھٹکل کے اسی قسم کے ابوبکر نامی مریض کو بھی دمام سے بھٹکل لانے کے ڈاکٹر ظہیر کولا (ڈینٹسٹ) نے بڑی دلچسپی لی تھی اور سعودی میں مقیم بھٹکل اور مرڈیشور کے ڈاکٹروں اور سماجی خدمت گاروں کے تعاون سے اس مریض کو بھٹکل لانے میں کامیاب ہوئے تھے۔
اب کنداپور کے چندرا شیکھر نامی مریض کو وطن واپس لانے میں بھی بھٹکل سے ڈاکٹر ظہیر کولا نے دلچسپی لی اور سعودی میں مقیم ڈاکٹر وسیم مانی، وقاص رکن الدین، فوزان بیدکول، اشتیاق ارمار، ڈاکٹر بیکل کےعلاوہ دیگر سماجی خدمت گاروں نے بھرپوراور کامیاب جد و جہد کی۔
خیال رہے کہ ایسے مریضوں کو واپس لانے کے سلسلے میں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر بھٹکل اور مرڈیشور کے افراد نے زیادہ سے زیادہ سرگرمی دکھائی ہے جبکہ ہندوستانی سفارت خانہ کی طرف سے اس ضمن میں کوئی خاص اقدام نہیں کیا گیا ہے۔ یہاں تک کہ وزارت خارجہ سے رابطہ قائم کرنے پر بھی کوئی فائدہ نہیں ہوا ہے۔
پڈوبیدری کے ڈاکٹر بیکل اس مریض چندرا شیکھر کو اپنے ساتھ لے کر جب منگلورو ایئر پورٹ پہنچے تو اس وقت استقبال کرنے کے لئے ڈاکٹر ظہیرکولا، ویلفئیر اسپتال کے ایک ذمہ دار سید ابوالاعلیٰ اور دیگر افرادایئر پورٹ پر موجود تھے۔ پھر چندرا شیکھر کو سیدھے منگلورو کے اے جے ہاسپٹل لے جاکر وہاں نگہداشت اور علاج کے لئے داخل کیا گیا۔
ہندوستانی شہری ہونے کی وجہ سے بیرون ملک مصیبت میں پھنسنے کے بعد اس مریض کا حق تھا کہ ہندوستانی سفارت خانہ آگے بڑھ کر اسے ہندوستان واپس بھیجنے کا پورا انتظام کرتا۔ مگر معلوم ہوا ہے کہ ہندوستانی سفارت خانہ سے اس معاملے میں کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ جس کے بعد یہ ذمہ داری سماجی خدمات کا شعور رکھنے والے نجی افراد نے اُٹھائی۔ کسی بھی مذہبی اور سماجی تفریق کے بغیر صرف انسانی بنیادوں پر کی گئی یہ خدمت یقیناً لائق ستائش ہے۔