بھٹکل پرانے بس اسٹانڈ کے پاس مچھلیوں کی فروخت۔ گندگی اور کچرے سے بیماریاں پھیلنے کا خدشہ۔ بلدیہ اور تعلقہ انتظامیہ کے افسران خاموش تماشائی
بھٹکل،30؍اگست (ایس او نیوز) لاک ڈاؤن کی وجہ سے مچھلیوں کے شکار پر جو پابندی لگی ہوئی تھی وہ تو کب کی ہٹادی گئی مگر حکومت کی طرف سے مچھلی مارکیٹ کو کھولنے کی اجازت ابھی نہیں دی گئی ہے، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ سمندر سے مچھلیوں کا شکار کرنے کے بعد مچھلی فروش خواتین ان مچھلیوں کو عام بازاروں اور محلوں میں سڑک کنارے بیٹھ کر بیچنے پر مجبور ہوگئی ہیں۔مگر اس سے پھیلنے والی گندگی کو ہٹانے کی فکر کسی کو نہیں ہوتی۔
کچھ ایسی ہی حالت بھٹکل کے پرانے بس اسٹانڈ کے پاس دیکھنے کو مل رہی ہے۔ یہاں پر موجود پرانی مچھلی مارکیٹ کو بھی لاک ڈاؤن کی وجہ سے بندکر دیا گیا تھا۔ اور وہ ابھی تک یونہی بند پڑی ہے۔ لیکن ماہی گیری کی سرگرمیاں شروع ہوتے ہی مچھلیاں بازار میں لائی جانے لگیں۔ جب مارکیٹ میں بیٹھ کر مچھلی فروخت کرنے کی اجازت بلدیہ یا تعلقہ انتظامیہ کی طرف سے نہیں دی گئی تو مچھلی فروشوں نے مارکیٹ سے متصل دکانوں کے سامنے اور پرانے بس اسٹانڈ میں رکشا پارکنگ اسٹانڈ کے احاطے میں عوامی چہل پہل کی جگہ پربیٹھ کر مچھلیاں فروخت کرنا شروع کردیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی مچھلیوں کے خریداروں کی بھیڑ بھی روزانہ بڑھتی جارہی ہے۔ اس سڑک پر گاڑیاں دوڑانے اور پیدل گزرنے والوں کو سخت تکلیف ہورہی ہے۔اس کے علاوہ یہاں کے دکانداروں کے لئے بھی بڑی دشواریاں پیدا ہوگئی ہیں۔ دن بھر کے شور اور ہنگامے کی وجہ سے قریب میں واقع اسپتال میں داخل مریضوں کے اذیت اور پریشانی الگ مسئلہ ہے۔
ان سب سے بڑھ کر سنگین مسئلہ یہاں پر پھیلی ہوئی گندگی اور بد بو کا ہے۔ مچھلی فروش اپنا کاروبار کرتے ہوئے یہاں پر کچرا اور گندا پانی سڑک پر یا قریبی نالے میں یونہی چھوڑ دیتے ہیں۔مارکیٹ کے اطراف میں پھیلی بدبو سے یہاں کے دکاندار ایک طرف پریشان ہیں تو دوسری طرف یہاں سے گزرنا دوبھر ہوگیا ہے۔ گزشتہ دو تین ہفتوں سے یہاں روزانہ بڑے پیمانے پر مچھلیاں فروخت کرنے کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔لیکن بلدیہ کی طرف سے یہاں صفائی کا کوئی اہتمام نہیں کیا جاتا۔ بند پڑی ہوئی مارکیٹ کی صفائی کرنے والابھی کوئی نہیں ہے۔یہاں پر لگے ہوئے گندگی کے ڈھیر اور سڑاند کو دیکھنے پر ایسالگتا ہے کہ بھٹکل میں کورونا بیماری سے زیادہ بڑی مصیبت اس گندگی سے آنے والی ہے۔ اور یہاں پر بھرے مچھروں کے کاٹنے سے لوگ کسی وبائی مرض کا ضرور شکار ہوسکتے ہیں۔
اس مسئلے پر جب بلدیہ کے افسران کو بذریعہ فون توجہ دلائی گئی تو ان کا کہنا ہے کہ اگر تحریری شکایت دیں گے تواس پر کارروائی کے سلسلے میں غور کیا جائے گا۔ زبانی شکایت پر کوئی اقدام نہیں کیا جاسکتا۔صحت عامہ کے لئے ماحول کی صفائی ستھرائی کا انتظام دیکھنے کے لئے متعینہ ہیلتھ آفیسر دیکھ سن مت بول والے موڈ میں ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ صرف دکانوں میں موجود پلاسٹک کی تھیلیاں ضبط کرنے کی ذمہ داری سنبھال رہی ہیں۔ بھٹکل تحصیلدار سے فون پربات کی گئی تو انہوں نے موقع پر پہنچ کر معائنہ کرنے کے بعد کوئی کارروائی کرنے کا بھروسہ دلایاتھا، مگر اس بات کو دس بارہ دن گزرچکے ہیں اور تحصیلدار کو ابھی فرصت نہیں ملی ہے۔
عوام کا کہنا ہے کہ بلدیہ اور تعلقہ انتظامیہ کی یہ ذمہ داری ہے کہ مچھلی فروخت کرنے کا مناسب انتظام اورماحو ل کو صاف ستھرا رکھنے کا انتظام کرتے ہوئے مچھلی فروشوں، سڑک پر سے گزرنے والوں اور یہاں کے دکانداروں کو درپیش مسائل اور خطرات سے راحت دلائی جائے۔مگر ایسا لگتا ہے کہ بلدیہ کے افسران عوامی احتجاج اور گھیراؤ کی زبان ہی سمجھتے ہیں۔ اور جب تک عوام وہ طریقہ نہیں اپنائیں گے تب تک یہ لوگ نیند سے جاگنے والے نہیں ہیں۔فی الحال بلدیہ افسران کے ناک کے نیچے ہی درپیش گندگی اور بدبو کی صورتحال دیکھ کر ایک عام آدمی بھی یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ بلدیہ دفتر کے آنگن میں ہی صفائی ستھرائی کی اگر یہ حالت ہے تو پھر پورے شہر کا کیا حال ہورہا ہوگا۔ جبکہ بلدیہ اور تعلقہ انتظامیہ کے افسران شہریوں کی صحت اور تندرستی کے مسئلے کو بھگوان بھروسے چھوڑ کرغفلت کی گہری نیند کے مزے لینے میں مشغو ل ہیں۔