گودی میڈیا: کبھی کبھار گھنگرو توڑ بھی دینا چاہیے۔۔۔۔۔۔۔از: اعظم شہاب
’بھارت جوڑو یاترا‘ کے دوران جب راہل گاندھی کا قافلہ مہاراشٹر کے اکولہ ضلع کے بالاپور میں تھا تو ہمیں بھی اس یاترا میں شامل ہونے کا شرف حاصل ہوا۔ ہم اسے شرف اس لیے کہہ رہے ہیں کہ ہم نے اس یاترا کے دوران لاکھوں لوگوں کو جمہوری قدروں کے تحفظ اور نفرت چھوڑ کر محبت کو فروغ دینے کے لیے سڑکوں پر واقعتاً تپسیا کرتے ہوئے دیکھا تھا۔ یہ یاترا جب بالاپور میں تھی تو راہل گاندھی نے ایک پریس کانفرنس میں میڈیا کے سوالوں کے جوابات دیئے تھے۔ اس دوران لداخ میں چین کی دراندازی کا معاملہ سرخیوں میں تھا، لیکن دلچسپ بات یہ رہی کہ پوری کانفرنس کے دوران کسی بھی میڈیا کے نمائندے نے چین پر کوئی سوال نہیں کیا۔ پریس کانفرنس کے اختتام پر راہل گاندھی نے اس بات کو محسوس کرتے ہوئے کہا کہ مجھے یقین تھا کہ چین پر کوئی سوال نہیں کیا جائے گا، جس پر خفت چھپانے کے لیے ایک نمائندے نے چین پر سوال کیا تھا۔
اتنے عرصے بعد اس بات کا ذکر ہم نے اس لیے کیا کہ تاکہ حکومت کے تئیں میڈیا کی اس تابعداری کی ایک مثال پیش کر سکیں جس کی پاداش میں انڈیا اتحاد نے 14 گودی اینکروں کے شوز کا بائیکاٹ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ لیکن گودی میڈیا کے اینکروں کے بائیکاٹ کا اثراتنی جلدی اور اس قدر وسیع پیمانے پر ہوگا؟ اس کا اندازہ غالباً بائیکاٹ کرنے والے انڈیا اتحاد کے لیڈروں کو بھی نہیں رہا ہوگا۔ ان 14 گودی اینکروں کی فہرست جاری ہوئے گو کہ آج چار روز ہو چکے ہیں، لیکن ان بیچاروں کی چیخ و پکار ابھی تک سنائی دے رہی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان کی بلبلاہٹ دیکھ کر لوگوں میں ان کے تئیں ہمدردی تو دور مزید سختی محسوس کی جا رہی ہے۔ یوٹیوب پر ایسی کئی ویڈیوز موجود ہیں جن میں ان اینکروں کے بائیکاٹ پر لوگوں کا کہنا ہے کہ بہت پہلے ان کا بائیکاٹ ہو جانا چاہئے تھا۔ نیزیہ کہ اس فہرست میں مزید کچھ لوگوں کا نام شامل کیا جانا چاہئے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اب یہ خبر بھی آنے لگی ہے کہ انڈیا اتحاد کی جانب سے گودی اینکروں کے بائیکاٹ کی دوسری فہرست جلد آنے والی ہے۔
انڈیا اتحاد کے ذریعے بائیکاٹ کیے جانے والے ان اینکروں کی حالتِ زار کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ یہ بیچارے کھل کر نہ اپنی کرتوتوں کا اعتراف کر پا رہے ہیں جس کی وجہ سے ان کا بائیکاٹ ہوا ہے، اور نہ ہی اس نقصان کو برداشت کر پا رہے ہیں جو بائیکاٹ کی صورت میں انہیں اٹھانا پڑے گا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اب یہ ’وکٹم کارڈ‘ کھیلنے لگے ہیں۔ لیکن جس طرح شکوہ بیجا کے لیے بھی شعور لازم ہوتا ہے اسی طرح وکٹم کارڈ کے استعمال کے لیے بھی آدمی کے اندر کچھ ایسی خوبی ہونی چاہئے کہ لوگ ہمدردی کرنے پر مجبور ہوں۔ ان اینکروں میں یہ خوبی کبھی کبھار عوامی آواز بننے کی صورت میں ظاہر ہو سکتی تھی، لیکن گزشتہ 9 سالوں سے اس ضمن میں بالکل سناٹا ہے۔ یوں بھی مالی مفاد کے لیے جو لوگ اپنی غیرت بیچ چکے ہوں، ان سے بھلا یہ تصور کیسے کیا جا سکتا ہے کہ کسی موقع پر وہ عوام کی آواز بن جائیں گے۔ ایسے لوگوں سے تو بہتر کوٹھوں کی وہ مکین ہوتی ہیں جو اصولوں کی بات آ جانے پر اپنے گھنگرو توڑ دیا کرتی ہیں۔ لیکن یہاں تو گزشتہ 9 سالوں سے ’تاک دھنا دِھن‘ ہی ہو رہا ہے۔ اگر ان کے اندر ذرا بھی اخلاقی جرأت ہوتی تو یہ بہ بانگ دہل کہتے کہ ہاں ہم بی جے پی کے طرفدار اور مودی حکومت کے باجگزار ہیں، جس کا جی چاہے ہمارے شوز میں آئے اور جس کا جی نہ چاہے وہ نہ آئے۔ لیکن مصیبت یہ ہے کہ اس سچائی کا اعتراف کرنے کے لیے بھی ہمت چاہئے۔
انڈیا اتحاد کے ان دھتکارے ہوئے لوگوں میں سے ایک صاحب امیش دیوگن ہیں، جنہیں سوشل میڈیا پر پیار سے ’گُلّو‘ بھی کہا جاتا ہے۔ ان کہنا ہے کہ یہ ایمرجنسی ہے اور اس بائیکاٹ کے باوجود وہ اسی طرح سوالات کرتے رہیں گے جس طرح گزشتہ 20 سالوں سے کر رہے ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ فرمائشی سوال نہیں تو بائیکاٹ کیا جائے گا۔ گلو بھائی کی ان باتوں سے ان کی ذہنی کیفیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ ایک جانب وہ ایمرجنسی کی بات کرتے ہیں تو دوسری جانب ’پابندی‘ کی دہائی دیتے ہیں۔ ان سے پوچھا جانا چاہئے کہ اگر کوئی شخص ان کی دعوت نہ قبول کرے تو کیا وہ پابندی کہلائے گا؟ اور اگر انڈیا اتحاد کا یہ بائیکاٹ ایمرجنسی ہے تو انہیں بتانا چاہئے کہ اپوزیشن بھلا کب سے ایمرجنسی لگانے کا اہل ہو گیا؟ اگر یہ ’بین‘ ایمرجنسی کی مانند ہے تو انہیں یہ بھی کہنا چاہئے کہ اپوزیشن حکومت سے زیادہ مضبوط ہے۔ ایسی صورت میں تو ان جیسے تمام ایجنڈا برداروں کو جیل میں ہونا چاہئے۔
گلو کا یہ بھی کہنا ہے کہ فرمائشی سوال نہیں تو بائیکاٹ کیا جائے گا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ بی جے پی سے فرمائشی سوالات ہی کرتے ہیں جبھی تو اس نے بائیکاٹ نہیں کیا۔ اور یہ سچ بھی ہے کہ جس دن انہوں نے بی جے پی سے فرمائشی سوالات کرنا بند کر دیے، اسی دن ان پر ’بین‘ لگ جائے گا اور پھر وہ کسی کونے کھدرے میں دبکے نظر آئیں گے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس بائیکاٹ کے باوجود بھی وہ اسی طرح سوالات کرتے رہیں گے جس طرح گزشتہ 20 سالوں سے کر رہے ہیں۔ اب بھلا انہیں کون سمجھائے کہ گلو بھائی آپ کے 20 سال تک سوالات کرنے پر کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہے، لیکن ان سوالات کے رخ پر ضرور اعتراض ہے۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ وکٹم کارڈ کھیلتے ہوئے آدمی کے اندر تھوڑا بہت ایسا عنصر ضرور ہونا چاہئے جس کی بنیاد پر لوگوں میں ہمدردی پیدا ہو سکے۔ وگرنہ وہی ہوتا ہے جو پہلے پیراگراف میں بیان کیا گیا کہ اس فہرست میں مزید لوگوں کو شامل کیے جانے کی آواز اٹھنے لگی ہے۔
سچائی یہ ہے کہ ’گلو‘ کی ہی مانند تمام گودی اینکرز اپنے اپنے طور پر بوکھلاہٹ کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ یہ لوگ یہ فیصلہ ہی نہیں کر پا رہے ہیں کہ انہیں اس بائیکاٹ پر کیا اور کیسے ردعمل ظاہر کرنا ہے۔ اگر وہ یہ کہتے ہیں کہ سوالات کیے جانے کی وجہ سے انڈیا اتحاد نے ان کے شوز کا بائیکاٹ کیا ہے تو سوال یہ پیدا ہو جاتا ہے کہ صرف اپوزیشن سے ہی سوالات کرنا کہاں کا جرنلزم ہے؟ اگر یہ بیچارے یہ اعتراف کرتے ہیں کہ وہ مودی حکومت کے ایجنڈا بردار ہیں تو پھر ان کا رونا دھونا ہی بے معنی ہو جائے گا۔ اس لیے ان کی سمجھ میں نہیں آ رہا ہے کہ انڈیا اتحاد کے فیصلے کی کس طرح مخالفت کریں۔ ان کے اندر یہ صفت بھی مودی سے ہی آئی ہے جو بھاشن کے وقت ہمیشہ یہ بھول جاتے ہیں کہ وہ پارلیمنٹ میں کھڑے ہیں یا انتخابی ریلی میں۔ یہ بھی دراصل خوف کی ایک شکل ہے کہ جب یہ آدمی کے اوسان پر سوار ہو جاتا ہے تو وہ فیصلہ ہی نہیں کر پاتا کہ اسے کرنا کیا ہے۔ مثال کے طور پر پارلیمنٹ کے خصوصی اجلاس کے پہلے دن ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ مودی جی پارلیمانی روایت اور خصوصی اجلاس طلب کرنے کی غرض و غایت بتاتے، وہ اپوزیشن پر تنقید کرنے بیٹھ گئے۔ یہ دراصل وہ خوف ہی ہے جو انڈیا اتحاد کی شکل میں پورے زعفرانی گروہ پر حاوی ہو گیا ہے۔ اس لیے یہ ڈر اچھا لگ رہا ہے، یہ ڈر مزید مضبوط ہونا چاہئے۔
(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں، اس سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں)