گودی میڈیا: کبھی کبھار گھنگرو توڑ بھی دینا چاہیے۔۔۔۔۔۔۔از: اعظم شہاب

Source: S.O. News Service | Published on 19th September 2023, 8:22 PM | ملکی خبریں | اسپیشل رپورٹس |

’بھارت جوڑو یاترا‘ کے دوران جب راہل گاندھی کا قافلہ مہاراشٹر کے اکولہ ضلع کے بالاپور میں تھا تو ہمیں بھی اس یاترا میں شامل ہونے کا شرف حاصل ہوا۔ ہم اسے شرف اس لیے کہہ رہے ہیں کہ ہم نے اس یاترا کے دوران لاکھوں لوگوں کو جمہوری قدروں کے تحفظ اور نفرت چھوڑ کر محبت کو فروغ دینے کے لیے سڑکوں پر واقعتاً تپسیا کرتے ہوئے دیکھا تھا۔ یہ یاترا جب بالاپور میں تھی تو راہل گاندھی نے ایک پریس کانفرنس میں میڈیا کے سوالوں کے جوابات دیئے تھے۔ اس دوران لداخ میں چین کی دراندازی کا معاملہ سرخیوں میں تھا، لیکن دلچسپ بات یہ رہی کہ پوری کانفرنس کے دوران کسی بھی میڈیا کے نمائندے نے چین پر کوئی سوال نہیں کیا۔ پریس کانفرنس کے اختتام پر راہل گاندھی نے اس بات کو محسوس کرتے ہوئے کہا کہ مجھے یقین تھا کہ چین پر کوئی سوال نہیں کیا جائے گا، جس پر خفت چھپانے کے لیے ایک نمائندے نے چین پر سوال کیا تھا۔

اتنے عرصے بعد اس بات کا ذکر ہم نے اس لیے کیا کہ تاکہ حکومت کے تئیں میڈیا کی اس تابعداری کی ایک مثال پیش کر سکیں جس کی پاداش میں انڈیا اتحاد نے 14 گودی اینکروں کے شوز کا بائیکاٹ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ لیکن گودی میڈیا کے اینکروں کے بائیکاٹ کا اثراتنی جلدی اور اس قدر وسیع پیمانے پر ہوگا؟ اس کا اندازہ غالباً بائیکاٹ کرنے والے انڈیا اتحاد کے لیڈروں کو بھی نہیں رہا ہوگا۔ ان 14 گودی اینکروں کی فہرست جاری ہوئے گو کہ آج چار روز ہو چکے ہیں، لیکن ان بیچاروں کی چیخ و پکار ابھی تک سنائی دے رہی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان کی بلبلاہٹ دیکھ کر لوگوں میں ان کے تئیں ہمدردی تو دور مزید سختی محسوس کی جا رہی ہے۔ یوٹیوب پر ایسی کئی ویڈیوز موجود ہیں جن میں ان اینکروں کے بائیکاٹ پر لوگوں کا کہنا ہے کہ بہت پہلے ان کا بائیکاٹ ہو جانا چاہئے تھا۔ نیزیہ کہ اس فہرست میں مزید کچھ لوگوں کا نام شامل کیا جانا چاہئے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اب یہ خبر بھی آنے لگی ہے کہ انڈیا اتحاد کی جانب سے گودی اینکروں کے بائیکاٹ کی دوسری فہرست جلد آنے والی ہے۔

انڈیا اتحاد کے ذریعے بائیکاٹ کیے جانے والے ان اینکروں کی حالتِ زار کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ یہ بیچارے کھل کر نہ اپنی کرتوتوں کا اعتراف کر پا رہے ہیں جس کی وجہ سے ان کا بائیکاٹ ہوا ہے، اور نہ ہی اس نقصان کو برداشت کر پا رہے ہیں جو بائیکاٹ کی صورت میں انہیں اٹھانا پڑے گا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اب یہ ’وکٹم کارڈ‘ کھیلنے لگے ہیں۔ لیکن جس طرح شکوہ بیجا کے لیے بھی شعور لازم ہوتا ہے اسی طرح وکٹم کارڈ کے استعمال کے لیے بھی آدمی کے اندر کچھ ایسی خوبی ہونی چاہئے کہ لوگ ہمدردی کرنے پر مجبور ہوں۔ ان اینکروں میں یہ خوبی کبھی کبھار عوامی آواز بننے کی صورت میں ظاہر ہو سکتی تھی، لیکن گزشتہ 9 سالوں سے اس ضمن میں بالکل سناٹا ہے۔ یوں بھی مالی مفاد کے لیے جو لوگ اپنی غیرت بیچ چکے ہوں، ان سے بھلا یہ تصور کیسے کیا جا سکتا ہے کہ کسی موقع پر وہ عوام کی آواز بن جائیں گے۔ ایسے لوگوں سے تو بہتر کوٹھوں کی وہ مکین ہوتی ہیں جو اصولوں کی بات آ جانے پر اپنے گھنگرو توڑ دیا کرتی ہیں۔ لیکن یہاں تو گزشتہ 9 سالوں سے ’تاک دھنا دِھن‘ ہی ہو رہا ہے۔ اگر ان کے اندر ذرا بھی اخلاقی جرأت ہوتی تو یہ بہ بانگ دہل کہتے کہ ہاں ہم بی جے پی کے طرفدار اور مودی حکومت کے باجگزار ہیں، جس کا جی چاہے ہمارے شوز میں آئے اور جس کا جی نہ چاہے وہ نہ آئے۔ لیکن مصیبت یہ ہے کہ اس سچائی کا اعتراف کرنے کے لیے بھی ہمت چاہئے۔

انڈیا اتحاد کے ان دھتکارے ہوئے لوگوں میں سے ایک صاحب امیش دیوگن ہیں، جنہیں سوشل میڈیا پر پیار سے ’گُلّو‘ بھی کہا جاتا ہے۔ ان کہنا ہے کہ یہ ایمرجنسی ہے اور اس بائیکاٹ کے باوجود وہ اسی طرح سوالات کرتے رہیں گے جس طرح گزشتہ 20 سالوں سے کر رہے ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ فرمائشی سوال نہیں تو بائیکاٹ کیا جائے گا۔ گلو بھائی کی ان باتوں سے ان کی ذہنی کیفیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ ایک جانب وہ ایمرجنسی کی بات کرتے ہیں تو دوسری جانب ’پابندی‘ کی دہائی دیتے ہیں۔ ان سے پوچھا جانا چاہئے کہ اگر کوئی شخص ان کی دعوت نہ قبول کرے تو کیا وہ پابندی کہلائے گا؟ اور اگر انڈیا اتحاد کا یہ بائیکاٹ ایمرجنسی ہے تو انہیں بتانا چاہئے کہ اپوزیشن بھلا کب سے ایمرجنسی لگانے کا اہل ہو گیا؟ اگر یہ ’بین‘ ایمرجنسی کی مانند ہے تو انہیں یہ بھی کہنا چاہئے کہ اپوزیشن حکومت سے زیادہ مضبوط ہے۔ ایسی صورت میں تو ان جیسے تمام ایجنڈا برداروں کو جیل میں ہونا چاہئے۔

گلو کا یہ بھی کہنا ہے کہ فرمائشی سوال نہیں تو بائیکاٹ کیا جائے گا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ بی جے پی سے فرمائشی سوالات ہی کرتے ہیں جبھی تو اس نے بائیکاٹ نہیں کیا۔ اور یہ سچ بھی ہے کہ جس دن انہوں نے بی جے پی سے فرمائشی سوالات کرنا بند کر دیے، اسی دن ان پر ’بین‘ لگ جائے گا اور پھر وہ کسی کونے کھدرے میں دبکے نظر آئیں گے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس بائیکاٹ کے باوجود بھی وہ اسی طرح سوالات کرتے رہیں گے جس طرح گزشتہ 20 سالوں سے کر رہے ہیں۔ اب بھلا انہیں کون سمجھائے کہ گلو بھائی آپ کے 20 سال تک سوالات کرنے پر کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہے، لیکن ان سوالات کے رخ پر ضرور اعتراض ہے۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ وکٹم کارڈ کھیلتے ہوئے آدمی کے اندر تھوڑا بہت ایسا عنصر ضرور ہونا چاہئے جس کی بنیاد پر لوگوں میں ہمدردی پیدا ہو سکے۔ وگرنہ وہی ہوتا ہے جو پہلے پیراگراف میں بیان کیا گیا کہ اس فہرست میں مزید لوگوں کو شامل کیے جانے کی آواز اٹھنے لگی ہے۔

سچائی یہ ہے کہ ’گلو‘ کی ہی مانند تمام گودی اینکرز اپنے اپنے طور پر بوکھلاہٹ کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ یہ لوگ یہ فیصلہ ہی نہیں کر پا رہے ہیں کہ انہیں اس بائیکاٹ پر کیا اور کیسے ردعمل ظاہر کرنا ہے۔ اگر وہ یہ کہتے ہیں کہ سوالات کیے جانے کی وجہ سے انڈیا اتحاد نے ان کے شوز کا بائیکاٹ کیا ہے تو سوال یہ پیدا ہو جاتا ہے کہ صرف اپوزیشن سے ہی سوالات کرنا کہاں کا جرنلزم ہے؟ اگر یہ بیچارے یہ اعتراف کرتے ہیں کہ وہ مودی حکومت کے ایجنڈا بردار ہیں تو پھر ان کا رونا دھونا ہی بے معنی ہو جائے گا۔ اس لیے ان کی سمجھ میں نہیں آ رہا ہے کہ انڈیا اتحاد کے فیصلے کی کس طرح مخالفت کریں۔ ان کے اندر یہ صفت بھی مودی سے ہی آئی ہے جو بھاشن کے وقت ہمیشہ یہ بھول جاتے ہیں کہ وہ پارلیمنٹ میں کھڑے ہیں یا انتخابی ریلی میں۔ یہ بھی دراصل خوف کی ایک شکل ہے کہ جب یہ آدمی کے اوسان پر سوار ہو جاتا ہے تو وہ فیصلہ ہی نہیں کر پاتا کہ اسے کرنا کیا ہے۔ مثال کے طور پر پارلیمنٹ کے خصوصی اجلاس کے پہلے دن ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ مودی جی پارلیمانی روایت اور خصوصی اجلاس طلب کرنے کی غرض و غایت بتاتے، وہ اپوزیشن پر تنقید کرنے بیٹھ گئے۔ یہ دراصل وہ خوف ہی ہے جو انڈیا اتحاد کی شکل میں پورے زعفرانی گروہ پر حاوی ہو گیا ہے۔ اس لیے یہ ڈر اچھا لگ رہا ہے، یہ ڈر مزید مضبوط ہونا چاہئے۔

(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں، اس سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں)

ایک نظر اس پر بھی

ٹروڈو کی سکیورٹی ٹیم نے صدارتی سویٹ میں وزیر اعظم کو ٹھہرانے سے انکار کر دیا

کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو کی سکیورٹی ٹیم نے ہندوستانی انٹیلی جنس ایجنسیوں کو اس وقت گھبراہٹ میں ڈال دیا جب انہوں نے ٹروڈو کو صدارتی سویٹ میں جگہ دینے سے انکار کردیا جس کا خصوصی طور پر ہندوستانی سکیورٹی ٹیموں نے نئی دہلی میں جی 20 سربراہی اجلاس کے دوران اہتمام کیا تھا، اور ...

کینیڈا اِدھر اُدھر کی باتیں نہ کرے، بلکہ نجر کے قتل پر ثبوت پیش کرے، ہندوستان کی دو ٹوک

 خالصتان حامی ہردیپ سنگھ نجر کے قتل کے معاملے پر ہندوستان نے کینیڈا سے سختی سے کہا ہے کہ وہ ثبوت پیش کرے اور بغیر کسی وجہ کے الزامات نہ لگائے۔ نیوز پورٹل ’اے بی پی لائیو‘ کی رپورٹ کے مطابق بدھ (20 ستمبر) کو قومی سلامتی کے مشیر (این ایس اے) اجیت ڈووال نے نئی پارلیمنٹ میں وزیر داخلہ ...

ٹرین حادثات میں ایکس گریشیا رقم میں 10 گنا اضافہ، ریلوے بورڈ کا اہم فیصلہ

انڈین ریلوے بورڈ نے ٹرین حادثے میں موت یا زخمی ہونے کی صورت میں ادا کی جانے والی ایکس گریشیا رقم میں 10 گنا اضافہ کر دیا ہے۔ اس رقم میں آخری بار 2012 اور 2013 میں نظر ثانی کی گئی تھی۔ بورڈ نے کہا کہ اب ٹرین حادثات اور ناخوشگوار واقعات میں ہلاک اور زخمی مسافروں کے اہل خانہ کو ادا کی ...

مقننہ میں خواتین کا ریزرویشن صنفی انصاف کے میدان میں سب سے بڑا انقلاب: صدر جمہوریہ  دروپدی مرمو

صدر جمہوریہ  دروپدی مرمو نے بدھ کو کہا کہ لوک سبھا اور ریاستی قانون ساز اسمبلیوں میں خواتین کے لیے ریزرویشن کا قانون 'صنفی انصاف' (خواتین کو بااختیار بنانے) کی سمت میں ہمارے دور کا سب سے بڑی تبدیلی کا انقلاب ہوگا۔

ہندوستانی فضائیہ کا پہلا ٹرانسپورٹ ایئرکرافٹ سی-295 وڈودرا کے فضائیہ اسٹیشن پہنچا

ہندوستانی فضائیہ کا پہلا سی-295 ٹرانسپورٹ ایئرکرافٹ ہندوستان پہنچ گیا ہے۔ یہ ایئرکرافٹ شام تقریباً ساڑھے پانچ بجے وڈودرا کے فضائیہ اسٹیشن پر اترا۔ طیارہ کو گروپ کیپٹن پی ایس نیگی نے اڑایا تھا اور بحرین سے پرواز بھرنے کے بعد آج یہ ہندوستان پہنچ گیا۔

غازی آباد میں ’مڈ ڈے میل‘ کا دودھ پینے سے 25 بچے بیمار، اسپتال میں داخل

غازی آباد کے لونی کوتوالی علاقہ کے پرائمری اسکول، پریم نگر میں مڈ ڈے میل کا دودھ پینے سے 25 بچے بیمار ہو گئے ہیں۔ دودھ پیتے ہی طلبا کو سر اور پیٹ میں درد کے ساتھ ساتھ الٹی کی شکایت ہونے لگی۔ بچوں کی خراب ہوتی طبیعت کو دیکھتے ہوئے انھیں فوراً لونی سی ایچ سی اسپتال میں داخل کرایا ...

پابندی کے باوجود میڈیا خود احتسابی کے بجائے بی جے پی کا ایجنڈا ہی آگے بڑھا نے میں مصروف۔۔۔۔۔از: عبید اللہ ناصر

اپوزیشن پارٹیوں کے اتحاد ’انڈیا‘ کی جانب سے 14 اینکروں کے مباحثوں اور دیگر پروگراموں کے بائیکاٹ کو لے کر ملک میں متضاد خیالات سامنے آ رہے ہیں۔ مودی دور کی سب سے بڑی صفت یہی رہی ہے کہ پورا سماج ہی نہیں بلکہ خاندان تک دو حصّوں میں منقسم ہو گئے ہیں۔ ایک طبقہ نفرت کی حد تک مودی کا ...

آندھیرے میں ڈوبا ہے بھٹکل نیشنل ہائی وے؛ حکام سمیت سماجی اداروں کے ذمہ داران کوبھی نظرنہیں آرہی ہےعوام کی مشکلات

قلب شہر شمس الدین سرکل سے رنگین کٹہ، نوائط کالونی، مدینہ کالونی اور وینکٹاپوراور دوسری طرف موڈ بھٹکل، موگلی ہونڈا، سرپن کٹہ اورگورٹے تک چار کلومیٹر نیشنل ہائی وے سے بجلی کے قمقمے غائب ہیں۔ جس کی وجہ سے پورا نیشنل ہائی وے اندھیرے میں ڈوب گیا ہے۔ شام ہوتے ہی ہائی وے کنارے ...

بھٹکل:پھر شروع ہوا جے ڈی ایس اور بی جے پی کا ہنی مون سیزن - ہَوا میں لٹک گیا ضلع کے جے ڈی ایس لیڈران کا سیاسی مستقبل ۔۔۔ آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے ۔۔۔از: ڈاکٹر محمد حنیف شباب

رنگ بدلتے سیاسی موسم کے بیچ اگلے پارلیمانی انتخابات کے پس منظر میں جنتا دل ایس کے سپریمو سابق وزیر اعظم ایچ ڈی دیوے گوڑا اور موجودہ وزیر اعظم  نریندر مودی اور وزیر داخلہ امیت شاہ کے درمیان ہوئے سمجھوتے کے ساتھ ریاست میں پھر ایک بار جے ڈی ایس اور بی جے پی کا نیا ہنی مون سیزن - ۲ ...

ذاتوں کی بنیاد پر ہونےوالی مردم شماری کی رپورٹ چاٹ رہی ہے دھول، آخرکب ہوگا نفاذ؟ خصوصی رپورٹ: مدثراحمد

بنگلوروسال2015 میں سدرامیا کی قیادت والی حکومت نے ریاست میں مختلف ذاتوں کے سماجی اور اقتصادی حالات کا جائزہ لینے کیلئے ذاتوں کی بنیادپرمردم شماری یعنی کاسٹ سینسس کروایا تھا،جس کی حتمی رپورٹ اُسی سال حکومت کے حوالے کردی گئی تھی۔

آشوب چشم، ایک وبائی مرض

آشوب چشم ایک عام وقوع پزیرہونے والا مرض ہے، جو کافی تکلیف دہ ہوتا ہے۔ موسمِ برسات کے بعد آشوبِ چشم کا مرض بڑی تیزی کے ساتھ پھیلتا ہے۔ اس مرض میں مریض کی آنکھیں سوج کر سرخ اور بھاری ہو جاتی ہیں۔ آنکھوں میں دکھن اور جلن کا احساس شدت سے ہونے لگتا ہے۔ آنکھو ں سے پانی نما پتلی ...