انتخابی سیاست میں خواتین کی حصہ داری کم کیوں ؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ڈاکٹر مظفر حسین غزالی

Source: S.O. News Service | By I.G. Bhatkali | Published on 15th November 2023, 5:59 PM | اداریہ |

ملک کی پانچ ریاستوں کی ہواؤں میں انتخابی رنگ گھلا ہے ۔ ان میں نئی حکومت کو لے کر فیصلہ ہونا ہے ۔ کھیتوں میں جس طرح فصل پک رہی ہے ۔ سیاستداں اسی طرح ووٹوں کی فصل پکا رہے ہیں ۔ زندگی کی جدوجہد میں لگے جس عام آدمی کی کسی کو فکر نہیں تھی ۔ الیکشن آتے ہی اس کے سوکھے ساون میں بہار آنے کا یقین دلایا جا رہا ہے ۔ سیاسی جماعتیں اپنے امیدواروں کا اعلان کر چکی ہیں ۔ میزورم کے عوام نئی حکومت کے لئے اپنی رائے دے چکے ہیں ۔ تو چھتس گڑھ میں بیس سیٹوں پر امیدواروں کی قسمت کا فیصلہ ہو چکا ہے ۔ دیگر جماعتوں نے بھی اپنے امیدوار میدان میں اتارے ہیں لیکن راجستھان، مدھیہ پردیش اور چھتس گڑھ میں کانگریس کا بی جے پی سے سیدھا مقابلہ ہے ۔ تلنگانہ میں بی آر ایس اور میزورم میں این ایم ایف کانگریس کے مد مقابل ہے ۔ ہر فرنٹ پر ناکام رہنے والی بی جے پی بلند باغ دعوں کے ساتھ خود کو سب سے بہتر جماعت بتا رہی ہے ۔ اس نے پارلیمنٹ کے خصوصی اجلاس میں خواتین ریزرویشن بل پاس کراکر خود کو خواتین کا ہمدرد ثابت کر رہی ہے ۔ اس بل کے مطابق انتخابی سیاست میں خواتین کو 33 فیصد حصہ دیا جانا ہے ۔ 

اس سے قبل اُجلا یوجنا کے تحت غریبوں کو مفت سلنڈر دینے کا خوب ڈھول پیٹا گیا ۔ لیکن گیس سلنڈر اتنا مہنگا کر دیا کہ اکثر کے لئے ریفل کرانا مشکل ہو گیا ۔ اسی طرح تین طلاق کے خلاف قانون کو اس طرح پیش کیا گیا جیسے مسلم خواتین کو بڑی پریشانی سے نجات دلا دی ہو ۔ بیٹی پڑھاؤ بیٹی بچاؤ اسکیم کا غبارہ بھی خوب پھلایا گیا ۔ مگر حکومت خواتین کے خلاف تشدد اور ہر 15 منٹ میں ہونے والے عصمت دری کے واقع کو نہیں روک پائی ۔ کئی واقعات میں تو خود بی جے پی زانیوں کے بچاؤ میں کھڑی دکھائی دی ۔ تمغہ دلا کر ملک کا نام روشن کرنے والی پہلوان بیٹیوں کو بھی بی جے پی حکومت انصاف نہیں دلا سکی ۔ جبکہ انہوں نے خود وزیر اعظم سے اپنے ساتھ ہوئے جنسی استحصال کی شکایت کی تھی ۔ لیکن گزشتہ سالوں میں سرکار کی اکثر اسکیموں کا رخ خواتین کی طرف رہا ہے ۔ کیونکہ پچھلے تیس سال میں خواتین کی ووٹ دینے میں حصہ داری تیزی سے بڑھی ہے ۔ سال 1993 میں قریب 60 فیصد پولنگ ہوا تھا۔ تب 68 فیصد مردوں اور صرف 52 فیصد عورتوں نے ووٹ دیا تھا ۔ لیکن اب صورتحال بدل گئی ہے ۔ یہی وجہ یے کہ کانگریس بی جے پی کو خواتین ووٹر اور خواتین لیڈر یاد آرہے ہیں ۔ خواتین ریزرویشن بل بھی اسی طبقہ کو لبھانے کے لئے پانچ ریاستوں میں بنے انتخابی ماحول کے بیچ پاس کرایا گیا ۔ تاکہ بی جے پی اس کا سہرا اپنے سر باندھ سکے ۔ 

خواتین کے لئے 33 فیصد ریزرویشن کی بات کرنے والی بی جے پی نے ٹکٹ دینے کے معاملہ میں فراغ دلی کا مظاہرہ نہیں کیا ۔ اس نے اسمبلی انتخابات میں 15 فیصد سے بھی کم خواتین کو امیدوار بنایا ہے ۔ مدھیہ پردیش میں بی جے پی نے 28 اور کانگریس نے 30 خواتین کو ٹکٹ دیا ہے ۔ کانگریس نے 30 میں سے 20 ایس سی، ایس ٹی کے لئے ریزرو سیٹوں پر خواتین کو اپنا امیدوار بنایا ہے ۔ جبکہ بی جے پی نے 28 میں سے ایس سی، ایس ٹی کے لئے ریزرو 12 سیٹوں پر خواتین کو ٹکٹ دیا ہے ۔ حالانکہ ساگر کی 7 سیٹوں میں سے چار پر کانگریس نے خواتین کو ٹکٹ دیا ہے ۔ راجستھان میں خواتین کی حصہ داری دھیرے دھیرے بڑھ رہی ہے ۔ 1952 کے پہلے الیکشن میں جہاں صرف دو خواتین ایم ایل اے بنی تھیں ۔ وہیں 1985 کے انتخاب میں پہلی مرتبہ 17 خواتین منتخب ہوکر اسمبلی پہنچی تھیں ۔ اس وقت اسمبلی میں 27 خواتین ایم ایل اے ہیں ۔ سال 2018 کے انتخاب میں کانگریس نے 27 اور بی جے پی 23 خواتین کو ٹکٹ دیا تھا ۔ اس مرتبہ 200 سیٹوں میں سے کانگریس نے 28 اور بی جے پی نے صرف 21 پر خواتین کو اپنا امیدوار بنایا ہے ۔ راجستھان اسمبلی انتخابات کے گزشتہ پانچ چناؤ کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ الیکشن لڑنے والی 696 خواتین میں سے 458 کی ضمانت ضبط ہوئی ہے ۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ عوام خواتین کو ووٹ نہیں دیتے ۔

چھتس گڑھ کی بات کریں تو وہاں بی جے پی نے 15 کو جبکہ کانگریس نے 18 خواتین کو ٹکٹ دیا ہے ۔ بی جے پی کا وہاں لمبے عرصہ تک اقتدار رہا ہے ۔ پھر بھی اسے نئے لوگوں پر داو لگانا پڑا ہے ۔ اس بار بی جے پی نے 48 نئے چہرے میدان میں اتارے ہیں ۔ حالانکہ کانگریس نے اپنے ممبران اسمبلی کی کارکردگی کو دھیان میں رکھ کر 32 نئے چہروں میں بھروسہ دکھایا ہے ۔ 90 سیٹوں والی اسمبلی انتخاب کے لئے بی جے پی نے جنرل کیٹگری میں 14، او بی سی 35 ،ایس سی 10،ایس ٹی طبقہ کے 30 اور اقلیتی طبقہ سے ایک کو امیدوار بنایا ہے ۔ وہیں کانگریس نے جنرل کیٹگری میں 15، او بی سی 29، ایس سی 10، ایس ٹی طبقہ سے 33 امیدواروں کو میدان میں اتارا ہے اور اقلیتی طبقہ سے 3 کو ٹکٹ دیا ہے ۔ ملک میں تقریباً تمام ہی سیاسی جماعتیں خواتین کو نظر انداز کرتی رہی ہیں ۔ اس معاملہ میں ٹی ایم سی اور بیجو جنتا دل کا ریکارڈ اچھا ہے ۔ 

ٹکٹ تقسیم میں خواتین کی مسلسل خراب نمائندگی کے بارے میں کانگریس کے میڈیا پربھاری کے کے مشرا کا کہنا ہے کہ ہم خواتین کی تعداد میں لگاتار اضافہ کر رہے ہیں ۔ اس وقت 15 فیصد خواتین کو ٹکٹ دیا گیا ہے ۔ پارٹی ہر الیکشن کے ساتھ اس میں اضافہ کرنے کے لئے باعہد ہے ۔ کانگریس شعبہ خواتین سے تعلق رکھنے والی نوری خان کا کہا کہ کانگریس کی پرینکا گاندھی نے یوپی الیکشن میں 40 فیصد خواتین کو ٹکٹ دیا تھا ۔ کانگریس انتخابی سیاست میں خواتین کی 33 فیصد حصہ داری کو یقینی بنانے کی کوشش کر رہی ہے ۔ جلد ہی وہ اس ہدف کو حاصل کرے گی ۔ وہیں بی جے پی کے دیپک وجے ورگیہ نے کہا کہ فی الحال جیتنے کی صلاحیت کو پیمانہ بنا کر ایسی خواتین کو ٹکٹ دیا ہے جو الیکشن جیت سکیں ۔ بی جے پی نے انتخابی سمیکرن کو سامنے رکھ ہی ٹکٹ دیئے ہیں ۔ بی جے پی کی اشیکا پانڈے کا کہنا ہے لوگ عوتوں کو ووٹ نہیں دیتے ۔ بی جے پی یہ بات جانتی ہے اس کا فوکس الیکشن جیتنے پر رہتا ہے ۔ اس لئے وہ ذات اور علاقے کے سمیکرن کو دھیان میں رکھ کر ہی خواتین کو ٹکٹ دیتی ہے ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بی جے پی کا ہر قدم الیکشن سے جڑا ہوتا ہے ۔ شاید اسی لئے خواتین ریزرویشن بل بھی پاس ہونے کے باوجود عمل میں نہیں آسکا ۔ جبکہ لوکل باڈی انتخابات کا ماڈل ہمارے سامنے ہے ۔ جس میں خواتین کے لئے 33 فیصد ریزرویشن التزام ہے ۔ موجودہ ووٹر لسٹ کو بنیاد بنا کر اسے نافذ کیا جا سکتا ہے ۔ اگر خواتین کو اسمبلی اور پارلیمنٹ میں 33 فیصد حصہ داری ملے گی تو نہ صرف  سیاست کا رنگ بدلے گا بلکہ ملک کی فضا پر بھی اس کا مثبت اثر پڑے گا ۔ 

ایک نظر اس پر بھی

یہ الیکشن ہے یا مذاق ؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آز: ڈاکٹر مظفر حسین غزالی

ایک طرف بی جے پی، این ڈی اے۔۔ جی نہیں وزیر اعظم نریندرمودی "اب کی بار چار سو پار"  کا نعرہ لگا رہے ہیں ۔ وہیں دوسری طرف حزب اختلاف کے مضبوط امیدواروں کا پرچہ نامزدگی رد کرنے کی  خبریں آرہی ہیں ۔ کھجوراؤ میں انڈیا اتحاد کے امیدوار کا پرچہ نامزدگی خارج کیا گیا ۔ اس نے برسراقتدار ...

اُترکنڑا میں جنتا دل ایس کی حالت نہ گھر کی نہ گھاٹ کی ! کمارا سوامی بن کر رہ گئے بغیر فوج کے کمانڈر !

ایسا لگتا ہے کہ جنتا دل ایس نے بی جے پی کے ساتھ شراکت کا جو فیصلہ کیا ہے اس سے ریاستی سطح پر ایک طرف کمارا سوامی بغیر فوج کے کمانڈر بن کر رہ گئے ہیں تو دوسری طرف ضلعی سطح پر کارکنان نہ ہونے کی وجہ سے پارٹی کے نام پر محض چند لیڈران ہی اپنا دربار چلا رہے ہیں جسے دیکھ کر کہا جا سکتا ہے ...

کیا کینرا پارلیمانی سیٹ پر جیتنے کی ذمہ داری دیشپانڈے نبھائیں گے ؟ کیا ضلع انچارج وزیر کا قلمدان تبدیل ہوگا !

پارلیمانی الیکشن قریب آنے کے ساتھ کانگریس پارٹی کی ریاستی سیاست میں بھی ہلچل اور تبدیلیوں کی ہوا چلنے لگی ہے ۔ ایک طرف نائب وزیر اعلیٰ ڈی کے شیو کمار اور وزیر اعلیٰ سدا رامیا کے بیچ اندرونی طور پر رسہ کشی جاری ہے تو دوسری طرف پارٹی کے اراکین اسمبلی وقتاً فوقتاً کوئی نہ کوئی ...

کانگریس بدلے گی کیا راجستھان کی روایت ؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ڈاکٹر مظفر حسین غزالی

ملک کی جن پانچ ریاستوں میں انتخابات ہو رہے ہیں راجستھان ان میں سے ایک ہے ۔ یہاں کانگریس اور بی جے پی کے درمیان اقتدار کی ادلا بدلی ہوتی رہی ہے ۔ اس مرتبہ راجستھان میں دونوں جماعتوں کی دھڑکن بڑھی ہوئی ہیں ۔ ایک کی اقتدار جانے کے ڈر سے اور دوسری کی اقتدار میں واپسی ہوگی یا نہیں اس ...

غزہ: پروپیگنڈے سے پرے کچھ اور بھی ہے! ۔۔۔۔۔۔۔ از: اعظم شہاب

غزہ و اسرائیل جنگ کی وہی خبریں ہم تک پہنچ رہی ہیں جو سامراجی میڈیا ہم تک پہنچانا چاہتا ہے۔ یہ خبریں عام طورپر اسرائیلی فوج کی بمباریوں اور غزہ میں جان و مال کی تباہیوں پرمبنی ہوتی ہیں۔ چونکہ جنگ جیتنے کا ایک اصول فریقِ مخالف کو اعصابی طور پر کمزور کرنا بھی ہوتا ہے، اس لیے اس طرح ...