چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔از: ظفر آغا
یومِ آزادی کا جشن تو فطری شے ہے۔ ہم ہندوستان کی اس خوش نصیب نسل سے تعلق رکھتے ہیں جس نے غلامی نہیں بھگتی، لیکن اکثر اپنے والدین سے غلامی کی صعوبتیں سنی ہیں۔ پھر گاندھی جی، شہید بھگت، جواہر لال نہرو، مولانا آزاد کی زندگی کے حالات سنے اور پڑھے ہیں۔ گاندھی جیسے مہاتما کو برسوں جیل کاٹنی پڑی۔ جواہر لال نہرو نے بھری جوانی میں اپنی زندگی کے نو سال جیل کی سلاخوں کے پیچھے کاٹے۔ نوجوان و کم عمر بھگت سنگھ ہنستے ہنستے پھانسی کے پھندے پر چڑھ گئے۔ مولانا آزاد برسوں انگریزوں کے خلاف لکھتے اور بولتے رہے اور آئے دن جیل جاتے رہے۔ یہ تو چند آزادی کے لیے لڑنے والوں کا ذکر ہے۔ مئی سنہ 1857 میں مغلوں کے آخری چشم و چراغ بہادر شاہ ظفر کی قیادت میں لڑی جانے والی جنگ آزادی سے لے کر گاندھی جی کی سرپرستی میں سنہ 1942 کی 'بھارت چھوڑو تحریک' اور پھر سنہ 1947 میں آزادی تک لاکھوں ہندوستانیوں نے وطن پر اپنی جانیں نچھاور کیں۔ ان کی خدمات کے بعد ہم کو جو آزادی نصیب ہوئی ہے اس کا جشن اور خوشی تو ہر ہندوستانی کے دلوں میں ہر سال 15 اگست کے روز دیکھنے کو ملتا ہے، اور ایک بار پھر دل میں آج 76 سالوں بعد بھی اس یومِ آزادی کا جشن کم نہیں ہو سکا ہے۔ بلاشبہ ہم سب کے لیے یہ دن عید سے بھی بڑھ کر ہے۔
لیکن اب آزادی کی77ویں سالگرہ پر ہم ہندوستانی محض جشن نہیں مناتے، بلکہ اس موقع پر ہم سب ذرا رک کر یہ تجزیہ بھی کرتے ہیں کہ آزادی کے بعد ہماری جو ذمہ داریاں تھیں، وہ ہم نے کس حد تک پوری کر لیں اور کیا کچھ کرنا باقی ہے۔ اس نکتہ نگاہ سے پلٹ کر اگر ہندوستان پر ایک نگاہ ڈالیں تو یہ صاف نظر آتا ہے کہ وہ ہندوستان جو 1947 میں غلامی کے بوجھ سے چرمرا رہا تھا، وہ آج دنیا میں سربلند ہے۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں کہ اب ہندوستان کی معیشت دنیا کی تیسری سب سے بڑی معیشت ہے۔ ہم آئی ٹی سیکٹر میں گلوبل پاور ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں آئی ٹی سیکٹر کی بڑی سے بڑی کمپنیوں کو چلا رہے ہیں۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں کہ دنیا کی سب سے طاقتور اور ترقی یافتہ ملک امریکہ کی نائب صدر ایک ہندوستاین نژاد عورت ہے۔ دنیا بھر میں بڑی سے بڑی یونیورسٹی ایسی نہیں جس کا تصور اب ہندوستانی استادوں کے بغیر کیا جا سکتا ہے۔ یہ تمام کچھ پچھلے 76برسوں کی محنت کا نتیجہ ہے۔ کوئی کچھ بھی کہے، یہ بات اظہر من الشمس ہے۔
ہندوستان آج جس مقام پر ہے، وہ جواہر لال نہرو کی بصیرت، اندرا گاندھی کی جرأت اور راجیو گاندھی کی فکر کا نتیجہ ہے۔ ہم محض آئی ٹی سیکٹر پر ہی نظر ڈالیں تو صاف نظر آتا ہے کہ ہندوستان میں مشکل سے چند گنے چنے کمپیوٹر تھے۔ آج ہر ہندوستانی اپنے اسمارٹ فون کے ذریعہ آئی ٹی دنیا سے 24 گھنٹے جڑا ہوا ہے۔ آج ہندوستان کے ہر شہر و ہر دیہات کا رنگ روپ بدل چکا ہے۔ یہ بنیادی طور پر تمام ہندوستانیوں کی محنت و مشقت کا نتیجہ ہے۔ لیکن ہمارے ساتھ ہی پاکستان کا جو حال ہے اس سے سب واقف ہیں۔ ظاہر ہے کہ کسی ملک کی ترقی کے لیے محض عوام کی محنت ہی کارگر نہیں ہوتی ہے، ساتھ ہی لیڈرشپ کی بصیرت کا سب سے اہم کردار ہوتا ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ ہندوستان کو وہ بصیرت نہرو-گاندھی خاندان سے میسر ہوئی۔ آج سنگھ اور بی جے پی نہرو اور نہرو-گاندھی خاندان کے خلاف کتنا ہی ڈھنڈورا پیٹے، لیکن سنہ 1947 سے اب تک بدلتے ہندوستان کے ہر شعبہ پر گاندھی-نہرو خاندان کی مہر ثبت ہے۔ ملک کے آئی آئی ٹی، ایمس، آئی آئی ایم جیسے تعلیمی اداروں سے لے کر پرائیویٹ آئی ٹی کمپنیوں تک سب اسی خاندان کی بصیرت کے مرہون منت ہیں۔
خیر، یہ تو اب قصہ پارینہ ہوا۔ آج اس یوم آزادی پر سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ ہم ہندوستانی خود اپنے ملک میں کس قدر آزاد ہیں؟ یہ کوئی کہنے والی بات نہیں، لیکن ملک میں اس ذاتی آزادی کے معیار کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ملک کی پارلیمنٹ میں وزیر اعظم سے جرأت مندانہ سوال پوچھنے پر راہل گاندھی کو پارلیمنٹ کی رکنیت سے ہاتھ دھونا پڑا تھا۔ وہ تو اگر سپریم کورٹ مداخلت نہ کرتا تو اب تک راہل گاندھی جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہوتے۔ اس ایک مثال سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ آج کے ہندوستان میں ہندوستانی کس قدر آزاد ہیں۔ ملک کے تمام جمہوری ادارے کس قدر اپنی آزادی کھو چکے ہیں، اس کا ذکر آئے دن لیڈران کرتے رہتے ہیں۔ ملک میں جس قسم کی نفرت کی آندھی چل رہی ہے، اس سے سب واقف ہیں۔ اس نفرت کا شکار ملک کی دوسری سب سے بڑی آبادی ہندوستانی مسلمان کس حد تک ہو رہا ہے، اس کا ذکر کرنے کی ضرورت نہیں۔ میوات اور گروگرام میں پیش آنے والے تازہ ترین حالات اس کے شاہد ہیں۔ ہندوستانی مسلمان ان دنوں کتنا آزاد ہے، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اسی ماہ گروگرام کے مسلم علماء نے یہ اعلان کر دیا کہ کوئی بھی فرد کسی بھی مسجد میں جمعہ کی نماز پڑھنے جمع نہ ہوں۔ حالات اس قدر ناگفتہ بہ ہیں کہ ایک طبقہ کی مذہبی آزادی بھی خطرے میں ہے۔
اب آپ خود سمجھ سکتے ہیں کہ ہم 77ویں یومِ آزادی پر آزاد تو ہیں وہ بھی اس معنی میں کہ ہم کسی باہری طاقت کے غلام نہیں۔ مگر ہماری آزادی ویسی آزادی نہیں رہ گئی ہے جیسی کہ ملک کے مجاہدین آزادی نے ہم کو عطا کی تھی۔ اس لیے اگر فیض احمد فیض کے اس مصرعے 'چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی' پر اس مضمون کا اختتام کیا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔