بھٹکل:4/ مئی (ایس اؤنیوز)موسم گرماکی وجہ سے سمندرمیں مچھلیوں کا شکار نہ کرپانے پر ماہی گیر پہلے سے ہی پریشان تھے، مگر اب بوٹوں پر لائٹنگ پر پابندی عائد کرنے کے بعد ماہی گیروں کی پریشانیوں میں مزید اضافہ ہوگیا ہے اور شکار کے لئے جانے والے ماہی گیروں کو خالی ہاتھ واپس لوٹنے پر مجبور ہونا پڑ رہا ہے۔
گذشتہ ایک دہے سے ماہی گیری کسی ایک خاص طبقہ کا پیشہ نہیں رہا، صرف ہندو ہی نہیں بلکہ مسلمان، عیسائی بھی زیادہ تعداد میں ماہی گیر کے پیشہ سے وابستہ ہیں۔ تعلقہ میں خواتین اور بچے سمیت کل 76،000ماہی گیر ہیں، مچھلی شکار سے لے کر فروخت کاری ، برآمد، سپلائی پر مشتمل ایک بڑی صنعت کے روپ میں جاری ہے اسی کے زیر اثر کئی چھوٹے موٹے روزگار کے مواقع پید اہوئے ہیں جس سے ہزاروں لوگ جڑے ہوئے ہیں۔ لیکن انسان بڑا حریص اور لالچی واقع ہوا ہے، کم مدت میں سمندر سے زیادہ فائدہ اٹھانے کی لالچ میں ماہی گیروں نے جو سازشی جال بُنا تھا وہ خود اسی میں پھنستے نظر آرہے ہیں، گل اور جال سے مچھلی شکار کرنے والا ماہی گیر مطمئن نہ ہوکر گہرے سمندر میں لائٹنگ کے ذریعے مچھلیوں کا شکار کرنے چلا تو مچھلیوں کی نسلیں بربادہونے لگی، کیونکہ لائٹوں کو دیکھ کر مچھلیاں بوٹو ں کی طرف لپکتی تھی اور موٹروں سے ٹکراکر ہلاک ہوجاتی تھیں، اس طرح لائٹنگ سے سینکڑوں مچھلیوں کی نسلوں کو سخت نقصان پہنچا۔ ویسے اب لائٹنگ کے ذریعے ماہی گیر ی پر پابندی عائدکی گئی ہے، مگر ایک مہینے سے روشنی بند کرنے کے ساتھ ہی سمندر میں مچھلیاں بھی غائب ہوگئی ہیں ، اور ماہی گیر بوٹوں پر رات بھر سمندر کے بیچ پہنچ کر خالی ہاتھ واپس لوٹ رہے ہیں۔
تعلقہ میں 136فشنگ بوٹ، 20پرشین بوٹ، 60گہرے سمندرمیں اُتر کر ماہی گیری کرنے والے بوٹ سمیت کل 226بوٹ مچھلیوں کے شکار کے لئے مختص ہیں۔ گذشتہ دسمبر میں گہرے سمندر میں روشنی (لائٹنگ) کے ذریعے ماہی گیری ہورہی تھی جس پر محکمہ ماہی گیر نے مارچ تک ختم کرنے کی سخت ہدایات دی تھیں، اس کو دیکھتے ہوئے جنریٹر ، لائٹس وغیرہ ساحل پر پہنچ گئے ۔امسال کچھ پرشین بوٹوں کی بہتر کمائی کے علاوہ بقیہ تمام بوٹ والے مشکلات میں ہیں۔ مچھلی ملے نہ ملے بوٹ چلتی رہنی چاہئے ، خالی لوٹی تو ہزاروں روپئے کے ڈیزل کا نقصان یقینی ہے۔ کچھ ماہی گیر مزدوری نہ ملنے کی وجہ سے بوٹ سے اترکر خود چھوٹی چھوٹی مشینی بوٹوں کے ذریعے مچھلیوں کے شکار میں مگن ہیں، یہاں بھی کوئی امید کی کرن نظر نہیں آرہی ہے۔ ایک طرف بینکوں سے قرضہ لے کر بوٹ خرید کر مچھلیوں کے شکار کے لئے اُترتے ہیں، مگر اب مچھلیاں نہیں مل رہی ہیں تو بینک اُن کے پیچھے پڑگئے ہیں۔ ماہی گیروں کے لئے مچھلیوں کے بزنس کے علاوہ کمائی کا کوئی دوسرا ذریعہ بھی نہیں ہے،اب صرف ماہی گیری کے لئے صرف ایک ماہ باقی ہے، ماہی گیروں نے بتایا کہ اُنہیں خود سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ کیا کریں ،کام چھوڑ کر دوسرے شہر بھاگ جائیں یا اپنی بغلیں اٹھائیں۔
محکمہ ماہی گیر کے معاون ڈائرکٹر روی نے بتایا کہ امسال مچھلیوں کے شکار میں کافی کمی آئی ہے، پرشین بوٹ لائٹننگ کے ذریعے کچھ کمانے کے علاوہ سب کے سب مصیبت میں ہیں، روایتی ماہی گیر ی پر زبردست مار پڑی ہے۔انہوں نے صلاح دی کہ لائٹننگ ماہی گیری پر مکمل پابندی عائد ہونی چاہئے، ورنہ پرشین بوٹ لائٹنگ کے ذریعے سمندر میں اُتریں گی تو مچھلیوں کی نسل کشی میں اضافہ ہونا یقینی ہے۔