بھٹکل: اترکنڑا ضلع سے گزرنے والی قومی شاہراہ فورلین کا تعمیراتی کام سست روی کاشکار:عوامی سطح پر تعمیراتی کام میں رشوت خوری پر بحث
بھٹکل: 20؍ستمبر(ایس اؤ نیوز) کسی بھی ملک ، ریاست یا شہر کےلئے بہترین سڑکیں ترقی کی علامت میں شمار کی جاتی ہیں اور شاہراہیں اس کی شناخت ہوتی ہیں تو خاص کر فورلین، سکس لین ملک کی ترقی کی مصدقہ شناخت ہوتی ہیں۔ لیکن کیا کریں ، وہی قومی شاہراہ کی تعمیر ساحلی پٹی پر مخصوص عہدوں پر فائز افراد اور کمپنیوں کے لئے رقم اینٹھنے کی بڑی راہوں میں منتقل ہونے کی باتیں عوامی سطح پر موضوع بحث بنی ہوئی ہیں۔
بھٹکل سے گزرنے والی قومی شاہراہ 66کی خصوصی اہمیت ہے۔ کیرلا، گوا، مہاراشٹرا کو یہی شاہراہ جوڑتی ہے۔ سامان وغیرہ کی زیادہ سپلائی اسی شاہراہ کے ذریعے ہوتی ہے۔ منگلورو ، کاروار سمیت بندرگاہوں کا تجارتی لین دین کونکن ریلوے لائن کے بعد اسی شاہراہ پر انحصار ہے۔ سابق وزیر جناردھن ریڈی کے زمانےمیں میگنیز سپلائی کے لئے اسی شاہراہ کا استعمال کیا گیا تھا۔ سواریوں کی چہل پہل اور ٹرافک جام 15-20گنا زیادہ ہو کر شاہراہ پوری برباد ہوگئی تھی اسی دوران حکومت نےعوام کو فورلین کی امید سے رخ موڑا۔ اتنا ہی نہیں ، بلکہ تعمیراتی کاموں کے لئے ٹینڈر بلایا اور ملک کی مشہور کمپنی کو ذمہ داری دی گئی ۔ بھٹکل ، ہوناور ، کمٹہ سمیت اترکنڑا ضلع میں شاہراہ تعمیر کی ذمہ داری آئی آر بی کمپنی کو ملی اور اس کی مشینیں ، سواریاں سبھی آگئیں۔ عوام سمجھ رہے تھے کہ کنداپور سے گوا تک کا 189.6کلومیٹر لمبا تعمیراتی کام تین چار برسوں میں پورا ہوجائے گا اور ہماری شاہراہ فورلین میں منتقل ہونے کی امید لےکر بیٹھ گئے۔
آخر ہواکیا؟:تعمیراتی کاموں کا ٹینڈر پانے والی آئی آر بی کمپنی کی آنکھیں سب سے پہلے یہاں کے قیمتی پتھروں والے پہاڑوں پر جمیں۔جنہوں نے کبھی ٹھیک طرح سے ہزار روپئےکا نوٹ تک نہیں دیکھاتھا دن ڈھلتے کروڑوں روپیوں کی لالچ میں پھنس گئے۔ شاہراہ پر جو کوئی ماربل اور قیمتی پتھرتھے وہ سب آئی آر بی کمپنی کے ہوگئے۔ شاہراہ تعمیر کے نام پر آئی آر بی کمپنی نے سیکڑوں کروڑ روپیوں کے وسائل جمع کرلئے۔ کمپنی نے جھلی اور پتھروں سے جتنا کمایا ہے اسی میں شاہراہ کی تعمیر ہوجانی چاہئے تھی۔ لیکن سات برس ہونےکو ہیں (2013میں ہی تعمیرات کا معاہدہ ہواتھا)شاہراہ کی تعمیر ادھوری ہے۔
2020میں مرکزی وزیر نتین گڈکری نے شاہراہ کا اجراء بھی کیا اور ٹول ناکہ فیس وصولی کو ایک سال ہونے کو ہے اب تک شاہراہ کی تعمیر مکمل ہونےکا نام نہیں لے رہی ہے۔ شہری سطح پر کئی جگہ ادھورا کام کرکے یوں ہی چھوڑا گیا ہے، شاہراہ بدل کر حادثات کی آماجگاہ بن گئی ہے۔ لاکھوں لوگوں کے ٹیکس کاپیسہ عوام کی آنکھوں کے سامنے ہی حساب میں ہیرا پھیری کرکے بانٹا جارہاہے، نہ عوامی نمائندے کو اس تعلق سے سوال پوچھنے کی فرصت ہے نہ ہی افسران شاہراہ کی خستہ حالی کو لے کر سنجیدہ ہیں ۔ کبھی کبھی کہیں سے کوئی دھیمی سی آواز ضرور اٹھتی ہے لیکن وہ کسی نتیجہ خیز انجام تک پہنچنے سے پہلے ہی ختم بھی ہوجاتی ہے۔اب تک نتیجہ کیا نکلا ہے اس کو اس بات سے معلوم کیا جاسکتا ہے کہ سال 2021بھی جلد ہی پورا ہونے کو ہے اور شاہراہ کی تعمیرکا کام مکمل ہوتا نظر نہیں آرہا ہے۔
بھٹکل اور ہوناور علاقےمیں شرالی سے لےکر ہوناور کے ہلدی پور تک قومی شاہراہ 66کی توسیع 57میٹر ہے، 1500سے زائد عوام کی زمین تحویل میں لی جاچکی ہے لیکن شہری سطح پر کسی کام کا آغاز ابھی تک نہیں ہواہے۔ شہری سطح پر شاہراہ کا نقشہ کتنی بار بدلا گیا ہے انجنئیر کو بھی پتہ نہیں ہوگا۔ کہاں کہاں فلائی اوور ہوگا کبھی دکھایا گیا تو کبھی غائب کیاگیا ، کوئی واضح عملی نقشہ کا فقدان صاف نظر آتاہے۔ پنچایت کی حدود میں ہونےو الے 50ہزار روپیوں کے کاموں پر کتنے ہی اعتراضات کی عرضیوں پر تکرار کی جاچکی ہیں، کروڑوں روپیوں کی لاگت سے تعمیر کی جارہی شاہراہ پر کوئی اعتراض نہیں جتا رہاہے آخر کیوں ؟کیونکہ شاہراہ کی تعمیر کا مطلب ہی بڑا کام اور بڑا موضوع ہے۔
اس سلسلےمیں اراضی حصولیابی افسر ساجدملا کا کہنا ہے کہ بھٹکل ہوناور تعلقہ جات میں زمین حصولیابی کی کارروائی تقریباً مکمل ہوچکی ہے اور معاوضہ کی تقسیم بھی ہوئی ہے۔ شہری سطح پر 5-6معاملات باقی ہیں بہت جلد انہیں حل کرلیا جائے گا۔
بھٹکل اسسٹنٹ کمشنر ممتادیوی کا کہنا ہے کہ شاہراہ پر ٹول فیس کی وصولی شروع ہوتے ہی آئی آر بی کمپنی والوں کے ساتھ میٹنگ منعقد کرتےہوئے انہیں تعمیراتی کام جلدمکمل کرنے کہا گیا تھا، لیکن درمیان میں بارش کی وجہ سے کچھ مشکلات درپیش رہیں، بارش کم ہوتے ہی شاہراہ کی تعمیراتی کام شروع کرنے کہاگیا ہے۔