بھٹکل 26/اپریل (ایس او نیوز) بھٹکل کورونا ہاٹ اسپاٹ ہونے کی وجہ سے لاک ڈاؤن اور اس سے متعلقہ قوانین پر عمل درآمد میں سختی کے ساتھ عمل کیا جانا ضروری ہے، اور اس کے لئے سرکاری افسران رات دن مشقت کررہے ہیں۔
لیکن یہاں پر تعلقہ انتظامیہ کے دفتر میں دیکھا گیا ہے کہ بعض افسران تحفظ صحت کے اصولو ں اور قوانین پر پوری طرح عمل نہیں کررہے ہیں، جسے دیکھ کر عوام کی طرف سے سوال اٹھایا جارہا ہے کہ جب سرکاری دفاتر میں ہی قوانین پر سختی سے عمل نہیں ہوگا تو پھر عوام سے کیسے توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ ان قوانین کی پابندی کریں گے۔
تقریباً پچھلے ایک ماہ سے لاک ڈاؤن کو پوری سختی کے ساتھ لاگو کیے جانے کی وجہ سے عام آدمی گھر کی چار دیواری کے اندر بند ہوگیا ہے۔لیکن بعض اہم ضرورتوں کے پیش نظر یہاں کے اسسٹنٹ کمشنر کے دفتر میں کئی لوگوں کے لئے دن میں ایک آدھ بارجانا ضروری ہوجاتا ہے۔ایسے میں دیکھا گیا ہے کہ یہاں پر موجود افسران اپنے ضروری مسائل لے کر پہنچنے والے لوگوں کے سلسلے میں زیادہ فکر مند نظر نہیں آتے۔ایک چھوٹے سے مسئلے کے لئے بھی جوشخص صبح کے وقت اس دفتر میں پہنچتا ہے، اسے دوپہر تک وہاں افسران کے انتظار میں بیٹھے رہنا ہوتا ہے۔پھر جب متعلقہ افسر پہنچتے ہیں تو اپنی باری کا انتظار کرتے ہوئے مزید وقت گزارنے کے بعدمسئلہ حل کرکے یا خالی ہاتھ وہ وہاں سے لوٹتا ہے۔جب دن میں درجنوں لوگ اس دفتر میں مسائل حل کرنے کے لئے آتے جاتے ہیں تو ان کا نام و پتہ اور دیگر تفصیل درج کرنے کا کوئی نظام یہاں ہونا چاہیے تھا، مگر ایسا نہیں ہے۔
دفتر میں لوگوں کی چہل پہل: دفتر کے اندر لوگوں کے آنے جانے کا سلسلہ د ن بھر چلتارہتا ہے اور اس دوران آپس میں جسمانی دوری بنائے رکھنے کے اصول کی کوئی پابندی نہیں کی جاتی ہے۔ماسک نہ پہنے ہوئے لوگ بھی بڑے آرام سے دفتر کے اندر باہر گھومتے پھرتے نظر آتے ہیں۔اس سے وہاں پر تعینات عملہ بڑی تشویش اور خوف کے ساتھ وقت کاٹنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔اور اہم بات تو یہ ہے کہ دفتر کے اندر بعض افسران ہی ماسک پہننے کی طرف زیادہ سنجیدگی نہیں دکھا رہے ہیں۔ ایسے میں پھر عوام کے لئے پابندی لگانا کوئی معنی نہیں رکھتا۔ ظاہر ہے کہ افسران کی دیکھا دیکھی عوام بھی اس کو لازمی نہیں سمجھیں گے اور حفاظتی اعتبارسے یہ ایک خطرناک بات ہے۔
’میڈیکل پاس‘ کا مسئلہ: حکومت کی طرف سے جو لاک ڈاؤن کے قوانین بنائے گئے ہیں اس کے مطابق کسی کو طبی مسئلہ پیش آنے پر ایمرجنسی میڈیکل پاس جاری کرنا ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر یا تعلقہ ہیلتھ آفیسر کی ذمہ داری ہے۔کیونکہ مرض کی نوعیت سمجھنا اور کس مریض کے لئے ارجنٹ میڈیکل ہیلپ کی ضرورت ہے اور کس کے لئے نہیں ہے، اس کا فیصلہ کرنا ایک ڈاکٹر کا کام ہوتا ہے۔لیکن یہاں پر ریوینیو آفیسر کے ذریعے ہی ’میڈیکل پاس‘ جاری کیے جاتے ہیں، جنہیں مرض کے بارے میں کوئی جانکاری نہیں ہوتی اور وہ پاس جاری کرنے میں اپنی فرصت سے ہی سب کے لئے یکساں وقت لیتے ہیں جو کافی تاخیر کا سبب بنتا ہے جبکہ امراض قلب اور خاص کر دل کا دورہ جسے پڑا ہو، اس کے لئے شروعات کا ایک گھنٹہ طبی زبان میں ’گولڈن آور‘ کہلاتا ہے،جس کا مطلب یہ ہے کہ جتنی جلد اسے طبی امداد ملے گی اس کے لئے بہتر ہوگا۔ مگر یہاں اسسٹنٹ کمشنرکے دفتر میں پاس پر دستخط کرنے کے لئے اگر مریض کے رشتے داروں سے یہ کہاجائے کہ صاحب ابھی مصروف ہیں پندرہ بیس منٹ چھوڑکر آؤ،تو مریض کے رشتے داروں کا پریشان ہونا یقینی ہے۔ کیونکہ یہاں سے منگلورو کے لئے نکلنے کے بعد اڈپی کی سرحد پر گھنٹوں انتظار کرنا بھی ایک بڑا مسئلہ ہوتا ہے جس سے ان مریضوں اور ان کے رشتے داروں کو گزرنا پڑتا ہے۔اس لئے عوام مطالبہ کررہے ہیں کہ مریضوں کے لئے پاس جاری کرنے کی ذمہ داری تعلقہ ہیلتھ آفیسر کو ہی دی جائے۔
’ہیلپ ڈیسک‘ ضروری ہے: لاک ڈاؤن میں پھنسے ہوئے لوگ جب اسسٹنٹ کمشنرکے دفتر میں پہنچتے ہیں تو معلومات کی کمی کی وجہ سے وہ لوگ اپنے مسائل لے کر یہاں سے وہاں دوڑتے پھرتے نظر آتے ہیں، اور یہ حفظان صحت کے قوانین کے اعتبار سے غلط بات ہے۔ دفتر کے اندر لوگوں کی چہل پہل پر قابو پانے اور عوام کی پوری طرح رہنمائی کے لئے ضروری ہے کہ دفتر کے باہر ایک ’ہیلپ ڈیسک‘ کا انتظام کردیا جائے، اور اس پرایک آفیسر کو تعینات کردیا جائے۔اس ڈیسک سے چھوٹی موٹی معلومات اور مسئلے کی نوعیت کے اعتبار سے متعلقہ شخص کی رہنمائی، پاس کے لئے درخواست جمع کرنا اور پھر منظور کی گئی پاس وصول کرنے جیسے تمام کام باہر ہی باہر انجام دئے جاسکتے ہیں۔ عوام کا مطالبہ ہے کہ ضلع انتظامیہ اس پہلو پر توجہ دے اورجلد ہی اس ضمن میں مناسب قدم اٹھائے۔