منگلورو فساد اور پولیس فائرنگ کو ہوگیا ایک سال۔ متاثرین کو نہیں ملا ابھی تک انصاف
منگلورو،19؍ دسمبر(ایس او نیوز) شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج کے پس منظر میں 19دسمبر 2019 کو منگلورو میں جو فسادبھڑک اٹھا تھا اور پولیس کی طرف سے کی گئی فائرنگ میں دوافراد کو اپنی جان سے ہاتھ دھوناپڑا تھا، اس واقعے کو پور اایک سال گزر گیا، مگر سی آئی ڈی کے ذریعے تفتیش اور میجسٹریٹ سے تحقیقات کے بعد بھی متاثرین کو ابھی تک انصاف نہیں ملا ہے۔
خیال رہے کہ منگلورو کے بندر اور دیگر دو ایک علاقوں میں احتجاجی مظاہرین اور پولیس کےد رمیان تصادم ہواتھا۔ جس کے بعد پولیس نے کہیں لاٹھی چارج کیا تو کہیں پر براہ راست گولیاں چلادیں جس کے نتیجے میں عبدالجلیل اور نوشین نامی دو ایسے افراد کی جان چلی گئی جو احتجاجی مظاہرے میں شامل ہی نہیں تھے۔ مظاہرین کو روکنےکے لئے پولیس نے جس طرح طاقت کا استعمال کیا تھا اس کے بعد پولیس پر انسانی حقوق کی خلاف ورز ی اور بے جا ظلم وستم کے الزامات لگے تھے۔
کیا ہوا تحقیقاتی رپورٹس کا؟: نیشنل اور انٹرنیشنل میڈیا میں پولیس کے رویے پر مختلف زاویوں سے سوالات اٹھنے کے بعد ریاستی حکومت اس پورے معاملے کی تفیش کا کام ایک طرف سی آئی ڈی کو سونپ دیا تھا تو دوسری طرف جنوبی کینرا ڈپٹی کمشنر جی جگدیشا کو ضلع میجسٹریٹ کی حیثیت سے تحقیقات کرنے کا حکم دیا تھا۔سی آئی ڈی کے ایس پی راہل شاہ پور کی قیادت میں تفتیشی ٹیم نے اپنی رپورٹ عدالت میں داخل کردی ہے اورضلع میجسٹریٹ نے اپنی 2,500دستاویزات اور 50صفحات پر مشتمل تحقیقاتی رپورٹ ریاستی حکومت کے ایڈیشنل چیف سیکریٹری کو سونپ دی ہے۔ مگر ان رپورٹس کی تفصیلات ابھی تک راز میں رکھی گئی ہیں ۔اس بارے میں نہ کوئی اقدام کیا جارہا ہے اور نہ ہی کوئی بات بتائی جارہی ہے۔
کیا کہتی ہےپی یو سی ایل کی رپورٹ؟: ادھرانسانی حقوق کی تنظیم پیوپلس یونین فار سوِل لیبرٹیز(پی یو سی ایل) نے اپنی تحقیقات کے بعد عبوری رپورٹ دی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ایک ہی فرقے کو نشانہ بناکر پولیس کے ذریعے ظلم و زیادتی کرنے کی بات پہلی نظر میں دکھائی دے رہی ہے۔اس کے علاوہ ایک ہی قوم کو نشانہ بناکر پولیس نے ایف آئی آر بھی داخل کیے ہیں۔حالات کوسنبھالنے میں ناکام پولیس کی طرف سے معصوم لوگوں کےقتل کا سبب بننے والے اُس وقت کے پولیس کمشنر کو معطل کردیا جاناچاہیے ۔متنازعہ بیان دینے والے کدری پولیس اسٹیشن کے انسپکٹر شانتا را م کُندر کو معطل کیا جانا چاہیے۔پولیس فائرنگ میں ہلاک ہونے والوں کو فی کس 10لاکھ روپے معاوضہ دینا چاہیے اور تمام زخمیوں کاعلاج سرکاری خرچ پر ہونا چاہیے۔ بین الاقوامی جنگ کی حالت میں بھی اسپتال پر حملہ نہیں کیا جاتا ، مگر منگلورو کے اس معاملے میں اسپتال کے اندر آنسو گیس کے گولے داغنا قابل مذمت ہے۔
کیا ہے"جنتاعدالت" کی رپورٹ میں ؟: منگلورو فساد اور فائرنگ کے حقائق جاننے کے لئے سپریم کورٹ کے مؤظف جسٹس گوپال گوڈ ا کی قیادت میں جنتا عدالت قائم کی گئی تھی ۔ اس کی طرف سے رپورٹ کے جو اہم نکات جاری کیے گئے ہیں اس کے مطابق ہنگامے سے تعلق نہ رکھنے والے معصوموں پر ظلم ڈھایا گیا ہے۔پولیس نے جنونی انداز میں لاٹھی چارج کیا اور فائرنگ بھی کی ۔ لاٹھی چارج اور فائرنگ شروع کرنےسے قبل وہاں پر موجود لوگوں کو وارننگ نہیں دی گئی تھی۔جائے واردات پر موجود پولیس افسران نے مظاہرین کو اُکسانے کا کام کیا ہے۔انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی ہوئی ہے۔
ایک ہزار افراد پر مقدمات : پولیس فائرنگ میں ہلاک ہونے والوں کو ریاستی حکومت نے فی کس 10لاکھ روپے معاوضہ دینے کا اعلان کیا تھا جسے بعد میں اس بنیاد پر رد کردیا گیا کہ پولیس نے مہلوک نوشین اور جلیل پر بھی پرتشدد فساد کاحصہ ہونے کا الزام لگاتے ہوئے کیس دائر کردیا تھا۔اس کے علاوہ پولیس نے ایک ہزار سے زیادہ افراد پر فساد کرنے اور پر تشدد کی کارروائیوں میں ملوث ہونے کےالزامات کے ساتھ مقدمات دائر کررکھے ہیں۔ 22 ملزمین کو گرفتار کیا گیا تھا جن میں سے دو کو ہائی کورٹ سے ضمانت ملی جبکہ بقیہ 20کو ۹ مہینے جیل میں قید رہنے کے بعدسپریم کورٹ سے ضمانت حاصل ہوئی ہے۔
اب جبکہ اس واردات کو ایک سال کا عرصہ گزرگیا ہے ، مگر نہ خاطی پولیس افسران کے خلاف اب تک کوئی کارروائی کی گئی ہے اورنہ ہی بشمول مہلوک افراد کے دیگر سینکڑوں متاثرین کو کسی قسم کی راحت ملی ہے اور نہ انصاف ملا ہے۔ اور حالت یہ ہے کہ ظلم و زیادتی کی گواہ بنی ہوئی آنکھیں بس عدل وانصاف کا انتظار کرتے کرتے دھندلاتی جارہی ہیں۔