اتر کنڑا : منتخب عوامی نمائندوں کی وعدہ خلافی ، سرکاری افسران کی بے توجہی اور متحدہ عوامی جد و جہد کی کمی کا شکار ہوا ہے ملٹی اسپیشالٹی ہاسپٹل کا ادھورا خواب
بھٹکل 25؍ جولائی (ایس او نیوز) پچھلے کئی برسوں سے ضلع شمالی کینرا کے لئے ایک جدید ترین وسائل اور سہولتوں والے ملٹی اسپیشالٹی ہاسپٹل کا مطالبہ کیا جاتا رہا ہے ۔ اور جب بھی کوئی بڑا حادثہ ہوتا ہے اور کسی میڈیکل ایمرجنسی کی صورت پیدا ہوتی ہے تو یہ مطالبہ میڈیا اور بالخصوص سوشیل میڈیا میں تیز ہوجاتا ہے ۔ ٹویٹر پر ٹرینڈ چلایا جاتا ہے ۔ پھر چند دن بعد کسی دوسرے بڑے حادثے تک یہ موضوع سرد خانے میں چلا جاتا ہے۔
دوسرے اضلاع سے پچھڑا ہے شمالی کینرا: بھٹکل سمیت ضلع میں طبی سہولتوں اور علاج و معالجہ کے جدید وسائل کی کمی کی وجہ سے ہزاروں مریض مینگلور، اڈپی، منی پال، کنداپور، ہبلی، دھارواڑ، شموگہ اور گوا جیسے پڑوسی علاقوں اور شہروں کا رخ کرنے پر مجبور ہوتے ہیں ۔ اور یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ ان علاقوں میں جو بڑے بڑے جدید ترین اسپتال قائم کیے گئے ہیں اور علاج و معالجہ کے سیکٹر میں جو زبردست ترقی ہوئی ہے اس میں ہمارے ضلع کے مریضوں سے ہونے والی آمدنی کا بھی بڑا حصہ ہے ۔
سیاسی لیڈروں کے کھوکھلے وعدے: جب بھی ہنگامی صورتحال پیدا ہوتی ہے اور ملٹی اسپیشالٹی ہاسپٹل کا موضوع گرم ہوتا ہے تو سیاسی لیڈران فوراً اخباری بیان دینے اور اس ضرورت کو پہلی فرصت میں پورا کرنے کا وعدہ کرنے کے لئے آگے بڑھتے ہیں ۔ جیسے ہی یہ موضوع ٹھنڈا ہوگیا تو اپنے کھوکھلے وعدوں کی زنبیل کے ساتھ یہ سیاسی لیڈران غفلت کی نیند سو جاتے ہیں ۔ کچھ برس قبل سابق وزیر ناگراج شیٹی نے لوگوں کو سنہرا خواب دکھایا تھا کہ ایک نجی ٹرسٹ کے ذریعہ کمٹہ میں ایک سوپر ہاسپٹل تعمیر کیا جائے گا ۔ اس بات کو ایک لمبا عرصہ گزر گیا اورناگراج شیٹی اقتدار سے باہر بھی ہوگئے اور ہاسپٹل تعمیر ہونے کے آثار کہیں نظر نہیں آتے ۔
حالیہ شیرور ٹول گیٹ حادثہ کے بعد اب سابق ایم ایل اے منکال وئیدیا نے اس خواب کو پورا کرنے کا اعلان کیا ہے ۔ اس وعدے کا انجام کیا ہوگا یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا ۔ لیکن ایک بات تو طے ہے کہ اس کا بہت کچھ انحصار آنے والے اسمبلی الیکشن کے نتائج پر ہوگا ۔
سوشیل میڈیا پر مہمات: گزشتہ چند برسوں سے دیکھا جا رہا ہے کہ جب بھی ملٹی اسپیشالٹی ہاسپٹل کی شدید ضرورت سامنے آتی ہے تو نئے زمانے کے فیشن کے مطابق سوشیل میڈیا پر گرما گرم بحث ہوتی ہے ۔ ٹویٹر پر ہیاش ٹیاگ چلایا جاتا ہے ۔ پچھلی مرتبہ 2019 میں یہ مہم بڑی تیز تو ہوئی تھی ، مگر نتیجہ ڈھاک کے تین پات ہی رہا تھا ۔ اب شیرور ٹول گیٹ پر ایمبولینس سانحہ کے بعد پھر سے ہاسپٹل کا مطالبہ لے کر24 جولائی کوٹویٹر پر we Need Emergency Hospital In Uttarkannada # مہم شروع کی گئی ہے ۔ دوسری طرف وہاٹس ایپ پر No# Hospital No Vote کی مہم بھی جاری ہے ۔
صرف سوشیل میڈیا سے کام نہیں چلنے والا: حالانکہ اس طرح کی مہمات کے لئے نوجوانوں ، باشعور شخصیات اور سیاسی لیڈروں کی حمایت تو مل رہی ہے لیکن عوام کو پچھلے تجربہ سے سبق حاصل کرتے ہوئے یہ سمجھ لینا چاہیے کہ جب تک عملی میدان میں سڑکوں پر اتر کر سخت ترین احتجاج کے ذریعے منتخب عوامی نمائندوں، سیاسی لیڈروں اور سرکاری افسران کی نیندیں حرام نہیں کی جاتیں تب تک یہ خواب کبھی شرمندہ تعبیر ہونے والا نہیں ہے ۔
کیا یہ صرف ساحلی علاقے کی ضرورت ہے؟ : ضلع کے لئے سوپر اسپیشالٹی ہاسپٹل کے مطالبہ میں عوامی آواز کا جائزہ لیں تو صاف نظر آتا ہے کہ اس میں پورے ضلع کے عوام شامل نہیں ہو رہے ہیں اور ایک متحدہ آواز اور مطالبہ بن کر یہ معاملہ ابھی تک سامنے نہیں آیا ہے ۔ جدید ترین اسپتال کے لئے جو آوازیں اٹھ رہی ہیں وہ صرف ساحلی علاقے تک محدود ہیں ۔ ضلع کے گھاٹ اور میدانی علاقے سے اس میں آواز نہیں ملائی جا رہی ہے ۔ اس کا سبب جغرافیائی لحاظ سے شمالی کینرا کا بہت زیادہ وسیع ہونا ہے ۔
سوپر ہاسپٹل بنے بھی تو کہاں بنے ! : جب بھی ضلع کے لئے جدید ترین سہولتوں والے ہاسپٹل کی بات سامنے آتی ہے تو ایک اہم سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ اتنے وسیع ضلع میں تمام لوگوں کے لئے فائدہ مند ثابت ہونے والا ہاسپٹل کس مقام پر بنایا جائے ۔ اور اسی نکتہ کی وجہ پورے ضلع کے عوام متحدہ آواز اٹھانے میں ناکام ہیں ۔
چونکہ اس ہاسپٹل کا مطالبہ پوری قوت کے ساتھ ساحلی علاقے سے اٹھ رہا ہے تو اگر یہاں ہاسپٹل تعمیر ہوتا ہے تو پھر ہلیال ، ڈانڈیلی، جوئیڈا منڈگوڈ کے لوگوں کو کوئی خاص سہولت ہونے والی نہیں ہے ۔ ان کے لئے اتنی دور سفر کرنے کے بجائے قریبی سہولت بیلگاوی اور ہبلی میں دستیاب ہے ۔ اس لئے میدانی علاقے کے لوگ بے تعلقی دکھا رہے ہیں ۔
ملیناڈو علاقے کی بات کی جائے تو وہ بھی اس میں زیادہ دلچسپی نہیں دکھا رہے ہیں کیونکہ سرسی ، یلاپور وغیرہ سے تعلق رکھنے والے مریضوں کے لئے ہبلی ہی زیادہ قریب ہے ۔ سداپور والوں کے لئے شیموگہ قریبی مقام ہے جہاں بہترین طبی سہولتوں والے اسپتال موجود ہیں ۔ اس طرح یہ معاملہ صرف ساحلی علاقے کی شدید ضرورت کا بن کر رہ گیا ہے ۔
سرکیوٹ ہاوس کے بجائے ہاسپٹل تعمیر کیا جائے : کاروار میں اس وقت پرانے پر سرکیوٹ ہاوس کو منہدم کرکے نیا سرکیوٹ ہاوس تعمیر کیا جا رہا ہے ۔ اس منصوبے پر 9 کروڑ 80 لاکھ روپے خرچ ہونگے ۔ عوام کی طرف سے مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ حکومت اس منصوبے کو منسوخ کرکے اس کی جگہ ایک ملٹی اسپیشالٹی اسپتال تعمیر کرنے کو ترجیح دے ۔ لوگوں کی دلیل یہ ہے کہ سرکیوٹ ہاوس تعمیر کرنے سے صرف سیاست دانوں ، وی آئی پی اور سرکاری افسران کے لئے عیش و آرام کی سہولت حاصل ہوگی لیکن عوام کی راحت کے لئے اس وقت سب سے بڑی ضرورت جدید ترین سہولتوں والے ہاسپٹل کی تعمیر ہے ۔ اس سرکیوٹ ہاوس کی تعمیر پر آنے والا خرچ اگر ملٹی اسپیشالٹی ہاسپٹل ، کریٹیکل کیئر سینٹر اور ٹراما سینٹر کی تعمیر کے لئے فراہم کیا جائے تو عوام کا بھلا ہوگا اور سیکڑوں مریضوں کی جان بچانا آسان ہوجائے گا ۔
عوام کا یہ بھی کہنا ہے کہ کاروار میں زیر تعمیر نئے سرکیوٹ ہاوس کی جگہ چونکہ میڈیکل کالج سے قریب ہے اس لئے یہاں جدید ہاسپٹل تعمیر کرنے پر ڈاکٹروں اور ماہرین کی دستیابی بھی کوئی مسئلہ نہیں رہے گی ۔ میڈیکل کالج ہاسپٹل میں موجود طبی ماہرین کے علاوہ مزید چند ماہرین کی خدمات حاصل کی جائیں توعوام کے لئے ملٹی اسپیشالٹی ہاسپٹل کی خدمات فراہم کرنا آسان ہوجائے گا۔