ہوناور میں لاپتہ نوجوان کی نعش پائی جانے کے بعد حالات تشویشناک؛ کئی سواریوں پر پتھرائو؛ اقلیتوں میں خوف وہراس؛ پولس کا سخت بندوبست
بھٹکل 8/ڈسمبر (ایس او نیوز) پڑوسی تعلقہ ہوناور میں آج صبح ایک لاپتہ نوجوان کی نعش قریبی تالاب سے برآمد ہونے کے بعد ہوناور میں حالات تشویشناک رُخ اختیار کرگئے ہیں، جس کے ساتھ مسلمان محسوس کررہے ہیں کہ اس واقعے کے بعدشدت پسند تنظیموں کے کارکنوں کو حالات خراب کرنے کا بہترین موقع ہاتھ آگیا ہے۔ تالاب میں ملی نعش کی شناخت پریش میستا (21) کی حیثیت سے کی گئی ہے جو ہوناور تعلقہ کے اُدیم نگر کا رہنے والا تھا۔
ہوناور میں غیر مسلم نوجوان کی لاش برآمد ہونے کی اطلاع پل بھر میں پورے ضلع میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی، جس کے ساتھ ہی ہوناور میں حالات جو پہلے ہی کشیدہ تھے، تشویشناک ہوگئے۔ بدھ کی شب کو ٹمپو پر پتھرائو کی وارداتوں کےبعد جمعرات کو یہاں بند منایا گیا تھا، مگر آج جمعہ لاش ملنے کے بعد بند آگے بڑھایا گیا۔ جس کے ساتھ ہی پورے علاقہ میں خوف وہراس کی لہر پائی گئی۔
بتایا گیا ہے کہ لاش ملنے کی اطلاع کے ساتھ ہی ہوناور کے قصبوں میں جہاں مسلمان آباد ہیں، خوف و ہراس میں مبتلا ہوگئے ہیں، بتایا گیا ہے کہ اس واقعے کے بعد ہوناور سے ہیرانگڈی اور قریبی دیہاتوں میں گذرنے کے دوران کئی سواریوں پر پتھرائو کیا گیا ہے، بائک پر جانے والوں کو روک کر اُن پر حملہ کئے جانے کی بھی خبریں موصول ہوئی ہیں۔ ذرائع کی مانیں تو ان حملوں میں نورالدین ، بھنڈاری محمد غوث اور مقبول مختصر نامی نوجوانوں کو شدید چوٹیں آئی ہیں مگر یہ شرپسندوں کے ہاتھوں سے بچ کر قریبی دیہات ولکی تک پہنچنے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ ان میں سے دو کو ہاڈین بال اور تیسرے کو آرولّی گھاٹ پر حملہ کیا گیا، ان میں سے دو لوگوں نے اپنی اپنی بائکوں کو متعلقہ مقام پر ہی چھوڑ کر بھاک نکلے اور ولکی میں جاکر پناہ لی جبکہ تیسرا مقبول نامی نوجوان ہوناور فرار ہونے میں کامیاب ہوگیا۔ سننے میں آیا ہے کہ ان تینوں کی بائکوں کو شرپسندوں نے یا تو نذر آتش کردیا ہے یا پھر شدید نقصان پہنچایا ہے۔
ہوناورمیں حالات خراب ہونے کے بعد کئی ایک مسلم ذمہ داران نے مجلس اصلاح و تنظیم بھٹکل سے رابطہ کرکے تعائون کی درخواست کی ہے۔ جس کے بعد تنظیم کے نائب صدر جناب عنایت اللہ شاہ بندری اور جنرل سکریٹری محی الدین الطاف کھروری نے ضلع کے سپرنٹنڈنٹ آف پولس ، ضلع کے ڈپٹی کمشنر اور ضلعی انچارج وزیر آر وی دیش پانڈے سے رابطہ کرتے ہوئے مسلمانوں کو تحفظ فراہم کرنے کی درخواست کی ہے۔ بتایا گیا ہے کہ ہوناور کے مختلف قصبوں میں اب پولس سکوریٹی بڑھادی گئی ہے۔ ضلع کے ایس پی سمیت ویسٹرن رینج انسپکٹر جنرل آف پولس ہیمنت نمبالکربھی اس وقت خود ہوناور پہنچ گئے ہیں اور حالات پرگہری نظر رکھی ہے۔جمعہ کی شام کو یہاں سی آر پی ایف کے جونواں نے راستوں پر مارچ بھی کیا ہے اور عوام کو پیغام دیا ہے کہ اُنہیں ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
اس دوران پتہ چلا ہے کہ تالاب سے برآمد ہونے والی پریش میستا کی لاش پر کسی بھی قسم کے کوئی نشان نہیں پائے گئے ہیں ، جس سے اندازہ لگایا جارہا ہے کہ بدھ کی شب کو جب گڑبڑ ہوئی تھی تو غالباً بھاگنے کے دوران وہ قریبی تالاب میں گر گیا ہوگا ، جس سے اُس کی موت واقع ہوگئی۔ اس تعلق سے ضلع اُترکنڑا کے ڈپٹی کمشنر ایس ایس نکھول نے ساحل آن لائن سے فون پر گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ لاش کا پوسٹ مارٹم کیا جاچکا ہے، اور کیمیکل کے سیمپل لئے گئے ہیں، جب تک رپورٹ نہیں ملے گی، وہ کچھ بھی کہنے کے موقف میں نہیں ہیں۔ جب اُن سے لاش پر کسی بھی قسم کے زخموں کے نشانات نہ ہونے کے تعلق سے پوچھا گیا تو انہوں نے اسی بات کو دہرایا کہ موت کیسے واقع ہوئی، اس بات کا جواب وہ لاش کا پوسٹ مارٹم رپورٹ آنے کے بعد ہی دے سکتے ہیں۔
خیال رہے کہ بدھ کی شب قریب نو بجے ہوناور ٹمپو اسٹائنڈ پر پارک کی گئی ٹمپو اور بس اسٹائنڈ کے قریب واقع دکانوں اور ہوٹلوں میں پتھرائو کے بعد یہاں حالات کشیدہ ہوگئے تھے، جس کے بعد پولس نے 29 مسلمانوں سمیت 41 لوگوں کو گرفتار کرلیا تھا۔
ویسے تو ہوناور میں حالات پر قابو پالیا گیا ہے، مگر عوام بالخصوص اقلیتوں میں خوف و دہشت پائی جارہی ہے۔
واضح رہے کہ ریاست کرناٹک میں آئندہ کچھ ہی ماہ میں انتخابات ہونے والے ہیں، جس کو دیکھتے ہوئے شرپسندوں کی طرف سے ریاست کے مختلف علاقوں میں حالات کو خراب کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔ چنداورکے بعد اب ہوناور میں ہوئے حالات کو بھی اسی تناظر میں دیکھاجارہا ہے۔