کرفیو زدہ مینگلور میں عام زندگی درہم برہم، کسی ناخوشگوار واقعے کی اطلاع نہیں؛ دونوں شہداء کی تدفین؛ احتجاجیوں کا سوال، کیانعرے بازی کرنا اشتعال انگیزی ہے ؟
مینگلور20 ڈسمبر (ایس او نیوز) شہریت قانون کی مخالفت میں پولس اور مظاہرین کے درمیان جمعرات کو ہوئی جھڑپ کے بعدکرفیو زدہ مینگلور میں آج جمعہ کو عام زندگی مکمل طور پر درہم برہم رہی، البتہ جمعہ کی نماز کو دیکھتے ہوئے انتظامیہ نے دوپہر بارہ سے دو بجے کے درمیان کرفیو میں دو گھنٹوں کی چھوٹ دی، جبکہ اس دوران جمعرات کو پولس کی جانب سے ہوئی فائرنگ میں شہید ہونے والے دونوں لوگوں کی تدفین عمل میں آئی ۔
یاد رہے کہ جمعرات کو شہریت قانون کی مخالفت میں منعقدہ عوامی احتجاج اُس وقت تشدد میں تبدیل ہوگیا تھا جب پولس کی جانب سے احتجاجیوں پر لاٹھیاں برسانے کے بعد عوام سخت برہم ہوگئے تھے اور پولس والوں پر پتھراو شروع کردیا تھا، اس دوران پولس نے احتجاجیوں پر فائرنگ شروع کردی تھی جس کے نتیجے میں ایک شخص کی انکھ میں اور دوسرے کے پیٹ میں گولی لگنے سے دونوں نے اسپتال میں دم توڑ دیا تھا۔ بتایا گیا ہے کہ پولس کی گولی لگنے سے مزید چھ لوگ شدید زخمی ہوئے ہیں جنہیں شہر کے مختلف اسپتالوں میں داخل کیا گیا ہے۔ پولس لاٹھی چارج سے 38 لوگوں کو سخت چوٹیں آنے کی وجہ سے یہ لوگ بھی شہر کے اسپتالوں میں ایڈمٹ ہیں، جبکہ دیگر کافی لوگوں نے مرہم پٹی کرائی ہے۔ جمعرات کو ہوئی گڑی بڑی کی واردات کے بعد پولس کمشنر ڈاکٹر ہرشا نے پورے مینگلور میں 22ڈسمبر کی آدھی رات تک کرفیو نافذ کردیا تھا جس کی وجہ سے پورے شہر میں عام زندگی مفلو ج ہوکر رہ گئی، البتہ کسی بھی علاقہ سے کسی بھی طرح کے ناخوشگوار واقعے کی اطلاع نہیں ملی۔ خیال رہے کہ کرفیو کے اعلان کے ساتھ ہی پورے شہر میں انٹرنیٹ سروس بھی معطل کردی گئی تھی جس کی وجہ سے سوشیل میڈیا کے ذریعے عوام الناس کا ایک دوسرے سے رابطہ بھی منقطع ہوگیا۔
بھٹکل سے مینگلور ائرپورٹ جانے والوں کی سواریاں واپس: کرفیو کی وجہ سے پورا شہر سنسان نظر آیا،اس دوران بعض مسافروں نے بتایا کہ وہ دبئی جانے کے لئے بھٹکل سے مینگلور ائرپورٹ کے لئے روانہ ہوئے تھے، مگر اُن کی سواری کو مینگلور کے قریب مُلکی میں روک دیا گیا اور وہیں سے اُنہیں واپس بھیج دیا گیا جس کی وجہ سے کئی لوگوں کی فلائٹ مس ہوگئی اور اُن کی ٹکٹ بھی ضائع ہوگئی۔ البتہ اُدھر ائرپورٹ ڈائرکٹر سے پوچھے جانے پر انہوں نے بتایا کہ ائرپورٹ بند نہیں کیا گیا ہے اور فلائٹ سروس بھی معمول کے مطابق جاری ہے۔
کرفیو میں ڈھیل: جمعہ کی نماز کے پیش نظر سابق وزیر یوٹی قادر، ودھان پریشد رکن بی ایم فاروق، ایون ڈیسوزا اور سابق رکن اسمبلی محی الدین باوا سمیت دیگر ذمہ داران پر مشتمل ایک وفد نے ضلعی انتظامیہ سے مل کر کرفیو میں ڈھیل دینے کی درخواست کی، جس کے بعد انتظامیہ نے دوپہر بارہ بجے سے دو بجے کے درمیان دو گھنٹوں کے لئے کرفیو میں ڈھیل دی، جس کے نتیجے میں مسلمانوں نے مسجدوں میں پہنچ کر جمعہ کی نماز ادا کی۔ اس موقع پر تمام جامع مساجد میں پولس کی گولی لگنے سے شہید ہونے والے دونوں لوگوں کی مغفرت کے لئے اور اُن کے گھروالوں کے حق میں دعائیں کی گئیں۔ مسجدوں میں خطیب نے تمام مسلمانوں سے امن وامان کی بحالی کے لئے بھی اپیل کی۔
سواریوں کی سخت چیکنگ: کرفیو کے دوران پورے شہر میں پولس کی سخت سیکوریٹی لگائی گئی تھی اور پولس کو حکم دیا گیا تھا کہ شرپسندوں کو دیکھتے ہی گولی ماری جائے، ایسے میں کرناٹک۔کیرالہ سرحد سمیت تلپاڈی، توکوٹو، پمپ ویل اور ننتور جنکشن سے گذرنے والی ہر سواری کو روک کر تلاشی لی جارہی تھی۔
گرفتاریوں کے تعلق سے کوئی معلومات نہیں ملی: جمعرات کو احتجاج کے دوران پولس نے ایک طرف کئی بے قصور احتجاجیوں کو گرفتار کرنے کی خبر ملی، وہیں پولس نے ڈی سی آفس کے قریب والے علاقوں سے گذرنے والے کئی بے قصور لوگوں کو بھی گرفتار کئے جانے کی خبر ملی ہے، مگر پولس نے اس تعلق سے کوئی معلومات نہیں دی کہ کتنے لوگوں کو اور کن کن لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے، اس وجہ سے کئی گھروالوں کو پریشان دیکھا گیا جن کے افراد پوری رات گذرنے کے باوجود گھرواپس نہیں لوٹے، وہ لوگ اس بات کو لے کر پریشان تھے کہ آیا اُن کے افراد کو پولس نے گرفتار کیا ہے یا پھر کرفیو نافذ کئے جانے کی وجہ سے کہیں پھنس گئے ہیں۔
کیا نعرے بازی کرنا اشتعال انگیزی ہے؟ پولس لاٹھی چارج اور بعد میں احتجاجیوں پر پولس کی فائرنگ پر ناراض احتجاجیوں نے واقعے کی سخت مذمت کرتے ہوئے بتایا کہ ان کا احتجاجی مظاہرہ نہایت پرامن تھا اور سبھی احتجاجی شہریت قانون کی مخالفت میں نعرے بازی کرتے ہوئے ڈی سی آفس کے باہر جمع ہوئے تھے، نعرے بازی کے دوران اچانک پولس نے ہم پر لاٹھیاں برسانی شروع کردی جس سے پورے علاقے میں افراتفری مچ گئی۔ اس تعلق سے سوشیل میڈیا پر ایک وڈیو بھی وائرل ہوگئی جس میں دکھایا گیا ہے کہ کس طرح پولس نے اچانک نعرے بازی کرنے والوں پر بغیر کچھ کہے لاٹھیاں برسانی شروع کردی ہے ۔ وڈیو میں دیکھا گیا کہ بعض احتجاجی پولس کی لاٹھیاں کھانے کے باوجود اپنی جگہ پر نعرے بازی کرتے ہوئے ثابت قدم رہے اور پولس کی لاٹھیاں کھاتے رہے، بعد میں پولس نے انہیں اپنے ساتھ لے گئے، احتجاجیوں نے بتایا کہ انہوں نے انتظامیہ سے باقاعدہ اجازت لے کر احتجاج منظم کیا تھا اور پولس کے لئے ضروری تھا کہ کچھ بھی کرنے سے پہلے وہ ذمہ داران سے گفتگو کرتے ، مگر پولس نے ذمہ داران سے کوئی گفتگو نہیں کی اور سیدھے لاٹھی چارج کرنا شروع کردیا۔ ذمہ داران نے الزام لگایا کہ پورے واقعے کے لئے صرف پولس ہی ذمہ دار ہے جنہوں نے پرامن احتجاج پر لاٹھیاں برساتے ہوئے عوام کو مشتعل کردیا۔ احتجاجیوں نے سوال کیا کہ کیا شہریت قانون کے خلاف یا بی جے پی کے خلاف نعرے بازی کرنا اشتعال انگیزی ہے؟ کیا بی جے پی اور آر ایس ایس کے خلاف نعرے بازی کرنے پر پولس مشتعل ہوگئی تھی ؟ احتجاجیوں کے مطابق پولس نے جان بوجھ کر اور منصوبہ بند طریقے پر منعقد ہ پرامن احتجاج کو تشدد میں تبدیل کردیا تھا اور دو لوگوں کی موت کے لیے بھی پولس ہی ذمہ دار ہے۔
کرفیو کا اعلان کئے بغیر احتجاجیوں پر گولی چلائی گئی: احتجاجیوں نے اس بات کا بھی پولس پر الزام لگایا ہے کہ شہر میں دفعہ 144 نافذ کیا گیا تھا، کرفیو نافذ نہیں تھا، مگر پولس نے احتجاجیوں پر بغیر کوئی اعلان کئے اور بغیر کوئی وارننگ دئے گولیاں چلائی ہیں۔احتجاجیوں کے مطابق پولس نے جان بوجھ کر گولیاں چلائیں اور دو بے قصور لوگوں کو موت کے گھاٹ اُتارا جبکہ کئی ایک کو زخمی بھی کردیا۔