بھٹکل اسمبلی حلقے میں کھیلا جارہا ہے ایک نیا سیاسی کھیل! کون بنے گا کانگریسی اُمیدوار ؟

Source: S.O. News Service | Published on 20th November 2017, 1:38 PM | ساحلی خبریں | اسپیشل رپورٹس |

بھٹکل 20/نومبر(وسنت دیواڑیگا/ایس او نیوز)   یہ کوئی ہنسی مذاق کی بات ہرگز نہیں ہے۔بھٹکل کی موجودہ جو صورتحال ہے اس میں ایک بڑا سیاسی گیم دکھائی دے رہاہے۔ کیونکہ 2018کے اسمبلی انتخابات کی تیاریوں میں لگی ہوئی سیاسی پارٹیاں اپنا امیدوار کون ہوگا اس پر توجہ دینے کے ساتھ ساتھ مخالف پارٹیوں سے کون امیدوار بننے پر ان کی جیت کے امکانات بڑھ سکتے ہیں اس پہلو پر بھی بڑی اہمیت کے ساتھ غور کررہی ہیں۔ اسی پالیسی پر عمل کرتے ہوئے دیگر پارٹیوں کے امکانی امیدواروں کے نام عوام کے اندر اچھالنے کی کوشش الگ الگ پارٹیوں کی طرف سے ہورہی ہے۔

اگر بھٹکل حلقے کی سیاسی کیفیت پر غور کریں تو کانگریس کی طرف سے بہت ہی مضبوط امیدوار اگر کوئی ہے تو وہ موجودہ ایم ایل اے منکال وئیدیا  ہے ۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ جالی پٹن پنچایت صدر کے انتخاب کے دوران منکال نے یہاں کے مسلمانوں کے ایک مستحکم اور مرکزی ادارے تنظیم سے جو ناراضگی  مول لی تھی، اُس کا غصہ ابھی  کم نہیں ہوا ہے۔ اور تنظیم میں اپنے حمایتیوں کی مدد سے اس غصے کو بڑھاوا دے کر اسے بحال رکھنے میں جے ڈی ایس کے صدر عنایت اللہ شاہ بندری کا جو کردار ہے ، وہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں رہی ہے۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ  ایسا کرنے کی وجہ سے آنے والے الیکشن میں جے ڈی ایس کی ٹکٹ حاصل کرنے کے امکانات پر انہوں نے غور نہیں کیا ہوگا۔ اسی پس منظر میں جے ڈی ایس کیمپ کی طرف سے یہ خبر بھی اڑائی گئی ہے کہ منکال وئیدیاآزاد امیدوار کے طور پر انتخابات لڑنے والے ہیں۔اسی دورا ن اقلیتی طبقے کے نوجوانوں کا ایک گروپ تنظیم کی طرف سے کاروباری شخصیت یونس قاضیا کو امیدوار بنائے جانے کی خبر بھی پھیلارہا ہے۔اس کا سبب بس اتنا ہے کہ اگر تنظیم میں کانگریس سے ٹکٹ حاصل کرنے کی بات سامنے آتی ہے تو پھر عنایت اللہ شاہ بندری کے لئے دُم دباکر بیٹھنے کے سوا کوئی چارہ باقی نہیں رہتا۔

اس میں ایک دلچسپ موڑ یہ بھی آگیا ہے اور وہ یہ  کہ  ایک مدت سے خفیہ طور پرکانگریس سے ٹکٹ حاصل کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے تنظیم کے صدر مزمّل قاضیا!اس کے لئے منکال کے خلاف رازدارانہ طور پر جو کچھ سرکس کرنا ہے ،وہ سب کچھ انہوں نے کرلیا ہے۔ لیکن تنظیم میں مزمل قاضیا اور عنایت اللہ شاہ بندری کا آمنا سامنا ہونے کی صورت میں وہا ں عنایت اللہ شاہ بندری کا پلڑا بھاری دیکھ کر مزمل قاضیا بھی لوگوں کے سامنے یہ کہہ رہے ہیں کہ یونس قاضیا اگر انتخاب لڑتے ہیں تو اور بھی اچھی بات ہے۔اس میں بھی سیاست ہے۔موجودہ حالات میں یونس قاضیا کے سیاسی میدان میں قدم رکھنے کے امکانات کم ہی نظر آتے ہیں۔ مزمل صاحب نے یہ محسوس کرلیا ہوگا کہ ایسی صورت میں خود ان کے امیدوار بننے کے لئے یونس قاضیا جیسے ایک طاقتور اقلیتی لیڈر کی حمایت انہیں حاصل ہو جائے گی۔ اس نظریے کو تقویت اس بات سے مل جاتی ہے کہ تاحال خلیج میں مقیم یونس قاضیا کہتے ہیں کہ مجھے سیاسی لیڈر بننے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ میں نے امیدوار بننے کی بات کبھی تنظیم کے سامنے رکھی ہی نہیں ہے۔ پھر اس ضمن میں میرا نام کیسے آگیا مجھے ہی پتہ نہیں ہے۔یہاں یہ بات بالکل صاف ہوجاتی ہے کہ فی الحال جو کچھ ہورہا ہے وہ سیاست کا کوئی معمولی گیم نہیں ہے !

اب اگر بی جے پی کی توقعات کا جائزہ لیا جائے تو 1994کے انتخابات کے سوا بعد کے انتخابات میں بی جے پی ایک مضبوط پارٹی رہی ہے، اس کے باوجود اس زمانے سے اب تک کانگریس اور بی جے پی کے امیدواروں کی جیت اور ہار کے بیچ 5 تا 6 ہزارووٹوں کا ہی فرق رہا ہے۔اور اس کا سبب کانگریس کی پشت پناہی کرنے والے اقلیتی سماج کے ووٹ رہے ہیں!اور موجودہ صورتحال میں خو د بی جے پی والے ہی یقین کے ساتھ نہیں کہہ پارہے ہیں کہ بی جے پی بہت زیادہ مستحکم پارٹی ہے۔لہٰذا بی جے پی کے لئے اب یہ زیادہ ضروری اور اہم بات ہوگئی ہے کہ کانگریس کا امیدوار کون ہونا چاہیے۔ 2018کے انتخابات میں اگر بی جے پی کا راستہ آسان ہونا ہے تو پھر جے ڈی ایس یا کانگریس سے کسی اقلیتی امیدوار کا میدان میں اترنا ضروری ہے۔اس کے ساتھ ہی موجودہ ایم ایل اے منکال کو آزاد امیدوار کے طور پر الیکشن میں کھڑا ہونا چاہیے۔ کیونکہ گزشتہ انتخاب میں جو کرناٹکا جنتا پارٹی (کے جے پی) تھی، وہ اب باقی نہیں رہی۔اکثریتی طبقے سے کانگریسی امیدوار الیکشن لڑنے کے امکانات بھی کم ہیں۔ اس لئے بی جے پی کی طاقت گزشتہ مرتبہ ہوئے الیکشن کے مقابلے میں اب کہیں زیادہ بڑھ گئی ہے ۔اس لئے اگر منکال گزشتہ مرتبہ کی طرح اس بار بھی آزاد امیدوار بن جاتے ہیں تو پھر حالت بہت ہی دشوار ہوگی۔یہی وجہ ہے کہ تنظیم کا نام درمیان میں گھسیٹتے ہوئے منکال کو آزاد امیدوار بنانے کی کوشش خود بی جے پی کی طرف سے کی جارہی ہے۔

اگر ہم یہ کہیں کہ یہ جو کچھ سیاسی جوڑ توڑ اور حساب وکتاب کا معاملہ چل رہا ہے وہ صرف جنتا دل اور بی جے پی تک محدود ہے ، تو یہ غلط ہوجائے گا۔بلکہ کانگریس میں بھی بی جے پی کی فہرست میں جو امکانی امیدواروں کے نام ہیں اس پر بھی غور اورتجزیہ ہورہا ہے۔شیوانند نائک ، جے ڈی نائک امیدوار بنیں تو کیسا رہے گا؟ سنیل نائک کے میدان میں اترنے سے کیا فائدہ ہوسکتاہے؟ گووند نائک یا ایشور نائک کو امیدوار بنانے کی صورت میں ووٹنگ کیا روپ لے سکتی ہے؟ کس امیدوار میں کونسے چھوٹے چھوٹے طبقات کے ووٹ اپنے حق میں کرلینے کی طاقت ہے؟ان نکات پر کانگریس میں بھی غور کیا جارہا ہے اور اپنے لئے آسانی کا سبب بننے والے بی جے پی امیدواروں کے نام کانگریس کی طرف سے بھی عوام میں پھیلائے جارہے ہیں۔

اس طرح روز بروز گھڑے اورپھیلائے جارہے نئے نئے قصے کہانیوں کو سن سن کر ووٹرس کا الجھن اور مخمصے میں پڑنا تو فطری بات ہے !

ایک نظر اس پر بھی

منڈگوڈ میں ڈاکٹر انجلی نمبالکر  نے کہا : وزیر اعظم صرف من کی بات کرتے ہیں اور جن کی بات بھول جاتے ہیں  

لوک سبھا کے لئے کانگریسی امیدوار ڈاکٹر انجلی نمبالکر نے منڈگوڈ کے ملگی نامی علاقے میں انتخابی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ دس برسوں میں وزیر اعظم نریندرا مودی نے صرف من کی بات کی ہے اور انہیں کبھی جن کی بات یاد نہیں آئی ۔

اُتر کنڑا میں چڑھ رہا ہے سیاسی پارہ - پرچار کے لئے وزیر اعظم نریندر مودی اور کرناٹک کے وزیراعلیٰ سدا رامیا کریں گے ضلع کا دورہ

لوک سبھا انتخابات کے دوسرے مرحلے کے لئے اُتر کنڑا میں سیاسی پارہ پوری قوت سے اوپر کی طرف بڑھ رہا ہے کیونکہ اپنے اپنے امیدواروں کے پرچار کے لئے وزیر اعظم نریندرا مودی اور وزیر اعلیٰ سدا رامیا کے دورے طے ہوئے ہیں ۔

اُتر کنڑا میں آج سے 30 اپریل تک چلے گی عمر رسیدہ، معذور افراد کے لئے گھر سے ووٹ دینے کی سہولت

ضلع ڈپٹی کمشنر گنگو بائی مانکر کی طرف سے جاری کیے گئے بیان کے مطابق الیکشن کمیشن کی طرف سے معذورین اور 85 سال سے زائد عمر والوں کے لئے گھر سے ووٹ دینے کی جو سہولت فراہم کی گئی ہے، اتر کنڑا میں آج سے اس کی آغاز ہو گیا ہے اور 30 اپریل تک یہ کارروائی چلے گی ۔

انجمن گرلز کے ساتھ انجمن بوائز کی سکینڈ پی یو میں شاندار کامیابی پر جدہ جماعت نے کی ستائش؛ دونوں پرنسپالوں کوفی کس پچاس ہزار روپئے انعام

انجمن گرلز پی یو کالج کے ساتھ ساتھ انجمن بوائز پی یو کالج کے سکینڈ پی یو سی میں قریب97  فیصد نتائج آنے پربھٹکل کمیونٹی جدہ نے دونوں کالجوں کے پرنسپال اور اساتذہ کی نہ صرف ستائش اور تہنیت کرتے ہوئے سپاس نامہ پیش کیا، بلکہ ہمت افزئی کے طور پر دونوں کالجوں کے پرنسپالوں کو فی کس ...

یہ الیکشن ہے یا مذاق ؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آز: ڈاکٹر مظفر حسین غزالی

ایک طرف بی جے پی، این ڈی اے۔۔ جی نہیں وزیر اعظم نریندرمودی "اب کی بار چار سو پار"  کا نعرہ لگا رہے ہیں ۔ وہیں دوسری طرف حزب اختلاف کے مضبوط امیدواروں کا پرچہ نامزدگی رد کرنے کی  خبریں آرہی ہیں ۔ کھجوراؤ میں انڈیا اتحاد کے امیدوار کا پرچہ نامزدگی خارج کیا گیا ۔ اس نے برسراقتدار ...

بھٹکل سنڈے مارکیٹ: بیوپاریوں کا سڑک پر قبضہ - ٹریفک کے لئے بڑا مسئلہ 

شہر بڑا ہو یا چھوٹا قصبہ ہفتہ واری مارکیٹ عوام کی ایک اہم ضرورت ہوتی ہے، جہاں آس پاس کے گاوں، قریوں سے آنے والے کسانوں کو مناسب داموں پر روزمرہ ضرورت کی چیزیں اور خاص کرکے ترکاری ، پھل فروٹ جیسی زرعی پیدوار فروخت کرنے اور عوام کو سستے داموں پر اسے خریدنے کا ایک اچھا موقع ملتا ہے ...

نئی زندگی چاہتا ہے بھٹکل کا صدیوں پرانا 'جمبور مٹھ تالاب'

بھٹکل کے اسار کیری، سونارکیری، بندر روڈ، ڈارنٹا سمیت کئی دیگر علاقوں کے لئے قدیم زمانے سے پینے اور استعمال کے صاف ستھرے پانی کا ایک اہم ذریعہ رہنے والے 'جمبور مٹھ تالاب' میں کچرے اور مٹی کے ڈھیر کی وجہ سے پانی کی مقدار بالکل کم ہوتی جا رہی ہے اور افسران کی بے توجہی کی وجہ سے پانی ...

بڑھتی نفرت کم ہوتی جمہوریت  ........ ڈاکٹر مظفر حسین غزالی

ملک میں عام انتخابات کی تاریخوں کا اعلان ہونے والا ہے ۔ انتخابی کمیشن الیکشن کی تاریخوں کے اعلان سے قبل تیاریوں میں مصروف ہے ۔ ملک میں کتنے ووٹرز ہیں، پچھلی بار سے اس بار کتنے نئے ووٹرز شامل ہوئے، نوجوان ووٹرز کی تعداد کتنی ہے، ایسے تمام اعداد و شمار آرہے ہیں ۔ سیاسی جماعتیں ...

مالی فراڈ کا نیا گھوٹالہ : "پِگ بُوچرنگ" - گزشتہ ایک سال میں 66 فیصد ہندوستانی ہوئے فریب کاری کا شکار۔۔۔۔۔۔۔(ایک تحقیقاتی رپورٹ)

ایکسپوژر مینجمنٹ کمپنی 'ٹینیبل' نے ایک نئی رپورٹ جاری کی ہے جس میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ پچھلے سال تقریباً دو تہائی (66 فیصد) ہندوستانی افراد آن لائن ڈیٹنگ یا رومانس اسکینڈل کا شکار ہوئے ہیں، جن میں سے 81 فیصد کو مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

مسلمان ہونا اب اس ملک میں گناہ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔از: ظفر آغا

انہدام اب ایک ’فیشن‘ بنتا جا رہا ہے۔ یہ ہم نہیں کہہ رہے بلکہ یہ مدھیہ پردیش ہائی کورٹ کا بیان ہے۔ بے شک مکان ہو یا دوکان ہو، ان کو بلڈوزر کے ذریعہ ڈھا دینا اب بی جے پی حکومت کے لیے ایک فیشن بن چکا ہے۔ لیکن عموماً اس فیشن کا نشانہ مسلم اقلیتی طبقہ ہی بنتا ہے۔ اس کی تازہ ترین مثال ...