اے پی سی آر نے جاری کی عیسائیوں پر حملوں کی تفتیشی رپورٹ ؛ اُترپردیش میں سب سے زیادہ معاملات؛ چھتیس گڑھ دوسرے اور کرناٹک تیسرے نمبر پر
بنگلور 6 ڈسمبر (ایس او نیوز)ملک کے مختلف حصوں میں مسلمانوں اور دلتوں پر ہورہے مسلسل حملوں کے بعد اب عیسائیوں پر بھی حملے جاری ہیں جس کے تعلق سے اسوسی ایشن فور پروٹیکشن آف سیول رائٹس کی جانب سے ایک فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ جاری کی گئی ہے جس کے مطابق عیسائیوں پر حملوں کے ملک میں سب سے زیادہ معاملات اُترپردیش سے سامنے آئے ہیں، چھتیس گڑھ دوسرے نمبر پر جبکہ کرناٹک تیسرے نمبر پر ہے۔ کرناٹک میں پچھلے دو مہینوں میں 5 عیسائی عبادت گاہوں پر دائیں بازو کے شدت پسندوں کی طرف سے حملہ کیے جا چکے ہیں ۔
یاد رہے کہ امسال جنوری میں کرناٹکا کے کوپل میں عیسائی پادری دیویندر پر کچھ لوگوں کی بھیڑ نے حملہ کیا تھا ۔ 10اکتوبر میں اُڈپی کے چرچ میں گھس کر پادری پرکاش پر لوگوں کا مذہب تبدیل کروانے کا الزام لگاتے ہوئے ہندوتوا وادیوں کے ایک گروپ نے حملہ کیا تھا ۔ اس معاملے میں پادری پرکاش اور دو تین دیگر افراد کو پولیس نے گرفتار کیا تھا ۔ اسی دن شمالی کینرا کے ہلیال کے ایک چرچ میں بھی گھس کر پادری سریش ڈوڈمنی پر حملہ کیا گیا تھا ۔ 10 نومبر کو بیلگاوی میں نیو لائف فیلو شپ کے پادری کے جے لیمو چیریئن کے چرچ میں ہندوتووادی کا گروپ گھس گیا تھا اور وہاں چل رہی عبادت میں خلل ڈالتے ہوئے ہنگامہ کھڑا کیا تھا ۔ اس طرح آئے دن اس قسم کے حملوں کی خبریں ملک کے دیگر علاقوں سے بھی مل رہی ہیں ۔
اتوار کو بنگلور میں منعقدہ پروگرام کے دوران ایسو سی ایشن فار پروٹیکشن آف سول رائٹس (اے پی سی آر) ، یونائٹیڈ کرسچین فورم اور یونائٹیڈ اگینسٹ ہیٹ کی طرف سے " بھارت میں حملہ کی زد میں آئے عیسائی" کے عنوان سے عیسائی عبادت گاہوں پر حملوں کی تفتیشی رپورٹ جاری کی گئی ، جس میں بتایا گیا ہے کہ جنوری اور ستمبر کے درمیان ملک بھر میں جملہ 305 معاملات درج کئے گئے ہیں۔رپورٹ کے مطابق عوامی حملوں کے 288 واقعات ہوئے ہیں اور عیسائی عبادت گاہوں پر حملوں کے 28 معاملات درج کئے گئے ہیں، حملوں کے 305 معاملات میں 66 معاملات کے ساتھ اُترپردیش اول نمبر پر، 47 معاملات کے ساتھ چھتیس گڑھ دوسرے نمبر پر اور 32 معاملات کے ساتھ کرناٹک تیسرے نمبر پر ہے۔ رپورٹ کے مطابق صرف ستمبر ایک ماہ میں ہی 69 حملوں کی وارداتیں پیش آئی ہیں، اگست میں 50 اور ماہ جنوری میں 37 معاملات درج کئے گئے ہیں۔
حکومت کو اپنا رویہ بدلنا چاہیے : بنگلور میں اے پی سی آر کے زیراہتمام منعقدہ کرسچن انڈر اٹیک اِن انڈیا کی فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ کے کنڑا. ورژن کی رسم اجرائی کے موقع پر عیسائی پادری اور عیسائیوں کے اہم مذہبی رہنما ڈاکٹر پیٹر مچادو نےکہا : "کسی شخص کو کوئی مذہب اپنانے کی آزادی دستور نے دے رکھی ہے ۔ ایسے میں تبدیلئ مذہب مخالف قانون لانے کی آخر ضرورت ہی کیا ہے ۔ کسی اکّا دُکّا واقعہ کو لے کر پوری عیسائی برادری کو الزام دینا درست نہیں ہے ۔ ریاستی حکومت کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے اور اپنا رویہ تبدیل کرنا چاہیے ۔"
الزام ثابت ہوتو ادارے بند کردیں گے : آرک بشپ ڈاکٹر پیٹر مچادو نے حکومت کو چیلنج کرتے ہوئے کہا کہ اگر زبردستی تبدیلئ مذہب کا الزام ثابت کرے تو ہم اپنے عیسائی اسکولوں اور اسپتالوں کو بند کردیں گے ۔ انہوں نے کہا کہ کورونا کے تشویشناک دور میں عیسائیوں کے ایک اسپتال میں 900 لوگ جب مررہے تھے تو ہم اگر چاہتے تو ان میں سے آدھی تعداد کا مذہب تبدیل کرکے اُنہیں عیسائی مذہب میں تبدیل کراسکتے تھے ، ہم کہہ سکتے تھے کہ مرنے سے پہلے جنت میں داخل ہونے کےلئے مذہب تبدیل کریں، مگر ہم نے ایسا کچھ نہیں کیا اور نہ ہم ایسا کبھی کریں گے اور نہ ہی کسی کو ایسا کرنے کا موقع دیں گے۔ کیونکہ ہم تمام مذاہب کا احترام کرتے ہیں، ہم تمام مذاہب کی تعلیمات کا بھی احترام کرتے ہیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ تبدیلی مذہب سے عیسائی مذہب کا کچھ لینا دینا نہیں ہے اور یہ الزام جھوٹا اور بے بنیاد ہے انہوں نے حکومت کی طرف سے تبدیلئ مذہب مخالف قانون لانے کی باتوں پر سخت ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ اس سے اقلیتوں پر ظلم و ستم ڈھانے والوں کو تقویت ملے گی ۔ انہوں نے کہا کہ اس کے پیچھے عیسائیوں کو دوسرے درجے کے شہریوں میں تبدیل کرنے کی ذہنیت کام کررہی ہے جس کی ہم سخت مخالفت کرتے ہیں ۔"
مسٹر پیٹر میچاڈو نے ملک کے مختلف حصوں میں عیسائیوں پر ہورہے حملوں کی سچائی پر مبنی تحقیقاتی رپورٹ پیش کرنے پر اے پی سی آر کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ عیسائیوں پر اس وقت جس طرح کے مشکل حالات آئے ہیں،ایسے حالات میں اے پی سی آر نے ریسرچ کا ایک بہت بڑا کام کرکے عیسائیوں کی مدد کی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ میں صرف اُن رپورٹوں کا تذکرہ ہے جنہوں نے جاری کئے گئے United Christian Forum’s کے ہیلپ لائن نمبر پر فون کرکے رپورٹ درج کرائی ہے، ورنہ اعداد و شمار کافی زیادہ ہیں ۔ جناب پیٹر مچاڈو نے بتایا کہ کرناٹک کے مضافاتی علاقوں میں عبادت گاہوں پر حملہ کرنےا ور عیسائیوں کو عبادت کرنے سے روکنے یا عبادت کےدوران رکاوٹیں پیدا کرنے کی متعدد وارداتیں ہوئی ہیں جن کو لے کر ہمیں سخت تشویش لاحق ہورہی ہے۔ مسٹر میچاڈو کے مطابق کئی حملوں کا ذکر اس لئے بھی نہیں ہوا ہے کیونکہ دائیں بازو کی شدت پسند تنظیموں کے کارکنوں کے حملوں کے بعد ان پر قابو پانے میں پولس بھی ناکام رہی ہے، افسوس اس بات پر ہے کہ اُلٹا حملوں کی زد میں آئے ہوئے عیسائی کمیونٹی کے لوگوں پر ہی معاملات درج کئے گئے ہیں۔ مسٹر میچاڈو نے کرناٹک کے بیلگام کا تذکرہ کرتے ہوئے بتایا کہ وہاں پولس نے کمیونٹی ممبرس کو قانون سازی کا اجلاس جاری رہنے تک عبادت گاہوں میں جمع نہ ہونے کی ہدایت دی ہے ، میچاڈو نے اس ہدایت پر سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پولس کا ایسا کہنا کہ کچھ دنوں کے لئے عبادت بند کریں، گویا ایسا ہے کہ آپ کچھ دنوں کے لئے کھانا نہ کھائیں۔انہوں نے کہا کہ پہلے اس طرح کی وارداتیں اُن مضافاتی قصبوں میں ہورہی تھی جہاں عیسائیوں کی آبادی کم ہے اور چھوٹے چرچ پائے جاتے ہیں، مگر اب کرناٹک کے ہبلی، دھارواڑ اور بنگلور میں بھی ایسی وارداتیں ہورہی ہیں جہاں قانون کو اپنے ہاتھوں میں لے کر اُس کی دھجیاں اُڑائی جارہی ہیں۔
دستور مخالف قوانیں منسوخ ہوسکتے ہیں : اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے انسانی حقوق کے کارکن اور مشہور و معروف وکیل بی ٹی وینکٹیش نے کہا : "حکومتیں قانون جاری کرسکتی ہیں لیکن اگر اس سے دستور ہند کی دفعات اور مراعات پر ضرب پڑتی ہے تو سپریم کورٹ کو اختیار ہے کہ ایسے قوانین کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دے ۔ اور حکمراں طبقہ کو یہ بات نہیں بھولنی چاہیے ۔"
انہوں نے کہا کہ :" ریاستی حکومت جو تبدیلئ مذہب مخالف قانون لانے جارہی ہے یہ بالکل غیر ضروری ہے ۔ کیوں کہ کسی مذہب پر قائم رہنا یا اسے چھوڑ دینا دستوری اعتبار سے کسی شہری کا بنیادی حق ہے ۔ ایسی حالت میں دستور مخالف رویہ برداشت کرنا کسی بھی طرح ممکن نہیں ہے ۔" حکمراں طبقہ شرپسندوں کی حمایت کرتا ہے : ایڈوکیٹ وینکٹیش نے الزام لگایا کہ " مسلمانوں، عیسائیوں اور دلتوں سمیت مذہبی اقلیتوں کو نشانہ بنا کر کچھ آوارہ اور اوباش قسم کی ٹولیاں مسلسل حملے کررہی ہیں ۔ ان کی تعداد کم ہونے کے باوجود ان کی شدت پسند کارروائیوں کی کھلے عام پشت پناہی حکمراں طبقہ اور سیاسی طاقتیں کر رہی ہیں ۔"
انہوں نے کہا کہ :" وزیر اعلیٰ بسواراج بومئی نے دائیں بازو والوں(شدت پسندوں) کی جس طرح حمایت کی ہے وہ سراسر غلط ہے ۔ ان پر قانون کا نظام بنائے رکھنے کی ذمہ داری ہے ۔ انہیں کی طرف سے ایسے لوگوں کی حمایت کرنا انتہائی نامناسب بات ہے ۔" ایڈوکیٹ وینکٹیش نے کہا کہ ملک میں اب تک 51 افراد کے خلاف ملک سے غداری کے معاملات درج کیے گئے ہیں اور عدالت میں اس صورتحال کا مقابلہ کرنے کے لئے ان میں سے بہت سارے لوگوں کو اپنے گھر بار تک فروخت کرنے کی نوبت آگئی ہے ۔ ایسی حالت میں اے پی سی آر کی طرف سے حقوق انسانی کے تحفظ کے لئے جو جد وجہد کی جارہی ہے وہ لائق ستائش ہے ۔
اے پی سی آر کے صدر پی عثمان نے کہا :" امسال پورے ملک میں عیسائیوں پر اب تک 305 حملے کیے جانے کی رپورٹس سامنے آئی ہیں ۔ حکومت کو چاہیے کہ اسے سنجیدگی سے لے اور قصور واروں کے خلاف سخت قانونی اقدامات کرے ۔ ساتھ ساتھ اقلیتوں کے تحفظ کو یقینی بنائے ۔
پروگرام میں اے پی سی آر کے فاونڈر رکن ایڈوکیٹ محمود قاضی ، سیکریٹری ایڈوکیٹ محمد نیاز، کوآرڈی نیٹر شیخ شفیع احمد، جماعت اسلامی ہند کرناٹک کےامیر حلقہ ڈاکٹر محمد سعد بیلگامی، معاون امیر حلقہ مولانا محمد یوسف کنّی سمیت ریاست بھر سے آئے ہوئے مختلف اضلاع کے اے پی سی آر کے مندوبین بھی موجود تھے ۔