مسلمانوں پر ملک کی آبادی بڑھانے کا الزام غلط۔سابق چیف الیکشن کمشنر نے اپنی نئی کتاب میں اعداد وشمار پیش کئے ، 70سال میں مسلمانوں کی آبادی صرف4فیصد بڑھی
بنگلورو،17؍فروری ( ناہید عطاء اللہ) ملک کے سابق چیف الیکشن کمشنر اور چار کتابوں کے مصنف ایس وائی قریشی نے اپنی تازہ تصنیف’آبادی کا تصور۔ ہندوستان میں اسلام،فیملی پلاننگ اورسیاست‘ منظر عام پر پیش کی ہے۔ اس تصنیف میں انہوں نے مسلمانوں کی آبادی میں اضافہ کے متعلق انگریز حکومت کے ڈاٹا کے ساتھ تجزیہ پیش کیا ہے اور ساتھ ہی آیات قرآن مجید و احادیث کے حوالے پیش کئے ہیں۔ منگل کے روز اس تصنیف کے اجراء کے موقع پر ایس وائی قریشی یہ کہتے ہیں کہ اسلام دنیا کا پہلا مذہب ہے جس نے چھوٹے خاندانی نظام کو بڑھاوا دیا، یہی وجہ ہے کہ متعدد اسلامی ممالک میں آبادی پالیسی رائج ہے۔
دہلی سے ’روزنامہ سالار‘ کو دئیے گئے ایک خاص انٹرویومیں ایس وائی قریشی کہتے ہیں کہ اس کتاب میں انہوں نے یہ مسئلہ اٹھایا ہے کہ کس طرح ہندوستانی عوام کے ذہنوں میں برسوں سے یہ پروپیگنڈہ بٹھادیا گیا ہے کہ مسلمان زیادہ بچے اس لئے پیدا کرتے ہیں کہ ہندوؤں کی آبادی سے اپنے آپ کو بڑھا لیں تاکہ سیاسی اقتدار پر قابض ہو جائیں۔ اس ضمن میں انہوں نے چند سوالات کے جواب دئیے، جو انٹرویو کی شکل میں پیش ہیں۔
کیا آپ ایسے غلط تصورات کے بارے میں چند مثالیں بتا سکتے ہیں جو آبادی کے متعلق اکثریتی طبقہ کے ذہنوں میں بٹھا دئیے گئے ہیں اوران کا ازالہ آپ نے کس طرح کیا ہے؟
ایس وائی قریشی: پچھلے 50سال سے کٹرہندو ذہنیت والوں کی طرف سے یہ پروپیگنڈہ کیا جا رہا ہے کہ مسلمان جان بوجھ کر زیادہ بچے پیدا کرتے ہیں، تاکہ ان کی قوم اکثریت بن جائے اوراقتدار پر قابض ہو جائے۔ یہ بھی دعویٰ کیا جاتا ہے کہ کثرت ازدواج رفتارتولید میں اضافہ کا سبب بنی ہے۔ اس ضمن میں بعض قائدین کے نعرے کا حوالہ دیا جاتا ہے کہ ’چار بیویاں 40بچے‘۔میں یہ چاہتا تھا کہ اس سارے فالتو پروپگنڈہ کا جواب دوں۔ یہ مان بھی لیا جائے کہ مسلمانوں میں بچوں کی پیدائش کی شرح سب سے زیادہ ہے تو ہندو بھی دوسرے نمبرپر ہیں۔ اس سے شاید زیادہ فرق نہیں پڑ سکتا۔پھر فرق کہاں پڑ ے گا؟۔ میں نے دہلی یونیورسٹی کے ایک سابق وائس چانسلر پروفیسر دنیش سنگھ کے ذریعے ایک اعدادو شمار پر مشتمل ماڈل تیار کروایا، جس سے یہ سامنے آیا ہے کہ گزشتہ 70سالوں کے دوران مسلمانوں کی آبادی میں اضافہ صرف 4فیصد ہوا ہے اور اگر گزشتہ 600سال کا جائزہ لیا جائے تو مسلمانوں کی آبادی 40فیصد سے زیادہ نہ بڑھ پائی ہے۔
خاندان کو بڑا کرنے کی منظم سازش کے متعلق دعوؤں کا جواب دینے کے لئے آپ نے کیا طریقہ اختیار کیا؟
ایس وائی قریشی: میں نے غربت، ناخواندگی اور سہولتوں کی فراہمی کے ناقص نظام کی نشاندہی کی ہے اور میرا یہ ماننا ہے کہ ان اُمورپر اگر توجہ دی جائے تو آبادی کو قابو میں کیا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ ان علاقو ں میں جن کو ’چھوٹا پاکستان‘ مانا جاتا ہے سہولتوں کی فراہمی بالکل نہیں۔ کٹر عناصر کبھی اس بارے میں بات نہیں کرتے کہ کس طرح ان آبادیوں میں بسے ہوئے لوگوں کو تعلیم سے آراستہ کیا جائے اور کس طرح ان کی آمدنی کے ذرائع میں اضافہ کیا جائے۔ اس کے برعکس وہ ان کے سماجی اور تجارتی بائیکاٹ کی بات کرتے ہیں۔یہ بہت بڑا المیہ ہے۔
’ایک غلط تاثر یہ بھی ہے کہ اسلام زیادہ بچے پیدا کرنے کی تعلیم دیتا ہے۔میں نے اپنی کتاب میں یہ بتایا ہے کہ کس طرح قرآن مجید میں ماں اور بچے کی نشوو نمامیں ان کے لئے بہتر غذا مہیا کروانے پر زور دیاگیا ہے۔خاندانی منصوبہ بندی کے نظام کو اسلام نے 1400سال پہلے ہی رائج کردیا ہے۔ میں نے اس پر زور دیا ہے کہ خاندانو ں کو بڑا کرنے کے لئے مسلمانوں اور ہندوؤں میں مسابقت نہیں ہونی چاہئے۔
کیا آپ سمجھتے ہیں کہ ہندوستان کی آبادی کو سیاسی رنگ دے دیا گیا ہے؟
ایس وائی قریشی: بالکل۔اس معاملہ پر ملک میں مذہبی بنیادوں پر صف بندی کی کوشش ہو رہی ہے۔ ایسے میں جبکہ آبادیاتی اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ ہندوستان میں کثرت ازدواج ممکن ہی نہیں۔مرد اور خواتین کے تناسب1000کے مقابلہ 922کا ہے۔اس صورت میں ایک مرد کے لئے ایک عورت کے حساب سے بھی تمام کی شادی ممکن نہیں، ایسے میں دو اور چار کا سوال کہاں سے پیدا ہو تا ہے۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ پہلی شادی سے 5بچے ہو تے ہیں تو دوسری شادی سے صرف دو یا تین ہو تے ہیں۔ 1975ء میں ملک کی خواتین کے بارے میں حکومت کی طرف سے کئے گئے ایک تجزیے میں یہ کہاگیا ہے کہ اس ملک کے تمام طبقوں میں کثرت ازدواج موجود ہے۔ ان میں قبائیلی سب سے آگے ہیں اور مسلمان سب سے پیچھے۔اسی غلط نظریے کی بنیاد پر کہ مسلمانوں کے بہت زیادہ بچے ہوتے ہیں یکساں سیول کوڈ کے نفاذ کی مانگ نے جنم لیا۔
کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ عالمی سطح پر مسلمانوں کی آبادی کا ایک بڑا حصہ سمجھتا ہے کہ وہ اجتماعی اسلام فوبیا کا شکار مانتی ہے؟
ہاں۔ یہی موجودہ حالات ہیں۔ دراصل اسے امریکہ اور اسرائیل نے سویت یونین اورکمیونسٹوں کے زوا ل کے بعد سے یہ نظریہ قائم کیا۔ کمیونزم کے خاتمہ کے بعد ان کو اپنے لئے ایک نیا دشمن کھڑا کرنا تھا اور اس کے لئے انہوں نے اسلام کو چن لیا۔
آپ نے یہ کتاب کتنے عرصہ میں پوری کی؟
1995ء میں، میں نے اقوام متحد آبادی فنڈ کے لئے ایک مقالہ لکھنا شروع کیا۔ لیکن ہر بار جب اس کی تکمیل کا مرحلہ آتا ایک نیا سروے سامنے آجاتا۔1990کے دہے سے 7سروے کے بعداعداد وشمار بتاتے ہیں کہ مسلمانوں نے خاندانی منصوبہ بندی کو کافی تیزی سے اپنایا ہے۔ میں نے ان علماء کی بھی حمایت حاصل کی ہے جنہوں نے چھوٹے خاندان کے متعلق فراخدلانہ خیالات پیش کئے اور ان کو بھی میں نے کتاب میں شامل کیا ہے۔
(بشکریہ روزنامہ سالار ، بنگلورو، بتاریخ 17؍فروری 2021)