بابری مسجد کی 29ویں یوم شہادت پر ایس ڈی پی آئی نے بھٹکل سمیت ملک کے کئی شہروں میں کیا احتجاجی مظاہرہ
بھٹکل،7؍دسمبر(ایس او نیوز) سوشیل ڈیموکریٹک پارٹی آف انڈیا (ایس ڈی پی آئی) نے بابری مسجد کی 29ویں یوم شہادت پر "بابری مسجد کی دوبارہ تعمیر تک ہماری جدوجہد جاری رہے گی" عنوان کے تحت بھٹکل سمیت ملک بھر میں احتجاجی مظاہروں کا انعقاد کیا۔ جس میں خواتین سمیت ہزاروں پارٹی کارکنان اور عوام شریک رہے۔
بھٹکل میں منی ودھان سودھا کے باہر منعقدہ احتجاجی مظاہرے میں ایس ڈی پی آئی کے لیڈران نے مختلف قسم کی نعرے بازی کی اور کہا کہ بابری مسجد کی دوبارہ تعمیر تک جدوجہد جاری رہے گی۔
ملک کے دیگر شہروں میں بھی ایس ڈی پی آئی نے مظاہرے کئے جس میں مقررین نے اپنی تقریر میں کہا کہ22,23دسمبر 1949کی درمیانی رات مقامی انتظامیہ کی ملی بھگت سے شناخت شدہ مجرموں کے ایک گروہ نے بابری مسجد میں مورتیاں رکھی تھی تاکہ اس جھوٹ کی بنیاد پر غیر قانونی طور پر اس جگہ پر قبضہ کیا جاسکے اور کہا جاسکے کہ وہاں رام کی پیدائش ہوئی تھی۔
ایس ڈی پی آئی کی جانب سے جاری کردہ پریس ریلیز میں بابری مسجد کی شہادت پر سخت افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ 6دسمبر 1992کو ہندوتوا کے غنڈوں نے دن کے اجالے میں بابری مسجد کو شہید کردیا تھا۔ اس وقت کے وزیر اعظم پی وی نرسمہا راؤ نے یقین دلایا تھا کہ مسجد اسی جگہ پر تعمیر کی جائے گی۔ سپریم کورٹ نے9نومبر2019کواجودھیا میں مسجد میں مورتیاں رکھے جانے اور مسجد کی شہادت کو غیر قانونی فعل قرار دیتے ہوئے اپنا فیصلہ سنایا تھا، لیکن حتمی فیصلہ میں رام مندر کی تعمیر کا حکم دیدیا گیا۔
ریلیز کے مطابق عبادت گاہوں کا ایکٹ 1991کسی کو بھی دوسروں کی عبادت گاہوں پر حملہ کرنے، زبردستی داخل ہونے، تبدیل کرنے، تباہ کرنے اور ان پر قبضہ کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ بابری مسجد کا فیصلہ ہندوستان کی آئین کے اصولوں کے خلاف تھا۔ سپریم کورٹ کا فیصلہ خود کہتا ہے کہ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ بابری مسجد کی تعمیر سے قبل مندر کو گرایا گیاتھا۔ پھر بابری مسجد کی زمین مندر ٹرسٹ کو کیوں دی گئی؟۔یہ سراسرناانصافی ہے۔ہر دستاویز، کاغذات اور گواہ یہ ثابت کرتے ہیں کہ بابری مسجد اس سر زمین پر بنائی گی تھی جہاں کوئی مندر یا کوئی عبادت گاہ نہیں تھی۔تباہی، انتشار، فرقہ وارانہ منافرت اور خونریزی کی سازش کے حق میں فیصلہ کیسے دیا جاسکتا ہے؟۔
ایس ڈی پی آئی کے مطابق بابری مسجد معاملے میں سپریم کورٹ کا فیصلہ ایک بہت بڑی ناانصافی اور آزاد ہندوستان کی تاریخ میں ایک اور دھوکہ تھا۔ واضح شواہد کے باوجود کہ مسجد اس سرزمین پر تعمیر کی گئی تھی جہاں کوئی مندر موجود نہیں تھااور مندر کو مسمار کر نے کا کوئی ثبوت نہیں تھا۔ فیصلے میں بابری مسجد کی اراضی کو ہندوتوا گروپوں کو دیدیا گیا۔ جو ناانصافی کے سوا کچھ نہیں ہے۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ بابری مسجد کا انہدام ایک جرم تھا لیکن اس کو منہدم کرنے والے مجرموں کو سزا کا ذکر نہیں کیاگیا۔ لہذا، فیصلہ نامکمل ہے۔ بابری مسجد انہدام کے مجرموں کو سزا کا مطالبہ کرتے ہوئے،بابری مسجد معاملے میں انصاف کے حصول کیلئے ایس ڈی پی آئی اپنی جدوجہد جاری رکھے گی۔ ایس ڈی پی آئی بابری مسجد کوآنے والی نسل تک لے جائے گی اور اس ناانصافی کو کھبی فراموش کرنے نہیں دیگی۔ جب تک بابری مسجد اسی جگہ نہیں تعمیر ہوتی ہم اپنی کوشش جاری رکھیں گے۔