منگلورو میں پولیس فائرنگ۔ پولیس زیادتیوں کے تعلق سے کئی سوالات کا جواب نہیں دے پارہی ہے پولیس۔ نیوانڈین ایکسپریس کی رپورٹ
منگلورو 21/دسمبر (ایس او نیوز) انگریزی اخبار نیو انڈین ایکسپریس کی ایک رپورٹ کے مطابق شہریت ترمیمی قانون میں کے خلاف منگلورو میں ہوئے احتجاج اور اس کے جواب میں پولیس کی فائرنگ اور زیادتیوں کے تعلق سے منگلورو پولیس کمشنر کئی سوالات کے جوابات دینے میں ناکام ہیں۔
newindianexpress.comپر شائع رپورٹ کے مطابق احتجاج کے موقع پر تشدد اور جوابی کارروائی میں پولیس اپنی ذمہ داری نبھانے میں پوری طرح ناکام نظر آتی ہے اور مظاہرین پر کی گئی کارروائی اور فائرنگ کے سلسلے میں چند ایسے سوالا ت ہیں جن کا جواب پولیس کے پاس نہیں ہے۔اس پس منظر میں بعض ذرائع سے ملی خبر کے مطابق اعلیٰ پولیس افسران نے مبینہ طور پرسٹی پولیس کمشنر پی ایس ہرشاکے خلاف ضابطے کی کارروائی کرنے کی سفارش کی ہے۔
سینے پر تھا نشانہ: مضمون میں مزید کہا گیا ہے کہ احتجاج کے دوران اگر تشد د پر قابو پانے کے لئے فائرنگ ضروری بھی ہوجائے تو قانون کے مطابق مظاہرین یا احتجاجیوں کے گھٹنے سے نیچے نشانہ لگا کر گولی چلائی جانی چاہیے۔لیکن منگلورو میں پولیس نے جو فائرنگ کی ہے اس میں زخمی ہونے والے آٹھ لوگوں میں سے سات زخمیوں کوکمر سے اوپر گولی لگی ہے۔ایک طالب علم کے سینے پرگولی لگی ہے توسابق میئر اشرف کے معاملے میں گولی ان کے سر کو چھو کرزخمی کرتے ہوئے گزری ہے۔فائرنگ کے مناظر والے کئی ویڈیو سوشیل میڈیا پر وائرل ہوگئے ہیں جس سے لگتا ہے کہ پولیس کا نشانہ مظاہرین کے کمر سے اوپر اورسینے کی طرف ہی تھا۔
فائرنگ میں کوئی مراکیوں نہیں: رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سابق وزیر اعلیٰ سدارامیا نے بنگلورو میں جمعہ کے دن ایک ایسا ویڈیومیڈیا کے لئے جاری کیا جس میں ایک پولیس انسپکٹر اپنے دوسرے ساتھی سے کہتا ہے کہ اتنے راؤنڈ فائرنگ کرنے کے بعد بھی کوئی ہلاک کیسے نہیں ہوا۔جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ پولیس کا مقصد احتجاجیوں کو قابو میں کرنے سے زیادہ انہیں ہلاک کرنا ہی تھا۔جب اس ویڈیو کے بارے میں پولیس کمشنر سے پوچھا گیا تو ایک طرف انہوں نے کہا کہ اس بارے میں مجھے کچھ معلوم نہیں ہے، وہیں دوسری طرف یہ بھی کہا کہ اس کے بارے میں تحقیقات کی جارہی ہے۔
کتنے پولیس والے زخمی ہوئے: انڈین ایکسپریس کے مطابق پولیس کمشنر کا بیان ہے کہ احتجاجیوں کی تعداد 6ہزار سے 7ہزار تک تھی۔ تشدد کی وجہ سے 33پولیس افسران اور اہلکار بھی زخمی ہوئے ہیں۔اس تعداد کی پوری طرح تصدیق نہیں ہوسکی۔ اس کے علاوہ ڈی سی پی ارونا شوگری کا ہاتھ احتجاجیوں نے تقریباً توڑ ڈالا ہے۔ لیکن زخمی پولیس افسران کی تعداد اور ڈی سی پی اس طرح زخمی ہونے کی بات کا کوئی واضح ثبوت نہیں ملا ہے۔بلکہ بعض ذرائع اسے جھوٹ پر مبنی بیان قرار دے رہے ہیں۔
گمراہ کن بیانات: ویب سائٹ کے مطابق پولیس کمشنر کے ایک اور بیان کی پول بھی کھل گئی ہے، جس میں انہوں نے کیرالہ سے آنے والے 50اجنبی رپورٹروں کو گرفتار کرنے کی بات کہی تھی، جبکہ ان صحافیوں کی تعداد صرف 8تھی۔اور یہ بیان بھی پوری طرح جھوٹا تھا۔اس کے علاوہ فائرنگ زخمی ہونے والوں کی تعداد پولیس کمشنر کے مطابق 5ہے جبکہ حقیقت میں 25سے زیادہ افراد زخمی ہوئے ہیں اور وہ سب مختلف اسپتالو ں میں زیر علاج ہیں۔