بھٹکل اسمبلی حلقہ میں ووٹوں کے لئے منکال اور سنیل دیہاتوں میں کر رہے ہیں دوڑ دھوپ ، کیا ہے دیگر لیڈران کا حال ؟
بھٹکل، 14 / فروری (ایس او نیوز) اسمبلی الیکشن کے دن قریب آتے جا رہے ہیں اور بھٹکل اسمبلی حلقہ میں سیاسی امیدواروں کی طرف سے اپنے لئے میدان ہموار کرنے کی کوششیں تیز ہونے لگی ہیں ۔ ایک مقامی کنڑا اخبار کی تجزیاتی رپورٹ کے مطابق بی جے پی کے رکن اسمبلی اور ٹکٹ کے امیدوار سنیل نائک اور کانگریس پارٹی سے ٹکٹ کے امیدوار منکال وئیدیا دونوں دیہی علاقوں میں دورے کرنے، ووٹروں سے ملنے اورمختلف علاقوں میں پہنچ کر پنچایت اراکین اور عام لوگوں کے ساتھ میٹنگ اور جلسے وغیرہ منعقد کرکے اپنا ووٹ بینک مستحکم کرنے میں پوری طرح مصروف ہوگئے ہیں ۔ جبکہ دوسرے کوئی لیڈران گاوں قصبوں اور دیہی علاقوں میں نظر نہیں آ رہے ہیں بلکہ وہ صرف شہری سطح پر سرگرم رہ کر عوام میں اپنی ساکھ مضبوط کرنے کی کوششوں میں مصروف نظر آرہے ہیں۔
جلسے اور پروگراموں کی بھرمار: بھٹکل اسمبلی حلقہ کی صورتحال کا ابتدائی جائزہ یہ بتاتا ہے کہ اس وقت منکال وئیدیا اور سنیل نائک کے الیکشن میں مقابلہ آرائی کے لئے ٹھن گئی ہے اور دونوں پوری طرح تیاریوں میں جٹ گئے ہیں ۔ ہر ہفتہ دیہی علاقوں میں یکے بعد دیگرے کرکٹ اور کبڈی جیسے کھیلوں کے مقابلے ، ٹورنامنٹس کا انعقاد ، جلسوں کا افتتاح اور خصوصی پروگراموں کا سلسلہ چل پڑا ہے ۔ دوسری جانب مندروں اور دیوستھانوں میں اتسوا ، افتتاح اور ہبّا جیسے پروگراموں کا سیلاب سا آگیا ہے اور منکال اور سنیل نائک دونوں ایسے پروگراموں کے لئے بڑھ چڑھ کر عطیہ دے رہے ہیں ۔
عالم یہ ہے کہ صبح ہوتے ہی الیکشن میں ٹکٹ کے امیدواروں کے گھروں کے سامنے عطیہ اور چندہ مانگنے والوں کی قطاریں لگنی شروع ہوگئی ہیں ۔ اور ایسا لگتا ہے کہ آنے والے دو تین مہینوں میں ٹکٹ کے امیدوارالیکشن سے پہلے ہی کافی رقم عطیہ اور چندہ میں دیتے ہوئے تھک جائیں گے ۔
سوشیل میڈیا پر تشہیری پیکیج: اس کے علاوہ سوشیل میڈیا پر تشہیری مہم بھی زور پکڑنے لگی ہے ۔ اس میں اپنی حمایت میں میسیجس عام کرنے کے علاوہ اپنے مخالفین پر الزامات لگانا ، ان کا کچا چٹھا کھولنا اور انہیں بدنام کرکے اپنے حق میں ووٹ بدلنے کی کوشش کرنا بھی اس مہم کا حصہ ہے ۔ پتہ چلا ہے کہ اس کے لئے بعض لوگ میدان میں اترے ہیں اور اپنے لئے مالی پیکیج کے ساتھ ٹکٹ حاصل کرنے کے خواہشمند اور متوقع امیدوار سے ڈیل کرنے میں مصروف ہوگئے ہیں ۔ اور سوشیل میڈیا پر تشہیری پیکیج والا رجحان امیدواروں کے لئے نیا سر درد بن گیا ہے ۔
قصبوں اور دیہاتوں میں اپنی مدد آپ کرنے والے خواتین کی جو تنظیمیں اور سنگھا ہیں ان سے وابستہ خواتین بڑی تعداد میں پورے جوش و خروش کے ساتھ ان سیاسی جلسوں اور پروگراموں میں شرکت کر رہی ہیں ۔ ان کے ساتھ سیاسی امیدوار بہت سارے وعدے کر رہے ہیں اور ان کی مختلف توقعات پوری کرنے کی یقین دہانیاں کی جا رہی ہیں ۔
الیکشن کی تیاریوں کا منصوبہ: اسی کے ساتھ الیکشن میں اپنا رول ادا کرنے والا ذات پات اور مذہب کا کارڈ بھی دھیرے دھیرے نمایاں ہو رہا ہے ۔ کس طبقہ اور کس فرقہ کے ووٹ حاصل کرنے کے لئے کس قائد اور کس شخصیت کو گھیرنا ہوگا اس کا بھی حساب لگایا جا رہا ہے اور اس زاویے سے منصوبہ بندی کی جا رہی ہے ۔
اس بیچ کارکنان اور لیڈران کے گروہ میں سے امیدواروں کی حمایت اور ساتھ دینے والوں کا ایک طرف سے دوسری طرف آنا جانا شروع ہوگیا ہے ۔ اس پر بھی امیدواروں کی نظر بنی ہوئی ہے اور جہاں جہاں انہیں اپنے ہی کاریہ کرتا اور لیڈروں سے دھوکہ ہونے کا خطرہ ہے وہاں نئے لوگوں کو انتخابی سرگرمیوں سے متعلقہ ذمہ داریاں سونپنے کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا ہے ۔
کیا حال ہے دیگر پارٹیوں کا: بی جے پی اور کانگریسی ٹکٹ کے خواہشمند امیدواروں کو چھوڑیں تو پھر دوسری پارٹی کے اُمیدواروں کی طرف سے دیہی علاقوں میں الیکشن کی کوئی سرگرمی دکھائی نہیں دے رہی ہے ۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انہیں انتخابی مقابلہ آرائی سے کوئی دلچسپی ہی نہیں ہے ۔ یہاں وہاں اگر کہیں کوئی سیاسی پارٹی سے وابستہ سیاسی لیڈران یا کارکنان نظر بھی آتے ہیں تو ان کے انداز سے لگتا ہے کہ الیکشن کے سلسلے میں ان کے دماغ میں کچھ اور ہی پک رہا ہے ۔ اور سیاسی گلیاروں میں یہ بحث کا موضوع بن گیا ہے ۔
کیا جے ڈی ایس لیڈران کانگریس اور بی جے پی کے ساتھ ملے ہیں ؟: سر پر گھاس کا پوُلّا اٹھائی ہوئی خاتون کے نشان والی شال گلے میں ڈال کر یہاں وہاں دوڑ بھاگ کر رہے جے ڈی ایس کے لیڈران اور کارکنان میں بعض کانگریس کے ساتھ اور بعض بی جے پی کے ساتھ اندرونی ساز باز کرنا ہی گزشتہ دو دہائیوں سے جے ڈی ایس کو کمزور کرنے کا اصل میں سبب بنا ہوا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ایک طرف بعض لوگ اقلیتی طبقہ کے امیدوار عنایت اللہ شاہبندری کو انتخابی میدان میں اترنے کے نتیجہ میں بی جے پی کی جیت یقینی ہونے کا سپنا دیکھ رہے ہیں تو دوسری طرف یہ بھی کوئی راز کی بات نہیں ہے کہ عنایت اللہ کو میدان میں اترنے سے روکتے ہوئے کانگریس کو فائدہ پہنچانے کے سلسلے میں ایک اور گروہ اپنی کوششوں میں مصروف ہوگیا ہے ۔
تنظیم ، جے ڈی ایس ٹکٹ اور عنایت اللہ: جے ڈی ایس سے ٹکٹ حاصل کرکے الیکشن میں اترنے کی عنایت اللہ شاہ بندری کی کوشش گزشتہ دو دہائیوں سے دیکھی جارہی ہے ۔ سال 2013 میں کے جے پی ، بی جے پی ، کانگریس اور آزاد امیدواروں کے درمیان مقابلہ میں جے ڈی ایس سے عنایت اللہ کو جیت دلانے کے لئے تنظیم کے لیڈر ، ان کی پشت پر کھڑے تھے لیکن یہ کوشش بے نتیجہ ثابت ہوئی ۔ اب پھر سے حسب معمول اسی ٹکٹ پر الیکشن لڑنے کے لئے وہ تیار ہوگئے ہیں ۔ بی جے پی لیڈران یہ کہتے پھر رہے ہیں کہ عنایت اللہ چونکہ تنظیم کے صدر ہیں اس لئے جے ڈی ایس کا ٹکٹ انہیں ملنا یقینی ہے ۔ دوسری طرف کانگریسی لیڈران یہ کہتے پھر رہے ہیں کہ عنایت اللہ کو تنظیم سے حمایت ملنے کے امکانات نہیں ہیں ۔ مگر ان سب باتوں پر کان نہ دھرنے والے عنایت اللہ ٹکٹ حاصل کرنے کے لئے تنظیم کے لیڈران اور دیگر لیڈروں کو راضی کرنے میں پوری طرح مصروف نظر آتے ہیں ۔