فلسطین پر ہورہی اسرائیل کی وحشیانہ بمباری کے درمیان او آئی سی اور عرب لیگ کا ہنگامی اجلاس؛ ایران بھی ہوا شریک : کیامتحدہونگے57مسلم ممالک؟

ریاض 11/نومبر (ایس او نیوز/ایجنسی) : 7/اکتوبر سے اسرائیل ملٹری کی طرف سے فلسطین پر وحشیانہ بمباری اور گیارہ ہزار سے زائد فلسطینیوں کو شہید کئے جانے کے بعد سعودی عرب میں عرب و اسلامی ممالک کا مشترکہ غیر معمولی سربراہی اجلاس منعقد کیا گیا ہے جس میں فلسطین کے علاقے غزہ میں جاری اسرائیلی ریاستی دہشت گردی کے خلاف لائحہ عمل پر غور کیا جارہا ہے۔
میڈیا رپورٹوں کے مطابق غزہ کی صورتحال پر اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) اور عرب لیگ کا مشترکہ ہنگامی اجلاس سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں جاری ہے، جس میں غزہ میں فوری جنگ بندی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔اجلاس میں سعودی ولی عہد محمد بن سلمان، ایرانی صدر ابراہیم رئیسی، فلسطین کے صدر محمود عباس، امیر قطر اور دیگر ممالک کے سربراہان سمیت پاکستان کے نگراں وزیرِاعظم انوار الحق کاکڑ بھی شریک ہیں۔
ایرانی صدر بھی پہنچے سعودی عرب؛ ایران کے صدر ابراہیم رئیسی کے سعودی عرب میں منعقدہ اجلاس میں شریک ہونے پر معاملہ بہت زیادہ گرماتا نظر آرہا ہے۔بتاتے چلیں کہ اسی سال مارچ میں دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی بحالی پر اتفاق کے بعد سے یہ ایرانی صدر کا پہلا سعودی عرب دورہ ہے۔
اپنے خطاب میں ایرانی صدر ابراہیم رئیسی نے کہا کہ ہمیں غزہ کے مسئلے کا حل تلاش کرنا ہے، فلسطین امت مسلمہ کے فخر کا نشان ہے، اسرائیل غزہ میں بمباری کے ذریعے نئی نسل کو ختم کررہا ہے وہاں ہونے والا ظلم تمام عالمی قوانین کا مذاق ہے، اسرائیلی جارحیت سے 11 ہزار سے زائد نہتے شہری شہید ہوچکے ہیں، غزہ کو دنیا کی سب سے بڑی جیل بنادیا گیا ہے، میرا عالمی برادری سے سوال ہے کہ غزہ کے شہدا کا کیا قصور ہے، شہید خواتین کا کیا قصور ہے؟ ہمیں بتایا جائے کہ شہید ہونے والے بچوں کا کیا قصور ہے؟
انہوں نے کہا کہ امریکا فاشسٹ ملک ہے جو اسرائیل کی حمایت کرکے اسرائیل کے ساتھ جنگی جرائم میں شریک ہورہا ہے وہ غزہ کو تباہ کرنے کے لیے اسرائیل کو بڑے پیمانے پر جنگی ہتھیار اور رقومات فراہم کررہا ہے، ہمیں اسرائیلی جارحیت روکنے کے لیے مشترکہ لائحہ عمل بنانا ہوگا، اسرائیل غزہ پر اتنی بمباری کرچکا ہے جو سات ایٹم بم کے برابر ہے۔
انہوں نے کہا کہ غزہ کی صورتحال کے حوالے سے سعودی کا اجلاس بڑا اہم ہے اور یہ خطے کی تاریخ میں فیصلہ کن وقت ہے۔ ابراہیم رئیسی کا مزید کہنا تھا کہ ہمیں اسرائیل کے جنگی جرائم کا مقابلہ کرنا ہوگا، خطے میں ہونی والے تمام کارروائیوں میں امریکا کا ہاتھ ہے اسی نے اسرائیلی مظالم کے لیے راہ ہموار کی ہے، انہوں نے مطالبہ کیا کہ دہشت گرد اسرائیل فوری طور پر غزہ سے باہر نکل جائے۔
کیا مسلم ممالک متحد ہوں گے ؟: غزہ کے تنازع پر بات چیت کے لیے آج ہفتے کے روز ریاض میں عرب افریقی سربراہی اجلاس اور عرب لیگ کا ہنگامی سربراہی اجلاس منعقد کیا گیا تھا جس میں خاص بات یہ ہے کہ ایران کے صدر ابراہیم رئیسی نے اس اجلاس میں شرکت کی ۔ جس کو لے کر امریکہ اور اسرائیل کے پسینے چھوٹ گئے ہیں۔
میڈیا میں جو خبریں آرہی ہیں اُس پر بھروسہ کریں تو کل اتوار کو سعودی عربیہ میں 57 مسلم ممالک کا جو اجلاس منعقد کیا گیا ہے، اُس میں اسرائیل اور امریکہ کے خلاف مسلم ممالک کی سب سے بڑی گھیرابندی ہوسکتی ہے۔رپورٹوں کے مطابق سعودی عرب میں ہورہی اس بڑی گھیرا بندی پر یوکرین جنگ کی طرح ہی ایک بار پھر دنیا دو حصوں میں بٹنے کے امکانات ہیں۔ عالمی اور ہندوستان کی گودی میڈیا بھی اس اجلاس کو لے کر نہایت فکرمندہے اور کہاجارہا ہے کہ اتوار کا اجلاس 57۔ اسلامی ملکوں کا امریکہ اور اسرائیل کے خلاف مورچہ کھول دے گا اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس مورچے کی قیادت سعودی عرب کررہا ہے اور سعودی کے ساتھ ایران کھڑا ہوگیا ہے۔ گودی میڈیا اس بات کو لے کر پریشان ہے کہ ایران کے سعودی عرب کے ساتھ آنے کی وجہ سے ہی یہ اشارہ مل رہا ہے کہ دنیا دو حصوں میں بٹ گئی ہے۔ کیونکہ امریکہ اور اسرائیل کے خلاف ایران اپنے کٹر حریف سعودی عربیہ کے ساتھ کھڑا نظر آرہا ہے۔ اسی لئے مانا جارہا ہے کہ تمام مسلم ممالک اپنے آپسی اختلافات کو بھلاتے ہوئے متحد ہورہے ہیں۔اور ان دو دھڑوں میں ایک طرف امریکہ اور اس کے ساتھ کھڑے ممالک ہیں تو دوسری طرف مسلم ممالک کے ساتھ روس اور چین نظر آرہے ہیں۔ اتنا ہی نہیں مسلم ممالک اپنے اتحاد کو ثابت کرنے کے لئے اہم اجلاس کررہے ہیں اور سعودی عرب میں ہی اتوار کو 57 ممالک کا اجلاس منعقد کیا گیا ہے۔ جس میں سبھی ممالک مل کر اسرائیل کی طرف سے فلسطین پر ہورہی وحشیانہ اور نہ رکُنے والی بمباری کے خلاف اپنی حکمت عملی طے کریں گے۔
الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق اسلامی تعاون تنظیم (Organisation of Islamic Cooperation ) کے موجودہ صدرحِسین براہیم طحہٰ سعودی عرب کی دعوت پر ریاض پہنچ چکے ہیں جہاں اتوار کو 57 اسلامی ممالک کے ساتھ ہنگامی سربراہی اجلاس کا انعقاد کیا گیا ہے ، کہا گیا ہے کہ اجلاس میں فلسطینی عوام کے خلاف اسرائیل کے وحشیانہ حملے پر بات چیت کی جائے گی۔ او آئی سی کے سینئر ذرائع کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ تمام تنظیموں کے ارکان کو دعوت نامے دئے گئے ہیں۔ توقع کی جارہی ہے کہ فلسطین کی موجودہ صورتحال کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے اس کانفرنس میں زیادہ تر اسلامی ممالک کے رہنما شرکت کریں گے۔
خلیجی ممالک کے ساتھ ساتھ اسلامی ممالک کی اندرونی سیاست کے بارے میں علم رکھنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ او آئی سی کا سربراہی اجلاس تمام اسلامی ممالک کے لیے اسرائیلی جارحیت پر متفقہ موقف اختیار کرنے کا ایک بڑا موقع ثابت ہو سکتا ہے۔ او آئی سی کے رکن ممالک کے رہنما اجتماعی طور پر اسرائیل سے مطالبہ کر سکتے ہیں کہ وہ غزہ پر اپنے حملے فوری طور پر بند کرے، محاصرہ ختم کرے، امداد کی ترسیل کی اجازت دے اور بین الاقوامی انسانی قانون کا احترام کرے۔ اسلامی ممالک کی تنظیم اس بات پر بھی زور دے سکتی ہے کہ بین الاقوامی قراردادوں کی بنیاد پر تنازعات کے پرامن حل کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں ہو سکتا۔
سنیچر کو منعقدہ اجلاس میں سعودی شہزادے نے کیا کہا ؟: سنیچر کو منعقدہ سربراہی اجلاس میں افتتاحی کلمات پیش کرتے ہوئے، سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے غزہ میں فوجی آپریشن فوری طور پر بند کرنے اور تمام اسیروں اور قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا۔انہوں نے کہا کہ فلسطین میں انسانی آبادی پر جس طرح کی بمباری ہورہی ہے وہ ایک انسانی تباہی ہے جس نے بین الاقوامی برادری اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی اسرائیل کی جانب سے بین الاقوامی انسانی قوانین کی سنگین خلاف ورزیوں کو روکنے اور دنیا کے دوہرے معیارات کو ثابت کرنے میں ناکامی کو ثابت کیا ہے۔ مزید کہا کہ "ہمیں یقین ہے کہ امن کی واحد وجہ اسرائیلی قبضے اور غیر قانونی بستیوں کا خاتمہ ہے، اور فلسطینی عوام کے قائم کردہ حقوق کی بحالی اور 1967 میں ریاست کا قیام، جس کا مشرقی یروشلم اس کا دارالحکومت ہو۔
فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ غزہ کے علاوہ مقبوضہ مغربی کنارے میں بھی اسرائیلی فورسز کے چھاپوں میں اضافہ ہوا ہے انہوں نے امریکی انتظامیہ سے مطالبہ کیا کہ وہ "اسرائیل کی جارحیت، ہمارے مقدس مقامات پر قبضے، خلاف ورزی اور بے حرمتی" کو بند کرے۔ انہوں نے کہا کہ کوئی فوجی اور سیکورٹی حل قابل قبول نہیں کیونکہ وہ سب ناکام ہو چکے ہیں۔ عباس نے مزید کہا کہ ہم غزہ یا مغربی کنارے سے اپنے لوگوں کو بے گھر کرنے کی کسی بھی کوشش کو واضح طور پر مسترد کرتے ہیں۔ قطر کے امیر شیخ تمیم بن حمد الثانی نے سوال کیا کہ بین الاقوامی برادری کب تک اسرائیل کے ساتھ ایسا سلوک کرے گی جیسے وہ بین الاقوامی قانون سے بالاتر ہے۔ بین الاقوامی دنیا ان تمام مناظر کے سامنے محفوظ ہے۔ کون سوچ سکتا تھا کہ 21ویں صدی میں ہسپتالوں پر کھلے عام گولہ باری کی جا سکتی ہے۔