بنگلورو شہر میں لاپتہ ہونے والوں کی تعداد میں تشویش ناک اضافہ؛ لاپتہ افراد کو ڈھونڈ نکالنے میں پولس کی ناکامی پر عدالت بھی غیر مطمئن
بنگلورو21؍دسمبر (ایس او نیوز) شہر گلستان بنگلورو میں خاندانی مسائل، ذہنی ودماغی پریشانیاں اور بیماریوں کی وجہ سے اپناگھر چھوڑ کر لاپتہ ہوجانے والوں کی تعداد میں تشویش ناک اضافہ دیکھا جارہا ہے۔ ایک جائزے کے مطابق گزشتہ تین برسوں میں گمشدگی کے جتنے معاملات پولیس کے پاس درج ہوئے ہیں ان میں سے 1500گم شدہ افراد کے بارے میں ابھی تک کوئی پتہ چل نہیں سکا ہے۔اس سلسلے میں ایک اہم بات یہ بھی سامنے آئی ہے کہ جن معاملات میں گمشدہ افراد کا پتہ نہیں چل پایا ہے اس میں کئی معاملے ایسے ہیں جس کے بارے میں پولیس نے ابتدا ء میں بہت زیادہ چوکسی نہیں دکھائی تھی اورتحقیقات میں زیادہ سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا تھا۔بہت سے کیس ایسے بھی ہیں جہاں شکایت کنندگان کی طرف سے ضروری اور مکمل تفصیلات پولیس کو فراہم نہیں کی گئی ہیں۔
کنڑا اخبار اودیوانی نے اپنی تفصیلی رپورٹ میں اعداد شمارکے ساتھ لکھا ہے کہ سال 2016 میں جملہ 5,342معاملے درج ہوئے۔ ان میں سے 4890کیس پولیس نے حل کیے، جبکہ 452افراد کاکوئی پتہ نہیں چلا۔سال 2017 میں 5,277کیس داخل ہوئے جن میں سے 522معاملات میں گم شدہ افراد کا کوئی پتہ نہیں چلا ہے۔اسی طرح نومبر 2018تک 4,781 گمشدگی کے کیس درج ہوئے ہیں جن میں سے 4,030کیس حل ہوگئے اور 751معاملات کا کچھ پتہ نہیں ہے۔یعنی 1500افرا د کی گمشدگی پر ابھی تک اسرار کے پردے پڑے ہوئے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ لاپتہ ہونے کے کیس جب پولیس کے پاس آتے ہیں تو شرو ع کے چند دن پولیس اس پر دھیان دیتی ہے اور پتہ چلانے میں ناکام ہونے پر میڈیا میں اس تعلق سے اعلان دے کر خاموش بیٹھ جاتی ہے کہ کہیں سے کوئی خبر آئے گی تو پھر کارروائی کی جائے گی۔ جب مہینوں تک اس میں کامیابی نہیں ملتی تو پھر پولیس بھی اس کیس پر اپنی توجہ کم کردیتی ہے۔یا پھر بہت سے معاملات میں گم شدگی کو عشق و محبت یا ناجائز رشتے سے جوڑ کر دیکھاجاتا ہے اور انہیں ڈھونڈنکالنے کی طرف زیادہ مستعدی سے کارروائی نہیں کی جاتی۔
گاؤں اور شہروں سے لاپتہ ہونے والے افراد کی تحقیقات کے دوران ایک اور اہم پہلو ’’انسانی اسمگلنگ‘‘ کا بھی سامنے آیا ہے۔سمجھا جاتا ہے کہ بین الریاستی بدمعاشوں کے گروہ پڑوسی ریاستوں سے لوگوں کو اغوا کرکے لے جاتے ہیں اور انہیں غیر قانونی سرگرمیوں میں استعمال کرتے ہیں۔
لاپتہ افراد کو ڈھونڈنکالنے میں پولیس کی ناکامی پر کرناٹکا ہائی کورٹ نے کئی مرتبہ اپنی بے اطمینانی کا اظہار کیا تھا۔ایک ہیبیس کارپس (کسی لاپتہ شخص کو عدالت میں حاضر کرنے کی درخواست) کے معاملے میں ہائی کورٹ کی ڈیویژن بنچ نے پولیس کو ہدایت دی تھی کہ گزشتہ تین برسوں کے دورا ن گمشدگی کے جتنے معاملات درج ہوئے ہیں ان کی اسٹیٹس رپورٹ عدالت میں پیش کی جائے۔ سی سی بی کے ایڈیشنل پولیس کمشنر آلوک کمار کا کہنا ہے کہ ’’ لاپتہ افراد کے معاملات میں متعلقہ پولیس اسٹیشن کے افسران خصوصی کارروائیاں کررہے ہیں۔ ریاستی پولیس کی ڈائریکٹر جنرل نیلمنی این راجو کی ہدایت کے مطابق مختلف پولیس تھانوں میں درج گمشدگی کے معاملات میں کی گئی کارروائیوں اور اس کی پیش رفت کے سلسلے میں رپورٹ طلب کرلی گئی ہے۔اور جو معاملات ابھی حل نہیں ہوسکے ہیں ان کے سلسلے میں متعلقہ افسران کو اگلی کارروائی کے لئے صلاح و مشورہ دیا گیا ہے۔