بھٹکل میں لاک ڈاؤن کا اثر : پرائیویٹ اسکول کے اساتذہ اپنا روزگار بدلنے پر مجبور ؛ ڈرائیونگ کا پیشہ اپنانے کو بھی تیار
بھٹکل 16؍جون (ایس اؤ نیوز) لاک ڈاؤن کے نتیجےمیں جہاں مہاجر مزدور ، یومیہ مزدور سمیت سبھی طبقات پریشانیوں میں مبتلا ہیں وہیں پرائیویٹ اسکولوں ،کالجوں کے اساتذہ اور لکچررس بھی لاک ڈاون سے بری طرح متاثر ہوئے ہیں اور زندگی گزارے کے لئے دیگر روزگار اپنانے کی طرف توجہ دے رہے ہیں۔ خبر یہاں تک ملی ہے کہ بعض اساتذہ ڈرائیونگ کا پیشہ اپنانے کی طرف بھی توجہ دے رہے ہیں تاکہ گھر کا میٹرچل سکے۔
کوروناوائرس کے چلتے نافذ کئے گئے لاک ڈاؤن کی وجہ سے اسکول و کالجس بند پڑے ہیں،اسکول اور کالجس کب کھلیں گے دوتین مہینوں کے بعد یا پھر مزید تاخیر ہوگی ، کچھ بھی صاف نہیں ہے۔
سننے میں آیا ہے کہ بعض پرائیویٹ اسکولوں اور کالجوں میں تدریسی خدمات انجام دینے والے اساتذہ اور لکچررس کو پچھلے ایک دو ماہ سے تنخواہیں نہیں دی گئی ہیں ۔یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ چند تعلیمی اداروں نے آدھی تنخواہوں پرہی معاملہ نپٹالیا ہے تو کچھ ادارےتنخواہوں میں کٹوتی کر نے پر بھی غورکررہے ہیں۔ ان حالات میں پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں خدمات انجام دینے والے اپنی زندگی کے گزارے کو لےکر کافی پریشان ہیں جس کے نتیجےمیں وہ دیگر روزگار تلاش کرنے کی طرف سوچنے پر مجبور ہیں۔
حالات سے مجبور بھٹکل کے چند اساتذہ نے کرایہ پر کار حاصل کرکے روزگار جمانے کی کوشش کی بھی اطلاع ملی ہے تو بعض پھل وغیرہ بیچنے پر مجبور بتائے جارہے ہیں۔ ایک استاد نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ میں حلال کمائی کے ذریعے روزگار حاصل کرنے کے لئے کار ڈرائیونگ کررہا ہوں تو اس میں شرم کی کیا بات ہے َ؟ کیونکہ کچھ نہ کچھ کرکےمجھے اپنا اور بیوی بچوں کے لئے روزی روٹی کا انتظام کرنا ہے اگر میں ایسا ہی خاموش رہا تو گھر کے حالات دگر گوں ہوجانے کا خدشہ ہے۔
ایک استاد نے بتایا کہ پرائیوٹ اسکولوں اور کالجوں کے اساتذہ کو پہلے ہی کم تنخواہیں ہیں ، ہم لوگوں کوماہانہ 8-10ہزار روپئے ہی تنخواہ ملتی ہے ، اس میں گھر کاکرایہ، بیوی بچوں کے اخراجات ، بجلی کا بل اور بچوں کی تعلیمی فیس کہاں سے ادا کریں؟ ایسے میں اگر ہماری تنخواہوں کو روکا جاتا ہے یا تنخواہ آدھی کی جاتی ہے تو پھر ہمارے پاس گھر کا کرایہ بھی دینے کے لئے پیسہ نہیں رہے گا۔ حالات کو دیکھتے ہوئے ہمیں اب دوسرا روزگار تلاش کرنا ضروری ہوگیا ہے۔
اُدھر کہا جارہا ہے کہ جب تک اسکول اور کالجس شروع نہیں ہونگے تب تک والدین اپنے بچوں کی فیس ادا نہیں کریں گے۔ اور تعلیمی اداروں کو بچوں کی فیس ادا نہیں ملے گی تو انتظامیہ اساتذہ کی تنخواہیں کہاں سے ادا کریں گے ؟
اساتذہ اور لیکچررس اس تعلق سے حکومت سے ہی مطالبہ کررہے ہیں کہ اس تعلق سے مناسب معاوضہ کا اعلان کرتے ہوئے تعاون کریں۔ ان لوگوں کا سوال ہے کہ اگر حکومت آٹو ڈرائیور، تعمیراتی مزدوروغیرہ کو معاوضہ کا اعلان کرتی ہے تو اساتذہ کے لئے کیوں نہیں ؟اگر استادوں کے ساتھ اس طرح کا رویہ اختیار کیاجاتاہے تو پھر ملک کا مستقبل سنوارنے والے اساتذہ کا مستقبل تاریک ہوجائے گا۔
اس سلسلے میں آل انڈیا ٹیچرس اسوسی ایشن کے ریاستی ذمہ دار محمد رضامانوی نے مانا کہ یہ سچ ہے کہ کئی ایک پرائیویٹ ٹیچرس اب اپنا روزگار تبدیل کرنے کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔ مسئلہ کا حل دریافت کرنے پر انہوں نے کہا کہ ہم حکومت سے ہی مطالبہ کرسکتے ہیں کہ حکومت مارچ سے لے کر اسکول شروع ہونے تک ان کے بینک کھاتوں میں تنخواہوں کو منتقل کرے۔ انہوں نے بتایا کہ ریاست میں معیاری تعلیم دینے والے تعلیمی اداروں میں ہزاروں اساتذہ بہت ہی کم تنخواہوں پر پچھلے 20-25برسوں سے خدمات انجام دے رہے ہیں مگر ان کی تنخواہوں میں خاطر خواہ اضافہ نہیں ہواہے۔ حکومت کا فرمان ہونے کے باوجود تعلیمی ادارے فیس کی ادائیگی نہ ہونے سے کم سے کم تنخواہیں دینے سے مجبور ہیں۔ اسی لئے حکومت غیر امدادی اسکولوں کی نشاندہی کرتےہوئے ان اسکولوں کے اساتذہ کو کم سے کم تنخواہ دینے کا انتظام کرے تو استادوں کے مسائل ایک حد تک حل ہوسکتے ہیں، انہوں نے ریاست کے وزیر تعلیم سے وزیر اعلیٰ سے مطالبہ کیا کہ وہ اساتذہ کی تکلیفات کو محسوس کرتے ہوئے ان کی مدد کریں۔