جیل سے رہاہونے کے بعد محمد زُبیر نے کہا؛ نفرت کے خلاف لڑائی جرم نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ اسما ء اور ڈینئل جارج
الٹ نیوز کے محمد زبیر کی 23 دنوں کی عدالتی حراست کے بعد رہائی ہونے پر بنگلور میں اُن کی رہائش گاہ پر جشن کا ماحول رہا، جمعہ کی صبح ان کے گھر پر ان کے اہل خانہ اور دوست واحباب ان سے ملنے کے لئے بڑی تعداد میں جمع تھے۔ اس موقع پر بنگلور شائع ہونے والے معروف روزنامہ سالار نے اس فیکٹ چیکر سے بات چیت کی اقتباسات کچھ یہاں پیش کئے جارہے ہیں:
کیا محمد زبیر خوفزدہ ہیں؟: بالکل نہیں۔ یہی جواب تھا، انجینئرنگ گریجویٹ بنے فیکٹ چیکر کا جنہوں نے اپنے فیس بک پیج بنام ان افیشیل سبرامنیم سوامی لانچ کیا تھا اس پیج کو اس وقت شہرت ملی جب انہوں نے اسی طرح کا ایک بیج بنام گجرات کا سچ چلانے والے پرتیک سنہا سے اشتراک کیا۔ ان دونوں نے مل کر 2017میں آلٹ نیوز کا قیام کیا، ایک ایسی سائٹ جس کا مقصد تھا فیک نیوز کا پردہ فاش کرنا۔ گزشتہ چند سالوں کے دوران زبیر نے غلط خبروں کے متعلق ٹوئٹ کرنے کے ساتھ ساتھ نفرت بھری تقاریر کے بارے میں ٹوئٹ کر نا شروع کردیا، اس کے بارے میں زبیر کہتے ہیں کہ انہوں نے صرف ایک مذہب سے جڑی نفرت آمیز تقاریر کے بارے میں نہیں بلکہ مختلف گروپوں سے وابستہ ایسے عناصر کو بے نقاب کرنا چاہا جو نفرت پھیلا رہے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے ایک معاملہ میں پولیس سے دریافت بھی کیا کہ تشدد کے سلسلہ میں ایک ایف آئی آر بھی کیوں درج نہیں کی گئی ہے۔تازہ کیس کے بارے میں زبیر کا کہنا ہے کہ یہ پہلا موقع نہیں تھا کہ انہوں نے نفرت آمیز تقاریر کے بارے میں ٹوئٹ کیا ہے۔ جب میں نے متنازعہ انٹریو کے بارے میں ٹوئٹ کیا تو میرے ذہن میں نپورشرما بالکل نہیں تھی۔ مجھے یہ اندازہ نہیں تھا کہ وہ کون ہے۔صرف اتنا کہ ان کا تعلق حکمران پارٹی سے ہے۔میں نے اس بات کو اجاگر کرنا چاہا کہ کیسے کوئی معروف میڈیا چینل ایسے انٹرویو کو دکھا سکتا ہے۔
میڈیا کی ذمہ داری ہے کہ غلط خبروں، فرضی نیوز اور نفرت کو عام ہو نے سے روکے۔ لیکن مجھے اب بھی حیرت ہے کہ کس طرح ملک کی مین اسٹریم میڈیا غلط خبریں اور نفرت پھیلانے میں لگا ہوا ہے۔ میں نے صرف اسی کو اجاگر کرنے کی کوشش کی، لیکن جیسے ہی ٹوئٹ وائرل ہوئی اور اس کے مضر اثرات سامنے آنے لگے تو اس بات کا احسا س ہوگیا کہ زبیر نے کسی کے بڑے پیروں پر جم کر پیر رکھ دیا ہے۔ آلٹ نیوز میں ہم یہ جانتے تھے کہ اس کے سنگین نتائج ہو سکتے ہیں۔ لیکن ہم اس کے لئے تیار تھے۔ لیکن یہ امید نہیں تھی کہ سب کچھ اتنی جلدی ہو جائے گا۔
24جون کو زبیرکو2020کے ایک کیس کے سلسلہ میں دہلی پولیس کے سامنے حاضر ہونے کے لئے نوٹس دیا گیا،جبکہ اس پر انہوں نے اسٹے لے رکھا تھا۔جیسے ہی وہ دہلی پولیس کے سامنے گئے تو ان کو 2018کے ایک ٹوئٹ کے سلسلہ میں گرفتار کیا گیا جو 1983میں تیار کی گئی رشی کیش مکھرجی کی فلم کسی سے نہ کہنا کے پوسٹر کے اسکرین شاٹ پر مشتمل تھا، اس میں ان پر الزام لگایا گیا کہ اس سے انہوں نے مذہبی جذبات کو مجروح کیا اور دو فرقوں کے درمیان دشمنی بڑھانے کی کوشش کی۔جب وہ زیر حراست تھے تو ان پر 6الگ الگ مقدمے درج کئے گئے جن میں اتر پردیش کے غازی آباد، چندولی، لکھیم پور، سیتا پوراور ہاتھرس میں درج دو ایس آئی آر کے تحت تھے۔یہ تمام معروف شخصیتوں کی طرف سے کی گئی نفرت آمیز تقاریر کے متعلق ان کے ٹوئٹ سے جڑے ہوئے تھے۔
اس کے بعد شروع ہوئی ان کی 23روزہ عدالتی تحویل جس کے دوران ان کو سیتا پور لے جایا گیا، بنگلورو لایا گیا تاکہ ان کے لیپ ٹاپ کو ضبط کیا جا سکے۔ یہ محض ایک چوہے بلی کا کھیل بنا رہا۔ حکام کی یہی کوشش رہی کہ زبیر کو زیادہ سے زیادہ دنوں تک جیل میں رکھا جائے۔
اس دوران یہ بھی تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ آلٹ نیوزکے لئے جو بھی چند ہ دیا گیا وہ ان کے نجی اکاؤنٹ میں جا رہا تھا۔ جو بھی رقم ملی تھی پولیس کو اس کی تمام تفصیلات بھی مہیا کروائی گئیں۔
جیل میں قید:جیل میں زبیر کی قید ایسی نہیں تھی جیسا کہ فلموں میں دکھائی جاتی ہے۔ چونکہ سیاسی معاملہ میں ان کو گرفتار کیا گیا ہے، اس لئے ان کو اختیار دیا گیا کہ وہ اکیلے رہنا چاہتے ہیں یا دیگر قیدیوں کے ساتھ۔ زبیر نے اکیلے رہنے کی بجائے دیگر قیدیوں کے ساتھ رہنا پسند کیا۔ انہیں دیگر تین قیدیوں کے ساتھ رکھا گیا جو سیاسی قیدی نہیں تھے۔شروع میں ان میں سے دو زبیر سے ناخوش تھے۔ وہ اس لئے کہ میڈیا میں ان کو زبیر کے بارے میں جو کچھ بتایا گیا وہ انہوں نے پڑھا تھا، لیکن ایک دن بعد ہی ان دونوں نے کہا کہ تم ویسے نہیں لگتے جیسا ہم نے تمہارے بارے میں سوچا تھا۔تمہارے خلاف جو کچھ ہو رہا ہے سارا محض پروپگنڈہ ہے۔
باعزت سلوک ر ہا: دوران حراست کوئی غلط سلوک نہیں رہا۔ چونکہ کیس ہائی پروفائل تھا، ملک اور دنیا بھر کے عوامی حلقوں سے زبیر کو زبردست حمایت مل رہی تھی یا پھر وکلاء کی ٹیم کی طرف سے جو مسلسل دباؤ ڈالا جا رہاتھا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ زبیر کے ساتھ سلوک کافی اچھا رہا۔زیبر کہتے ہیں کہ اگر میں نے کھانا ایک گھنٹہ تاخیر کر لیا تو دوبارہ کھانا آجاتا۔ جب انہیں اترپردیش کے سیتا پور لے جایا جا رہا تھا تو پولیس افسروں نے ان سے کہا کہ ان کو کسی طرح کا نقصان نہ پہنچے اس با ت کو یقینی بنایا جائے گا۔ میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ تمام سیاسی قیدیوں کے ساتھ ایسا ہی سلوک ہو تا ہو گا لیکن اس معاملہ میں میں خوش نصیب ہوں۔
سیاسی قیدیوں سے ملاقات؛ ہم میں یہ جاننے کا تجسس تھا کہ کیا قید کے دوران زبیر نے دیگر سیاسی قیدیوں سے ملاقات کی۔ خاص طور پر ان سے جن کو سی اے اے تحریک کے سلسلہ میں مقید رکھا گیا ہے۔ اس پر زبیرکاجواب رہا’نہیں‘۔سی اے اے تحریک کے سلسلے میں گرفتار قیدیوں کو جیل نمبر2میں رکھا گیا ہے جبکہ زبیر کو جیل نمبر 4میں قید کیا گیا تھاجو کہ پہلی بار جیل آنے والوں کے لئے مخصوص ہے۔وہ ان سے ملنا پسند کرتے لیکن اس کے لئے موقع نہیں تھا۔ لیکن انہوں نے سابق وزیر سجن کمار سے ملاقات کی جو 1984کے مخالف سکھ فسادا ت کے کیس میں سزا کاٹ رہے ہیں، اس کے علاوہ دیگر اہم کیسوں کے چند قیدیوں کو وہ صرف دیکھ سکے۔
محمد زبیر کے والد محمد رفیع کہتے ہیں کہ میرا بیٹا جو کچھ کر رہا ہے اس پر انہیں فخر ہے۔ انہوں نے کہا کہ 20دن زبیر کے ساتھ نہ ہونے کی انہیں فکر ضرو ر ہوئی لیکن آخر میں سچ کی جیت ہوئی۔
زبیر اپنے ساتھی پرتیک سنہا کے شکر گزار ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پرتیک اس مرحلہ میں ہر قدم پر ان کے ساتھ رہے۔ انہوں نے وکیلوں کے سارے معاملہ کو خود ہی سنبھالا۔ جس وقت پولیس والو ں نے ان کو اٹھایا اس وقت سے وہ مسلسل ٹوئٹ کر رہے تھے۔ پرتیک کے ساتھ ان کی ماں نرجھری سنہا نے مسلسل تعاون کیا۔
زبیر جسٹس چندر چوڈ کے فیصلہ پر بہت مسرور ہیں اور اس فیصلہ کو وہ ایک تاریخی فیصلہ مانتے ہیں۔ نہ صرف سپریم کورٹ نے انہیں موجودہ کیسوں سے ضمانت دی بلکہ اس موضوع پر مستقبل میں دائر ہونے والے ایف آئی آر سے بھی ضمانت دینے کا حکم سنایا۔ ساتھ ہی اس معاملہ میں اترپردیش پولیس کی طرف سے قائم کی گئی ایس آئی ٹی کو ختم کردیا۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ سپریم کور ٹ نے انہیں ٹوئٹ لکھنے سے نہیں روکا۔
مستقبل کے منصوبے: مستقبل کے بارے میں کیا سوچا ہے۔ اس پر زبیر کا کہنا ہے کہ میں نیا فون خریدنے کا انتظار کر رہا ہوں۔ ان کا پرانا فون اب بھی دہلی پولیس کے پاس ہے اور اس کے واپس ملنے میں چھ ماہ لگ سکتے ہیں۔ نئے فون میں سم ڈال کر ٹوئٹر ڈاؤن لوڈ کریں گے اور ٹوئٹ کرنا شروع کریں گے۔
(بشکریہ: روزنامہ سالار ، بنگلورو ، بتاریخ : 24؍جولائی 2022)