خلیجی عرب ریاستیں ٹرمپ کی آمد سے خوش
دبئی 24جنوری(ایس اونیوز/آئی این ایس انڈیا)خلیجی عرب ریاستیں وہائٹ ہاؤس کا سربراہ بدلنے پر کھلم کھلا تو نہیں لیکن خوشی کا اظہار کر رہی ہیں۔ اس کی وجہ امریکی صدرڈونلڈ ٹرمپ کا خطے میں اُن کے حریف ملک ایران کا مخالف ہونا ہے۔تجزیہ کاروں کے مطابق دنیا بھر میں جہاں ایک طرف بہت سے ممالک نے ٹرمپ کی تقریبِ حلف برداری کے خطاب کو تشویش سے سنا وہیں خلیجی عرب ریاستیں نئے امریکی صدر کی جانب سے کافی پُرامید نظر آتی ہیں۔ خلیجی حکمران ٹرمپ میں ایک ایسا مضبوط صدر دیکھ رہے ہیں جو خطے میں امریکاکے کردار کے حوالے سے اس کے اسٹریٹیجک رول کو مزید مستحکم کرے گا۔خاص طور پر سعودی عرب باراک اوباما کی رخصتی سے مطمئن دکھائی دیتا ہے۔ اس کی وجہ غالباََسعودی عرب کے نزدیک سن 2015میں ایران کے جوہری پروگرام کااثرکم کرنے کے لیے معاہدے کو ریاض کے ساتھ امریکی اتحاد بنانے کے مقابلے میں اوباما حکومت کا زیادہ اہمیت دیناہے۔امریکا؎اورسعودی عرب کے درمیان تعلق مشرقِ وسطی کی سلامتی کے ستون کے طور پر دیکھا جاتا ہے تاہم اس تعلق کوسن 2011 میں عرب بہار کے بعد سے ایران کی طرف امریکی جھکاؤ کے بعد نقصان پہنچا ہے۔امریکا اور خلیجی ممالک کے مابین شام کے مسئلے پر اُس وقت سے کشیدگی ہے جب سابق صدر باراک اوباما نے شامی صدر بشار الاسد کے خلاف بر سرِ پیکار باغیوں کو امداد دینے کے عرب ممالک کے مطالبے کو مسترد کر دیا تھا۔ صدر بشار الاسد ایران اور روس کی حمایت کے باعث مضبوط ہوئے۔ ایک تجربہ کار سعودی سیاسی مبصر عبدالرحمان الراشد کے مطابق، ٹرمپ اس قسم کے انسان دکھائی نہیں دیتے جو ایران یا کسی بھی دوسرے ملک کی جانب جھکاؤ ظاہر کریں گے۔چند خلیجی عربوں کے خیال میں ریاض اور تہران میں جاری اثر و رسوخ کی جنگ کو، جو شام، یمن اور بحرین میں لڑی جا رہی ہے، اوباما کی مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کی ترجیح کو خوش آمدید نہیں کہا گیا۔