نئی دہلی، 21/مئی (ایس او نیوز ) سپریم کورٹ میں منگل کو وقف ترمیمی ایکٹ کے خلاف دائر عرضیوں پر تفصیلی سماعت ہوئی، جس میں مسلم فریق کی جانب سے کپل سبل، نظام پاشا اور دیگر سینئر وکلاء نے ۳؍ گھنٹے ۴۵؍ منٹ تک اپنے دلائل پیش کیے۔ عدالت نے سماعت کو بدھ تک ملتوی کرتے ہوئے واضح کیا کہ اس معاملے کی مزید تفصیل سے جانچ ضروری ہے۔ عرضی گزار تنظیموں، جن میں جمعیۃ علمائے ہند، آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ اور دیگر شامل ہیں، نے قانون کو آئین کی روح کے منافی قرار دیتے ہوئے اس پر فوری عبوری روک لگانے کی اپیل کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ ترمیم مسلمانوں کے مذہبی، سماجی اور قانونی حقوق پر حملہ ہے جسے کسی صورت قبول نہیں کیا جا سکتا۔
چیف جسٹس بی آر گوئی اورجسٹس جارج مسیح کی ۲؍ رکنی بنچ نے منگل کو سماعت کے اوائل میں ہی زبانی مشاہدے میں یہ واضح کردیاتھاکہ قانون پر روک لگانے کیلئے عرضی گزاروں کومضبوط دلائل پیش کرنے ہوں گے، اس پر عرضی گزاروں کے وکلاء نے مدلل اورپرزور دلائل پیش کرتے ہوئےوقف ترمیمی قانون کو پوری طرح سے غیر آئینی وغیر قانی قرار دیا۔
بحث کا آغاز جمعیۃ علماء ہند (مولانا ارشد مدنی) کے وکیل کپل سبل نے کیا۔ انہوں نے کہاکہ اگر اس قانون پر روک نہ لگائی گئی تو ناقابل تلافی نقصان ہو گا۔ سبل نے سالیسٹر جنرل تشار مہتا کے اس اعتراض کو بھی مسترد کردیاکہ بحث صرف ۳؍نکات پر ہونی چاہئے۔ سبل نے کہا کہ سابق چیف جسٹس سنجیو کھنہ کی بنچ نے گرچہ ۳؍ خصوصی نکات اٹھائے تھے، لیکن کہیں بھی انہوں نے اس کو محض ۳؍ نکات تک محدود نہیں کیا۔
سبل نے حکومت کی بدنیتی کو اجاگر کرتے ہوئے کہاکہ وہ و قف کے املاک پر قبضہ کرنا چاہتی ہے۔ انہوںنےنشاندہی کی کہ نئے ترمیمی قانون میں حکومت کے ایک افسر کو وقف املاک کے تنازع کا فیصلہ کرنے کااختیار دیا گیا۔ جیسے ہی یہ افسروقف کے تنازع کا فیصلہ کرے گا، وقف ملکیت کی حیثیت ختم ہوجائے گی۔ انہوں نے مزیدکہاکہ حکومت نے وقف کے اس تصور کو بھی ختم کردیاکہ جو چیز ایک بار وقف ہوجائے وہ ہمیشہ کیلئے وقف رہے گی۔
سبل نے کہا کہ گزشتہ قوانین میں رجسٹریشن نہ کرانے سے وقف متاثر نہیں ہوتا تھا البتہ متولیان پر جرمانہ عائد ہوتا تھا۔ نئے قانون کے تحت وقف کی کسی ملکیت کا اگر کا رجسٹریشن نہ ہوا تو اسے وقف نہیں سمجھا جائے گا۔ جمعیت علماء کے وکیل نے مزید کہاکہ وقف بائی یوزرکے تحت وقف املاک کے رجسٹریشن کو۱۹۵۴ء میںضروری قرار دیا گیاتھا، لیکن رجسٹریشن نہ کرانے پر وقف املاک کی حیثیت کسی طرح متاثر نہیں ہوتی تھی۔ وقف بائی یوزر کے رجسٹریشن کیلئے واقف کی تفصیلات دینا ضروری ہے جو قدیم املاک کے معاملے میں ممکن نہیں ۔ واضح رہے کہ ’وقف بائی یوزر‘ وقف کی وہ زمینیں ہیں جو بطور وقف استعمال ہورہی ہیں مگر ان کے وقف کئے جانے کاکوئی دستاویز ہےنہ کہیں کوئی اندراج ہے۔ مثال کے طور پر پرانے قبرستان یا مساجد۔
سبل نے نئے ترمیمی قانون کی دفعہ ’’۳؍ڈی‘‘کو خطرناک دفعہ قرار دیا اور بنچ کی توجہ اس کی جانب مبذول کرائی۔ انہوں نے کہاکہ آثار قدیمہ کےتحت محفوظ قرار دیئے جانے کے باوجود وقف املاک کی حیثیت ختم نہیں ہوتی تھی۔ سبل نے اس کیلئے دہلی کی جامع مسجد کی مثال دی، لیکن نئے قانون کی دفعہ۳؍ ڈی ان تمام املاک کی وقف کی حیثیت کو ختم کردیتی ہے جنہیں آثار قدیمہ کے تحت محفوظ قرار دیا گیا ہے۔ انہوں نے اس کو آئین کے آرٹیکل ۱۴، ۲۵؍ اور۲۶؍ کی خلاف ورزی قراریا۔
سبل نے وقف بورڈ اور کونسل میں غیرمسلم اراکین کی شمولیت کو بھی آرٹیکل ۲۵؍ اور ۲۶؍ کی خلاف ورزی قرار دیا۔ انہوںنے کہاکہ پہلے بورڈ کےسی ای او کا مسلمان ہونا ضروری تھا، لیکن دفعہ ۲۳؍ میں تبدیلی کردی گئی جس کی وجہ سے غیر مسلم سی ای او بھی ہوسکتا ہے۔ انہوںنے سروے کمشنر کو ختم کرکے اس کی جگہ ضلع انتظامیہ کو سروے کی ذمہ داری دینے کوبھی غیر مفید قرار دیا۔ انہوںنے واضح کیا کہ وقف کوئی سیکولر سرگرمی نہیں بلکہ خالص مذہبی معاملہ ہے۔
ڈاکٹر راجیو دھون نے مذکورہ قانون کی دفعہ ۳؍اے پر سوال اٹھایا اور کہاکہ اس کے ذریعہ مسلمانوں کے ٹرسٹ کو وقف سے باہر رکھا گیا ہے۔ حالانکہ دونوں کے مقاصد ایک جیسے ہیں۔ ایڈوکیٹ ابھیشیک منو سنگھوی نے کہاکہ جس طرح سے زرعی قوانین کے خلاف عبوری حکم پاس کیا گیا، اسی طرح اس معاملہ میں بھی حکم جاری کیا جائے۔ انہوں نے حکومت کے ذریعہ وقف کی جائیداد میں بےپناہ اضافہ کے دعویٰ کو بھی غلط قرار دیا۔ سینئر ایڈوکیٹ سی یو سنگھ نے کہاکہ وقف کیلئے رجسٹریشن کی شرط کبھی بھی نہیں تھی جبکہ سینئر ایڈوکیٹ حذیفہ احمدی نے وقف جائیدادوں پر لمیٹیشن ایکٹ لاگو کرنے اور دفعہ ۳؍ ڈی کے خلاف دلائل پیش کئے۔ انہوں نے کہاکہ ۳؍ ڈی پر فوری روک پر زوردیا ورنہ قدیم مساجد وقف نہیں رہ جائیںگی۔ قانون کے خلاف دلائل کے پیش ہوجانے کے بعد امید ہے کہ بدھ کو کورٹ حکومت کے دلائل سنے گا۔