مرکزی حکومت کو مغربی بنگا ل کے اندر اپنے آپ کو ذلیل کروانے میں مزہ آتا ہے ۔ اس لئے اس نے صوبائی حکومت کے دو وزرائ سبرتو مکھرجی اور فرہاد حکیم کو سی بی آئی کے ذریعہ ناردا اسٹنگ معاملے میں گرفتار کروایا ۔ اس سے برہم وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی اپنے کارکنان کے ساتھ سی بی آئی کے دفتر پہنچ گئیں اور سوال کیا کہ اسی معاملےمیں ملوث بی جے پی کے رہنما مکل رائے اور شو بھندو ادھیکاری کو کیوں گرفتار نہیں کیا گیا؟ ان دونوں وزرا کے علاوہ ترنمول کانگریس کے ممبر اسمبلی مدن مترا اور سابق مئیر شو بھن چڑجی کی بھی گرفتاری ہوئی ۔ ان کا قصور یہ ہے کہ وہ بھی رائے اور ادھیکاری کی مانند ترنمول کانگریس چھوڑ کر بی جے پی میں چلے گئے تھے لیکن ٹکٹ سے محرومی کے سبب ’صبح کا بھولا شام کو گھر لوٹا آیا‘ اور کامیاب بھی ہوگیا۔ اب بی جے پی نے انہیں سزا دینے کا فیصلہ کیا تو ٹیم ایم سی کے کارکنان سی بی آئی کے دفتر پر توڑ پھوڑ مچادی۔ شام ہوتے ہوتے چاروں کو پیشگی ضمانت مل گئی اور پتوں کی کامیابی پر کمل ہاتھ ملتا رہ گیا۔ بنگلا میں بی جے پی کے ہاتھ بار بار سوائی ہاتھ آرہی ہے لیکن وہ سبق سیکھنے کے بجائے ضدی بچے کی مانند مچل جاتی ہے۔ سبی آئی شاہ جی کے اشارے پر اپنی ہی عدالت کے فیصلے کو ہائی کورٹ میں چیلنج کردیا اور اس نے ضمانت پر روک لگادی۔
شاہ جی گزشہ 6 ماہ سے کورونا کی جان لیوا وبا کو بھو ل بھال کر ممتا کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں ۔ انہیں کی مہربانی سے مغربی بنگال میں اسمبلی انتخابات کے نتائج امن کے بجائے تشدد کا پیغام لے کر وار د ہوئے ۔ انتخابی نتائج کے بعد شروع ہونے والے تشدد میں مہلوکین کی تعداد 20 تک پہنچ گئی۔ ذرائع کے مطابق ان میں 9 کا تعلق بی جے پی اور 8 کا ٹی ایم سی سے ہے ۔ ایک سی پی ایم ور ایک آئی ایس ایف سے متعلق ہے۔ ایک ایسا بد نصیب بھی ہے کہ جس کا کسی سیاسی جماعت سے تعلق نہیں تھا۔ اس تشدد پر ایک طرف بی جےپی اور ترنمول کے مابین لفظی مہا بھارات برپا لیکن اسی کے ساتھ وزرات داخلہ نے تشدد سے متعلق رپورٹ طلب کر کے جائزہ لینے کی خاطر ایک وفد بھی روانہ کردیا ہے۔ بی جے پی بڑئی شدومد کے ساتھ اپنے حامیں کے نشانہ بنائے جانے کا شور مچارہی ہے۔ وزیر اعظیم کو 2002 کے فسادات کی یاد دلانے والی کنگنا رناوت نے بھی سوچا بھی نہیں ہوگا کہ مودی جی کے ہوتے سنگھی بہادروں کو مغربی بنگال سے بھاگ کر آسام جانے کی نوبت آئے گی۔ ویسے یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ آسامی نہ بنگلادیش سے آنے والے بنگالیوں کے بھی اتنے دشمن ہیں جتنے مغربی بنگال باشندوں کے ہیں۔ وہ کسی صورت ان کا نام این آڑ سی میں شامل نہیں ہوں گے اور نہ سی اے اے کا چور دروازہ کھولیں گے۔
دوسرے کے گھروں اور دوکانوں کو آگ لگانے والی بھارتیہ جنتا پارٹی کے ریاستی صدر دلیپ گھوش اپیہ پارٹی کے دفاتر میں آتشزدگی کی مبینہ ویڈیو بھی شیئر کر کے آنسو بہار ہے میں گھوش نے کہا کہ بدقسمتی سے جب کو وڈ 19 کا بحران عروج پر ہے تو ریاست میں انتخابات کے بعد کے تشد د بر پا ہے۔ وہ بھول گئے کہ مغربی بنگال میں انتخاب کے وقت بھی کو رونا کازوروں پر تھالیکن اقتدارکی ہوس نے ان لوگوں کو اندھا کر دیا تھا ۔وزیر داخلہ امیت شاہ کی توجہ جب اس جانب مبذول کرائی جاتی تھی تو عجیب و غریب دلائل دیتے تھے۔ کبھی کہتے کہ مہاراشٹر اور دہلی میں کون سا انتخاب ہور ہا ہے اور بھی کہتے چونکہ بی جے پی کے مخالفین کو ان کی شکست کا خون ستار ہا ہے اس لیے وہ انتخابی مہم کو مختصر کر کے آخری چارمراحل کا انتخاب ایک ساتھ کروانا چاہتے ہیں ۔اب جبکہ بی جے پی کو پتہ چل گیا ہے کس کی ہا ر ہوئی اور کون جیت گیا تو اسے کو رونا کارونا آر ہا ہے ریاستی صدر دلیپ گھوش نے ایشن میشن سے گہار لگانے کی بات تو کی مگر بھول گئے کہ جس وقت یہ تشد دہور ہا تھار یاست کا نظم ونسق ممتا کے نہیں کمیشن کے باتھوں میں تھا۔ یہی وجہ ہے کہ گورنر جگدیپ دھنکڑ نے جب حلف برداری کے بعد ممتا بنرجی سے موجودہ صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا تو وہ بولیں ابھی تک کمیشن کے ہاتھوں میں کاپن ہے اب میں سنبھالوں کی تو قابو میں کروں گی ۔ وزیر اعظم کے کہنے پرگورنر نے ڈائریکٹر جنرل آف پولیس اورکولکاتہ پولیس کمشنر کوبھی طلب کیا مگر ممتا بنرجی نے نہلے پر دہلہ مارتے ہوئے ان کا تبادلہ کردیا ۔
سنگھ کی طلبانتظیم اے بی وی پی نے الزام لگایا کہ ٹی ایم سی پارٹی کے کارکنان نے جان بو جھ کر ہند و دیوتاؤں اور مجاہد آزادی کے مجسموں کی بے حرمتی کی آئی ٹی سیل نے اس موقع پر ہواسازی کے لیے جعلی ویڈیوز کا طوفان برپا کر دیا حالانکہ ان میں سے بیشتر کی تردید ان میں نظر آنے والے افراداورانتظامیہ کر چکا ہے۔ ٹی ایم سی بھی بی جے پی والوں پر اپنے کارکنان کے قتل کا الزام لگارہی ہے اور سنگھی پروپگنڈے کو پرانی تصاویرکاپلند و بتا رہی ہے ۔ یہ جب تماشا ہے کہ بی جے پی کے مطابق نندی گرام میں ممتابنرجی پر حملہ ہوتو ٹی ایم سی والے حملہ کرتے ہیں اوروز مملکت برائے امور خارجہ اور پارلیمانی اموروی مرلی دھران کے قافلے پر حملہ کرنے والے بھی وہی لوگ ہوتے ہیں ممتابنر جی اگر اپنے اوپر حملے کانا ٹک کرسکتی ہیں تو بی جے پی کیوں نہیں کرسکتی جبکہ سب سے نا ٹک باز تو وہی ہے ۔ ایسے میں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ اپنے آپ کو سمراٹ اشوک کی اولاد سمجھنے والے بی جے پی کے کاغذی شیروں نے کیا متا بنرجی کی چوڑیاں پہن کر اپنے ہاتھوں میں مہندی لگارکھی ہے؟
بی جے پی کی قدیم حلیف شیوسینا نے جواس کی ریشہ دوانیوں سے خوب واقف ہے اپنے تر جمان ’سامنا‘ کے اداریہ میں لکھا ہے کہ مغربی بنگال میں حقیقت میں کیا ہو رہا ہے اور اس کے پیچھے غیبی طور پرکس کا ہاتھ ہے؟ یہ چیزیں واضح ہوئی چاہیئں۔ جب سے ریاست میں بی جے پی کو شکست فاش ہوئی ہے تبھی سے تشدد کی خبریں موصول ہورہی ہیں ۔ ایسا کہا جار ہا ہے کہ ترنمول کانگریس کے کارکنان نے بی جے پی کے کارکنان کے ساتھ مار پیٹ کی لیکن یہ سب غلط تشہیر ہے شیوسینا نے تو گویا شک کی سوئی بی جے پی کی جانب گھمادی ہے ۔سامنامزیدلکھتا ہے کہ وزیراعظم نریندر مودی نے مغربی بنگال کے گورنر سے بات کر کے حالات سے آگاہی حاصل کی۔ بی جے پی کے ایک اعلیٰ عہد یدار نے بھی ہائی کورٹ کا رخ کر کے ممتا بنر بی کو تشد د کاذمہ دارقرار دیا اور ریاست میں گونر راج تک نافذ کرنے کامطالبہ کر ڈالا ۔
اس سے یہ ظاہر ہو تا ہے کہ بی جے پی سازش کر رہی ہے ۔ اداریہ میں کو رو ناوائرس کی تباہی کے دوران فسادات پرسیاست اور دلیپ گھوش وآدتیہ ناتھ کی انتخابی تشہیر پرتنقید کی گئی۔ بی جے پی فسادات کی سیاست میں کس قدر نیچے کرتی ہے اس کا اندازہ کمال چالا کی سے کیے جانے والے ایک ٹویٹ سے کیا جاسکتا ہے جس میں لکھا گیا تھا کہ معذرت امیت شاہ ، میں نے تم پر بھروسہ کیا تمہیں ووٹ دیالیکن اب میری عصمت دری کی جارہی کیونکہ تم الیکشن بار گئے ۔ براۓ کرم مجھے آبروریزی سے بچائیں۔ آپ کے پاس مرکز میں 303 نشستیں ہیں۔ اس طرح بغیر ریڈھ کی ہڈی والا نہ بنیں۔ ‘‘ اس ٹویٹ کے بعد ٹو میٹر پر ہیش ٹیگ # ممتا کو گرفتار کر یں # بنگال تشدد # بے ریڈھ کی ہڈی والی بی جے پی چل پڑا۔ اس ٹویٹ کے ساتھ الگ سے یہ بھی لکھ کر تشہیر کی گئی کہ وزیراعظم اور وزیر داخلہ کا اقتدار قائم کرنے والوں کو بنگال میں قتل کیا ہار ہا ہے ۔اگر آپ ان کی حفاظت نہیں کر سکے تو بزدل کہلاوگے ۔ آپ بزدل نہیں ہیں اس لیے صرف گفتگو کرنے کے بجائے سخت اقدام کریں۔ اس کے بھیشما پتا مہا کہلانے کی عار دلا کر بہت ساری بکواس کی کئی ٹویٹ میں دکھائی پانے والی تصویر کی تفتیش سے پتہ چلا کہ یہ 6 نومبر 2020کو بی جے پی آئی ٹی سیل کے سر براہ کے ذریعہ سب سے پہلے مشتہر کی گئی تھی۔ وزیر داخلہ امیت شاہ نے جب بانکورو کے اندرایک قبائلی بی بھیشان بانڈا کے گھرکھانا کھایا توان کی بیٹی کے ساتھ تصویر کھنچوائی گئی تھی۔ یہ سراغ مل جانے کے بعد بوم نامی ادارے نے تفتیش کے لیے لڑکی کے والد سے رابطہ کیا تو انہوں نے بتایا اوران کی بیٹی محفوظ و مامون میں ان کے علاقہ میں کوئی تشد دنہیں ہوا۔ ان کی بیٹی کے حوالے سے پھیلائی جانے والی رپورٹ جھوٹی ہے ۔ مذکور لڑکی بارہویں جماعت کی طالبہ ہے۔ بانکورہ پولیس سے لوجکل انڈیا نے رابطہ کیا تو اس نے بھی لا علمی کا اظہار کر دیا۔ اس طرح یہ بات ثابت ہوئی کہ سماجی رابطے کے ذرائع میں پھیلائی جانے والی یہ خبر سراسر جھوٹ پرمبنی ہے ۔اس قبیل کی دیگر خبروں پر بھی اس سے قیاس کیا جاسکتا ہے۔ ایسے میں یہ سوال کیا جاسکتا ہے کہ آخر اس ڈرامہ بازی کی وجہ کیا ہے؟
ہندوستان کے اکثریتی فرقہ کے لیے اس کے جواب کی رسائی مشکل ہے مگر اقلیتوں کے لیے سہل ہے کیونکہ وہ اس صورتحال سے گزرتے رہے ہیں فی الحال بی جے پی جس طرح ہندووں کی ہمدرد بن کر ان کا سیاسی استحصال کر رہی ہے اسی طرح کا معاملہ برسوں تک مسلمانوں کے ساتھ سیکولر جماعتوں کی جانب سے روارکھا جاچکا ہے۔ وہ لوگ مسلمانوں کے اندرعدم تحفظ کے احساس کو خوب بڑھاتے تھے اور خو دکو نجات دہندہ بنا کر پیش کرتے تھے تا کہ مسلمان ان کی پناہ میں اپنے لیے عافیت سمجھیں۔ یہ کھیل ایسے وقت میں زیاد وشدومد سے کھیلا جاتا تھا کہ جب کسی اور پارٹی خاص طور پر بی جے پی کو کامیابی ملتی ۔فرقہ وارانہ فساد کے بعد مسلمانوں کو اپنی غلطی کا احساس دلایا جاتا کہ اگر وہ انہیں ووٹ دیتے تو ایسانہ ہوتا۔ اس سے یہ پیغام بھی جاتا کہ آئندہ اس طرح کی مٹی کو دو ہرایانہ جائے ۔ بی جے پی اپنے اوچھے پرو پگنڈے کے ذریعہ فی الحال بنگال کے ہندووں کو ان کی مٹی کا احساس دلا رہی ہے نیز اس تشدد کے بہانے بنگال میں صدر راج نافذ کر کے اقتدار پر غیر قانونی قبضہ کرنے کا خواب دیکھ رہی ہے ۔ ایسا کرنے کے نتیجے میں ممتا بنرجی کے تئیں عوام کی ہمدردی میں مزید اضافہ ہوگا اور انتخاب میں وہ پھر سے کامیاب ہو جائیں گی ؟ بی جے پی یہ غلطی پچھلی مرتبہ کر چکی ہے اس لیے اسے اپنی گزشتہ نا کامی سے عبرت پکڑ کر ایسا کرنے سے گریز کرنا چاہیے مگر ظالم ایسا کم ہی کرتے ہیں؟ ایسے لوگوں کے بارے میں ارشاد ربانی ہے: اس طرح فرعون کے لیے اس کی بدعملی خوشنما بنادی گئی اوروہ راہ راست سے روک دیا گیافرعون کی ساری چا ل بازی ( اس کی اپنی تباہی کے راستہ ہی میں صرف ہوئی ‘‘۔
( بشکریہ : ممبئی اردو نیوز، بتاریخ 19؍مئی 2021)
تجزیہ خبر: ڈاکٹر سلیم خان