ساحل آن لائن - سچائی کا آیئنہ

Header
collapse
...
Home / ملکی خبریں / پہلگام حملے کے بعد مسلمانوں کے خلاف ملک بھر میں 184 نفرت انگیز واقعات؛ اے پی سی آر رپورٹ میں انکشاف

پہلگام حملے کے بعد مسلمانوں کے خلاف ملک بھر میں 184 نفرت انگیز واقعات؛ اے پی سی آر رپورٹ میں انکشاف

Fri, 16 May 2025 16:35:34    S O News
پہلگام حملے کے بعد مسلمانوں کے خلاف ملک بھر میں 184 نفرت انگیز واقعات؛ اے پی سی آر رپورٹ میں انکشاف

نئی دہلی 16/مئی (ایس او نیوز): جموں و کشمیر کے پہلگام میں گزشتہ ماہ پیش آئے دہشت گردانہ حملے کے بعد ملک بھر میں مسلمانوں کے خلاف نفرت، تشدد، ہراسانی اور معاشرتی بائیکاٹ جیسے واقعات میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔ شہری حقوق کے لیے سرگرم تنظیم "ایسوسی ایشن فار پروٹیکشن آف سول رائٹس" (APCR) کی حالیہ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ صرف دو ہفتوں کے اندر 19 ریاستوں میں 184 نفرت پر مبنی جرائم ریکارڈ کیے گئے، جن میں سے 106 واقعات میں براہِ راست پہلگام حملے کا حوالہ دیا گیا ہے۔

178 صفحات پر مشتمل اس فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ میں ان واقعات کو انفرادی یا اتفاقی نوعیت کے بجائے ایک منظم اور منصوبہ بند مہم کا حصہ قرار دیا گیا ہے، جس کا مقصد ملک میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کا ماحول پیدا کرنا اور اکثریتی برادری کے ذہنوں میں زہر بھرنا بتایا گیا ہے۔ اے پی سی آر کے مطابق ان واقعات میں شدت پسند دائیں بازو کی جماعتوں اور ہندوتوا نظریات کے حامل گروہوں کا مرکزی کردار رہا ہے، جنہوں نے پہلگام حملے کو مسلمانوں کے خلاف نفرت بھڑکانے کے ایک "آلے" کے طور پر استعمال کیا۔

رپورٹ کے مطابق ان 184 واقعات میں کم از کم 316 افراد کو نشانہ بنایا گیا، جنہیں یا تو جسمانی تشدد، ہراسانی، معاشی بائیکاٹ، یا بعض صورتوں میں جبری بے دخلی جیسے اقدامات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سب سے زیادہ 43 واقعات اتر پردیش میں ریکارڈ کیے گئے، جب کہ مہاراشٹرا اور اتراکھنڈ میں 24، مدھیہ پردیش میں 20 اور دہلی، ہماچل پردیش اور بہار میں بھی درجنوں واقعات پیش آئے۔ علاوہ ازیں کرناٹک، پنجاب اور چندی گڑھ میں بھی سنگین نوعیت کے حملے رپورٹ کیے گئے۔

جرائم کی نوعیت کے لحاظ سے 84 واقعات نفرت انگیز تقاریر، 78 دھمکی آمیز اقدامات، 42 ہراسانی، 39 جسمانی حملوں، 19 توڑ پھوڑ، 7 زبانی بدسلوکی، اور 3 قتل کے زمرے میں شامل کیے گئے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق کئی مقامات پر مسلمانوں کی دکانوں کو نذرِ آتش کیا گیا، سوشل میڈیا پر کشمیریوں کے خلاف نفرت آمیز مواد پھیلایا گیا، اور احتجاجی مظاہروں کے دوران مسلمانوں کو ’جہادی‘ اور ’دہشت گرد‘ کہا گیا۔

رپورٹ میں ہریانہ کے امبالہ شہر کا خاص طور پر ذکر کیا گیا ہے، جہاں شدت پسند ہجوم نے "جے شری رام" کے نعرے لگاتے ہوئے مسلم دکانداروں کی دکانیں جلا دیں اور پولیس کی مدد سے انہیں بازار سے ہٹایا گیا۔ اسی طرح مغربی بنگال کے مہیش تلا میں ایک حاملہ مسلم خاتون کو علاج سے انکار کر دیا گیا، اور گائناکالوجسٹ نے پہلگام حملے کا حوالہ دے کر نفرت آمیز زبان استعمال کی۔ مدھیہ پردیش، منگلورو، آگرہ اور بوکارو جیسے شہروں میں مسلمانوں کے قتل کے واقعات بھی رپورٹ میں شامل کیے گئے ہیں۔

رپورٹ مرتب کرنے والی ٹیم کے ایک رکن کے مطابق پہلگام حملے کے بعد پیش آئے واقعات محض ردعمل نہیں تھے، بلکہ اس بات کی علامت ہیں کہ کس طرح منظم انداز میں دائیں بازو کے گروہ مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز مہم چلا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایسے جرائم عام طور پر الگ تھلگ نہیں ہوتے، بلکہ ان کے پیچھے مخصوص حالات، منصوبہ بندی اور بعض اوقات ریاستی اداروں کی خاموش تائید شامل ہوتی ہے۔

انہوں نے یہ بھی بتایا کہ اگرچہ "آپریشن سندور" جیسے اقدامات کے بعد کچھ عرصے کے لیے واقعات کی شدت میں کمی دیکھی گئی، لیکن یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ یہ کمی واقعی جرائم کے کم ہونے کی علامت ہے یا محض رپورٹنگ میں تعطل کی وجہ سے ہے۔

رپورٹ میں یہ انتباہ بھی شامل ہے کہ اگر ریاستی ادارے، عدلیہ اور سول سوسائٹی اس بڑھتی ہوئی نفرت کے خلاف بروقت اور مؤثر اقدامات نہیں کریں گے، تو ملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو شدید خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ اے پی سی آر نے حکومت، میڈیا اور عوامی نمائندوں سے اپیل کی ہے کہ وہ نفرت کے خلاف متحد ہو کر آواز بلند کریں اور اقلیتوں کے تحفظ کو یقینی بنائیں۔

یہ امر بھی قابلِ ذکر ہے کہ اس سے قبل "انڈیا ہیٹ لیب" کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا تھا کہ 2024 میں بھارت میں ہونے والی 74 فیصد نفرت انگیز تقاریر کا نشانہ اقلیتیں بنی ہیں، جن میں سے بیشتر بیانات خود عوامی نمائندوں اور آئینی عہدوں پر فائز افراد کی جانب سے دیے گئے تھے۔


Share: