شمالی کینرا کے "بنگلہ دیش"سے ماہی گیروں کے انخلاء کا خطرہ
کاروار 29؍اپریل (ایس او نیوز)تقریباً تیس سال سے زیادہ کا عرصہ ہوگیا جب کاروار ضلع کے بیت کول میں تجارتی بندرگاہ کی تعمیر کے نام پر 200سے زیادہ ماہی گیرخاندانوں کو سمندری کنارے پر موجوداپنی زمین جائیداد خالی کرکے نیشنل ہائی وے کے کنارے آکر آباد ہونا پڑا تھا۔ اور اس بستی کو ضلع شمالی کینرا کا"بنگلہ دیش "کہا جانے لگا تھا، کیونکہ اتفاق سے یہ وہ زمانہ تھا جب دنیا کے نقشے پر مغربی پاکستان آزاد ہوکر بنگلہ دیش بن گیا تھا۔
حالانکہ اس طرح انخلاء کرکے نئے مقام پر آباد ہونے کے لئے سرکاری طور پر ان ماہی گیروں کو زمین الاٹ کی گئی تھی، مگر وہ پلاٹس ان کے نام پر رجسٹر نہیں ہوئے تھے۔سن 1982میں اس وقت کے وزیر اعلیٰ کرناٹک رام کرشنا ہیگڈے نے ان لوگوں کو پٹہ دیدیا تھا۔ چونکہ سرکار کے پاس ریوینیو کی زمین نہیں تھی، اس لئے ان ماہی گیروں کواین سی سی،ہوم گارڈ، پولیس جیسے مختلف محکمہ جات کی زمین الاٹ کی گئی تھی۔
1982میں جن خاندانوں کو زمین الاٹ کی گئی تھی،ان میں سے 20خاندانوں پر اب دوبارہ یہاں سے انخلاء کی نئی آفت آ ن پڑی ہے۔ ماہی گیر طبقے کے ایک لیڈر مسٹر کے ٹی ٹانڈیل نے بتایا کہ نیشنل کیڈیٹ کارپس (این سی سی ) کی پانچ ایکڑ زمین اس علاقے میں موجود تھی۔ اس وقت کے ڈپٹی کمشنر نے اس میں سے ایک ایکڑ زمین اپنی تحویل میں لیتے ہوئے ماہی گیر خاندانوں کو پٹہ تقسیم کردیا۔او ر یہ کام سروے اور دیگردستاویزی امور انجام دئے بغیر کیا گیا۔اب تقریباً35برسوں کے بعد تنازعہ اس وقت کھڑا ہوگیا ہے جب اس "بنگلہ دیشی'علاقے میں این سی سی کے افسران پہنچے اور اپنی زمین پر ماہی گیروں کے ناجائز قبضے کے سوال اٹھایا ہے۔ این سی سی افسران کا کہنا ہے کہ جو زمین ماہی گیروں کو دی گئی ہے ، ہم اسے واپس لینا نہیں چاہتے ، مگر ماہی گیروں نے بقیہ چار ایکڑ زمین کے کچھ حصوں پر قبضہ کرلیا ہے۔اس لئے انہوں نے حکم دیا ہے کہ جلد سے جلد یہ جگہ خالی کردی جائے۔دفتری کوتاہی کی وجہ سے الاٹ کی گئی زمین کی کوئی باونڈری اور نقشہ نہ ہونے کی وجہ سے بے چارے عوام پریشان ہوگئے ہیں اور انہوں نے سرکار سے مطالبہ کیا ہے کہ سرکار اس میں مداخلت کرتے ہوئے ان کے مسائل کو حل کرے۔