طلاق ثلاثہ بل کے خلاف بھٹکل میں خواتین کا احتجاج؛ کہا،شریعت اسلامی میں مداخلت کسی حال میں منظور نہیں
بھٹکل 21/مارچ (ایس او نیوز) آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کی اپیل پر طلاق ثلاثہ بل کے خلاف آج بدھ کی شام بھٹکل میں خواتین نے ایک احتجاجی جلسہ منعقد کیا جس میں سینکڑوں خواتین نے شرکت کرتے ہوئے پرزور انداز میں اس بل کی مخالفت کی اور کہا کہ اسلامی شریعت میں دخل اندازی کسی بھی صورت میں منظور نہیں ہے۔
قومی و سماجی ادارہ مجلس اصلاح و تنظیم بھٹکل کے زیراہتمام منعقدہ اس احتجاجی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے بنگلور سے تشریف فرما آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ ،ویمن ونگ کی ریاستی رکن انتظامیہ تسنیم شاہ جہاں اور ڈاکٹر آصفہ نثار نے خواتین کو طلاق ثلاثہ بل کے متعلق معلومات فراہم کیں۔ تسنیم شاہ جہاں نے بتایا کہ حکومت اس بل کے ذریعے شریعت اسلامی میں دخل اندازی کررہی ہے، حالانکہ سپریم کورٹ نے واضح کردیا تھا کہ مسلمانوں کے لئے اس طرح کے کسی بل کی قطی ضرورت نہیں ہے۔ انہوں نے اس بل کو نہ صرف دستور ہند ، بلکہ سپریم کورٹ کے ججمنٹ کے بھی خلاف قرار دیا۔ ڈاکٹر آصفہ نثار نے خواتین سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مسلم خواتین کی حفاظت کے لئے اسلامی شرعی قانون پہلے سے قائم ہے اور ہمیں شرعی قانون کے علاوہ مزید کسی قانونی کی ضرورت نہیں ہے۔ انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ طلاق ثلاثہ بل کو فوری واپس لے۔ انہوں نے حکومت کو واضح کیا کہ ہم مسلمان شریعت میں کسی بھی طرح کی مداخلت کو ہرگز برداشت نہیں کریں گے۔
سماجی کارکن زرینہ کولا نے خطاب کرتے ہوئے اس بل کو غیر دستوری قرار دیتے ہوئے اسے مسلمانوں کے لئے ایک سازش قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ بل نہ صرف مسلم مخالف ہے بلکہ یہ انسانیت مخالف اور خاندان مخالف بل ہے۔انہوں نے ہی صدر ہند کے نام انگریزی میں تحریرکئے گئے میمورنڈم کو بھی پڑھ کر سنایا، جس میں کہا گیا ہے کہ بل کو اس قدر عجلت میں منظور کیا گیا ہے کہ اس کے لئے کسی مذہبی رہنما یا اسلامک اسکالر سے بھی رجوع نہیں کیا گیا ہے۔ میمورنڈم میں طلاق ثلاثہ بل کی سخت مخالفت کرتے ہوئے اس بل کو واپس لینے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
احتجاج میں کئی خواتین نے اپنے ہاتھوں میں پلے کارڈس تھام رکھا تھا، جس میں انگریزی ، اُردو اور کنڑا میں تحریر کیا گیا تھا کہ 'مسلم پرسنل لاء میں مداخلت منظور نہیں' ، 'طلاق بل واپس لو۔ واپس لو'، 'طلاق ثلاثہ بل زعفرانی ایجنڈہ کا حصہ'، 'شریعت اسلامی خدائی قانون، اس میں تبدیلی ناقابل برداشت'، 'سپریم کورٹ اور پارلیمنٹ ہمیں کنفیوز نہ کریں'، وغیرہ ۔
اجلاس کا آغاز عائشہ فدا بنت حافظ حشمت اللہ رکن الدین کی تلاوت کلام پاک سے ہوا، خدیجہ تبسم بنت جعفر صدیقہ نے نعت پیش کی۔قمرالنساء نے مہمانوں اور حاضرین کا استقبال کرتے ہوئے مجلس اصلاح وتنظیم کا تعارف پیش کیا، ناظمہ مُنیری نے پروگرام کی نظامت کی، زینت آپا اور فرحت آپا سمیت دیگر ذمہ دار خواتین بھی اسٹیج پر موجود تھیں۔
خیال رہے کہ گزشتہ سال دسمبر کے مہینے میں لوک سبھا میں طلاق ثلاثہ پر ایک قانون پاس ہوا تھا جس کے مطابق طلاق ثلاثہ کو ایک جرم قرار دیا گیا تھا۔ اور ایسا کرنے والے شخص کو تین سال کی سزا تجویز کی گئی تھی۔ یہ قانون ابھی راجیہ سبھا میں منظور ہونا باقی ہے۔ مگر آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ پہلے دن سے ہی اس قانون کی مخالفت کر رہا ہے اس ضمن میں لوک سبھا میں اس قانون کو منظور کرتے ہی آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ نے اُسی ماہ یعنی دسمبر کو لکھنو میں ایمرجنسی میٹنگ کا انعقاد کرتے ہوئے ملک کے وزیراعظم کے نام ایک تحریر روانہ کی تھی اور بل پر نظر ثانی کرنے کی درخواست کی تھی۔
طلاق ثلاثہ بل کو اسلامی شریعت میں مداخلت قرار دیتے ہوئے آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ نے بعد میں ملک کے تمام شہروں اور قصبوں میں مسلم خواتین سے اپیل کی تھی کہ وہ اس بل کی مخالفت میں پرامن احتجاج کریں اور اپنے علاقہ کے اسسٹنٹ کمشنر یا ڈپٹی کمشنر کی معرفت صدر ہند کے نام میمورنڈم پیش کریں۔ بورڈ کی اپیل پر ملک کے بیشتر حصوں میں ہزاروں اور لاکھوں کی تعداد میں خواتین نے سڑکوں پر اُتر کر پرامن احتجاج درج کرچکی ہیں اور بعض مقامات پر احتجاج کی تیاریاں جاری ہیں۔