الیکشن کمیشن آف انڈیا نے پارلیمانی انتخابات کی وی وی پیاٹ چٹھیاں اتنی عجلت میں کیوں ضائع کردیں! دی کوینٹ نے اُٹھائے سوالات
ملک میں انتخابات کے انعقاد سے متعلقہ قانون ’کنڈکٹ آف الیکشن رولس 1961کی دفعہ 94(b)کہتی ہے کہ ”کسی بھی انتخاب میں استعمال شدہ یا پرنٹ کی ہوئی وی وی پیاٹ سلِپس کو ایک سال تک محفوظ رکھنا چاہیے اور اس کے بعد ضائع کرنا چاہئے۔“ لیکن’دی کُونٹ‘ نے پتہ لگایا ہے کہ الیکشن کمیشن آف انڈیا نے 2019کے پارلیمانی انتخابات میں پرنٹ کی گئی وی وی پیاٹ کی چٹھیاں ضائع کردی ہیں۔اور وہ بھی مئی 2019میں انتخابات کے نتائج کا اعلان ہونے کے صرف چار مہینے کے اندر!
الیکشن کمیشن کا جواب: آر ٹی آئی کے تحت ’دی کُوِنٹ‘ کی جانب سے پوچھے گئے سوال پر دہلی الیکشن کمیشن کے انفارمیشن آفیسر نے جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ ”وی وی پیاٹ سلِپس ضائع کردی گئی ہیں۔“اس سلسلے میں مورخہ 24ستمبر 2019کو الیکشن کمیشن نے تمام ریاستوں اور مرکزی حکومت کے زیر انتظام علاقوں کے چیف الیکٹوریل آفیسرز ”وی وی پیاٹ کی پرنٹ کی گئی کاپیاں ضائع کردینے“ کا جو حکم نامہ جاری کیا تھا، اس کی نقل بھی جواب کے ساتھ منسلک کی گئی ہے۔
آخراتنی عجلت کیوں؟: اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ الیکشن کمیشن نے اتنی عجلت یعنی محض 4مہینوں کے اندر وی و ی پیاٹ کی چٹھیاں ضائع کرنے کا حکم آخر کس لئے جاری کیا تھا؟ جبکہ یہ چٹھیاں پورے ایک سال تک ایک اہم ثبوت کی حیثیت اور اہمیت رکھتے ہیں کہ کس طرح میں نے یا آپ نے ووٹ ڈالا تھا۔ ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ جب ہم اپنا ووٹ کسی کے حق میں پول کرتے ہیں تو وی وی پیاٹ یہ دکھاتا ہے کہ ہم نے کسے ووٹ ڈالا ہے۔ اگر ہم نے جس امیدوار کو ووٹ دیا تھا، اگر اس کا نام پیاٹ پر نظر نہیں آیا تو فوری طور پر ہم ووٹنگ بوتھ میں موجود الیکشن آفیسر کو اس کی اطلاع دے سکتے ہیں۔
یہ ایک اہم ثبوت ہے: دی کونٹ نے اس سے پہلے ووٹنگ میں کسی قسم کی بدعنوانی کیے جانے پر بطور ثبوت وی وی پیاٹ کی چٹھیوں کی اہمیت کے سلسلے میں رپورٹ پیش کی تھی۔ہم نے بتایا تھا کہ ہر ایک پولنگ بوتھ میں بیلٹ یونٹ اور وی وی پیاٹ کو اس طرح جوڑا جاتا ہے کہ جب ہم ووٹ پول کرتے ہیں تو سب سے پہلے یہ وی وی پیاٹ مشین میں ریکارڈ ہوجاتا ہے اور اس کے بعد ہی یہ ای وی ایم کے کنٹرول یونٹ میں چلاجاتا ہے۔
چھیڑ چھاڑ کے امکانات تھے: دی کوِنٹ نے یہ بھی دکھایا تھا کہ کس طرح ہرایک پولنگ بوتھ کے لئے وی وی پیاٹ مشینوں کی نشاندہی کردئے جانے کے بعد2 ہفتوں تک ان کا معائنہ کرنے، اس کی حالت برقرار رکھنے اور اس کی پروگرامنگ کرنے کی ذمہ داری حکومت کی طرف سے پرائیویٹ انجینئروں کو دی گئی تھی اور اس عرصے کے دوران اس میں چھیڑ چھاڑ (ٹیامپرنگ) کرنے کے پورے مواقع تھے۔
کیا ثبوت مٹادئے گئے؟!: اس لئے اگر2019کے پارلیمانی انتخابات کے دوران ای وی ایم اور وی وی پیاٹ میں چھیڑ چھاڑ کی گئی تھی توکسی طرف سے الزام لگنے پر اسے ثابت کرنے کے لئے اہم ترین ثبوت وی وی پیاٹ سلپس ہی تھیں جس پر ووٹر کی طرف سے منتخب کیے گئے امیدوار کا نام چھپا ہوتا ہے۔لیکن اب آر ٹی آئی کے اس جواب سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ سلِپس پوری طرح ضائع کی جاچکی ہیں، جس کا مطلب یہی ہے کہ اگر اس کے اندر کوئی اہم ترین اور ٹھوس ثبوت موجودتھا تو اسے مٹادیا گیا ہے۔اس لئے ہمارا ماننا ہے کہ اس طرح الیکشن کے قوانین کی خلاف ورزی ہوئی ہے۔
تعجب ہوتا ہے: ایک ایسے ملک میں جہاں ’افسرشاہی‘کے تحت دستاویزات اور فائلیں کئی دہائیوں تک دھول چاٹتی پڑی رہتی ہیں،حالانکہ ان میں سے بہت سی چیزیں کسی کام کی نہیں ہوتیں، تعجب ہوتا ہے کہ آخر کیوں اتنی غیر معمولی عجلت کے ساتھ وی وی پیاٹ سلِپس کو ٹھکانے لگادیا گیا؟!
قانونی ماہرین کی تشویش: قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ صرف چار مہینے کے عرصے میں وی وی پیاٹ کی چٹھیوں کو ضائع کرنا تشویش کی با ت ہے اور یہ قانون کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ الیکشن کمیشن کو اس عجلت کی وجوہات کے سلسلے میں وضاحت کرنا چاہیے۔ماہرین نے یہ بھی بتایا کہ الیکشن کمیشن کچھ خصوصی معاملا ت میں ہی چٹھیاں ضائع کرسکتا ہے جس کے لئے ٹھوس وجوہات ہونی چاہئیں۔ لیکن الیکشن کمیشن کے جواب کا پوری طرح جائزہ لینے کے بعد بھی وی وی پیاٹ چٹھیوں کوایک سال کے اندر ضائع کرنے کی ہمیں کوئی بھی وجہ نظر نہیں آئی۔
8مقامات پر مسئلہ تھا: دی کُونٹ نے یہ جانکاری حاصل کی ہے کہ راجستھان، ہماچل پردیش، منی پور، میگھالیہ اور آندھرا پردیش میں کم از کم 8 ایسے معاملات ہیں جہاں ای وی ایم اور وی وی پیاٹ سلپس کے ووٹنگ کی گنتی میں مطابقت نہیں پائی گئی تھی۔ جولائی 2019میں الیکشن کمیشن نے اس سلسلے میں تحقیقات کا حکم دیاتھا۔ دی کوُِنٹ نے آر ٹی آئی کے ذریعے اس تحقیقات کے نتائج جاننے کی کوشش کی تو الیکشن کمیشن نے نومبر2019 میں جواب دیا کہ اس تعلق سے ابھی کوئی جانکاری دستیاب نہیں ہے کیونکہ تاحال الیکشن کمیشن کے ماہرین (ٹیکنیکل ایکسپرٹس) کی کمیٹی اس معاملے پر غور کررہی ہے۔
اب ہمیں یہ نہیں معلوم ہے کہ الیکشن کمیشن نے ا ن 8مقامات کی وی وی پیاٹ سلِپس بھی ضائع کردی ہیں یا نہیں۔ البتہ الیکشن کمیشن کی طرف سے تمام ریاستوں کو مرکز کے زیرانتظام علاقوں کو وی وی پیاٹ سلپس ٹھکانے لگانے یا ضائع کردینے کا جومراسلہ ستمبر 2019 کو بھیجا گیا تھا اس کی نقل ہمارے پاس موجود ہے۔
کچھ اہم ترین سوالات: یہاں ایک بڑا ہی اہم سوال کھڑا ہوجاتا ہے کہ کیا وی وی پیاٹ اور ای وی ایم میں مطابقت نہ ہونے (مِس میاچ) والے ان 8مقامات کی چٹھیاں بھی ضائع کردی گئی ہیں؟ اگر ایسا ہے تو پھرصحیح نتیجہ اخذ کرنے کے لئے ووٹوں کی گنتی کس طرح کی جائے گی؟ اس لئے دوبارہ وہی سوال کرنا پڑتا ہے کہ آخر الیکشن کمیشن نے قوانین کی پابندی کیوں نہیں کی اور محض چار مہینوں کے اندر چٹھیاں کیوں ضائع کروادیں؟ کیا ہم یہ کہنے کی جرأت کریں کہ یہ ووٹوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرنے کے ثبوت مٹانے کی ایک کارروائی تھی۔الیکشن کمیشن نے ہندوستان کے اہم ترین انتخابات سے تعلق رکھنے والی وی وی پیاٹ سلپس کو کیوں محفوظ نہیں رکھا؟ ایک ایسا الیکشن جس سے دنیا کی سب بڑی جمہوریت کا وزیراعظم منتخب ہوتا ہے؟
دی کُوِنٹ نے تحریری طور پر اپنے سوالات الیکشن کمیشن کو بھیجے ہیں، دیکھنا ہے کہ وہاں سے کیا جوابات ملتے ہیں۔
(پورنیما اگروال کی خصوصی رپورٹ۔ بشکریہ: دی کُوِنٹ)