وزیر اعظم مسلم خواتین اور پسماندہ مسلمانوں کے لیے فکرمند ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ از: ظفر آغا
وزیر اعظم نریندر مودی ان دنوں مسلمانوں کے لیے ’فکرمند‘ ہیں۔ پچھلے ہفتے بھوپال میں اپنی ایک تقریر میں انہوں نے مسلم سماج میں رائج پسماندگی کے سلسلے میں اپنی فکر کا اظہار کیا۔ ان کو مسلم سماج کی دو باتوں کی خصوصاً فکر ہے۔ ایک عورت اور دوم مسلم پسماندہ طبقہ۔ یہ بات الگ ہے کہ ان کو آج تک ہندو سماج میں رائج چھوت چھات اور ذات پات کی لعنت کا خیال نہیں آیا۔ نا ہی انہوں نے دلت عورتوں کے ساتھ ہونے والے آئے دن کے مظالم پر کبھی اظہار خیال کیا۔ انہوں نے مسلم سماج میں رائج سماجی لعنتوں کے سلسلے میں یہ ذکر کیا کہ وہ ان کو ختم کرنے کے لئے یونیفارم سول کوڈ لانے والے ہیں۔ ان کے مطابق یونیفارم سول کوڈ مسلم سماج میں عورتوں کے ساتھ کی جا رہی ناانصافیوں کو ختم کر دے گا۔
قانونی اور سیاسی حلقوں میں اس سلسلہ میں ان دنوں بحث چل رہی ہے کہ نا جانے کیسا ہوگا یہ سول کوڈ۔ لیکن ابھی دو روز قبل اتراکھنڈ حکومت کی جانب سے اس سلسلہ میں جو نئے سول کوڈ کا ڈرافٹ منظر عام پر آیا ہے اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ نئے کوڈ کے چند اہم نکات کچھ یوں ہوں گے، اس مسودہ کے مطابق طلاق میں عورت و مرد کو برابر کا حق حلالہ اور عدت پر پابندی ، وراثت میں دونوں کو برابر کا حق اور شادی کے لیے رجسٹریشن لازمی ہوگا۔
اکیسویں صدی میں عورت اور مرد کے برابری کے حقوق کی مخالفت کرنا تو مشکل ہے لیکن یہاں سوال نیت کا ہے۔ سب واقف ہیں کہ کامن سول کوڈ آر ایس ایس کا دیریہ کور ایجنڈا ہے۔ سنگھ کے نظریہ کے مطابق ہندو راشٹر میں ہندوؤں کے علاوہ کسی دوسرے مذہبی گروہ کو کسی قسم کے خصوصی اختیارات نہیں مل سکتے۔ نئی پارلیمنٹ کی عمارت کے افتتاح کے وقت یہ اعلان تو ہو ہی گیا کہ ملک ہندو راشٹر ہے۔ تو پھر مسلم اقلیتوں کے حقوق کیوں برقرار ہیں۔ بی جے پی کا معروف کور ایجنڈا رام مندر تعمیر ، جموں و کشمیر کی دفعہ 370، تین طلاق کا خاتمہ کرنے جیسے اہم ایشوز مودی حکومت پہلے ہی ختم کر چکی ہے۔ اب محض پرسنل لا کا اشیو باقی ہے، دلچسپ بات یہ ہے کہ اب مسلمان اس حیثیت میں بھی نہیں ہے کہ وہ اس کی مخالفت کر سکیں۔ امکان ہے کہ کامن سول کوڈ جلد ہی پارلیمنٹ میں پاس ہو جائے گا۔ اس طرح بقول مودی ہندوستانی مسلم خاتون کو برابر کا درجہ مل جائے گا۔
وزیر اعظم کی دوسری اہم پریشانی مسلم پسماندگی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کل مسلم آبادی کا یہ غالباً 90 فیصد حصہ ہوگا۔ دراصل مسلم ووٹ بینک کا کور حصہ یہی ہے۔ اگر یہ گروہ بی جے پی کو ووٹ دینے لگے تو بی جے پی کا مسلم مسئلہ ہی حل ہو جائے گا۔ چنانچہ بی جے پی نے اس سلسلے میں وہی حکمت عملی اپنائی ہے جو اس کا طریقہ ہے۔ مسلم پسماندہ گروہ کا شور مچا کر بی جے پی مسلم سماج کو باٹنا چاہتی ہے تاکہ پسماندہ مسلمان بی جے پی کو ووٹ دینے لگے۔ یہ تو وقت ہی بتائےگا کہ ایسا ہوگا کہ نہیں لیکن اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے کہ مسلم سماج میں یہ لعنت صدیوں سے چلی آرہی ہے۔ جس کی طرف کسی نے کبھی دھیان نہیں دیا۔ دراصل مسلم پسماندہ وہ طبقہ ہے جو قبول اسلام سے قبل ہندو پسماندہ اور دلت آبادی سے تعلق رکھتاتھا۔ جب اسلام ہندوستان میں آیا اور خصوصاً صوفیا کرام نے اسلام کی سماجی برابری پر زور دیا تو اس سے متاثر ہو کر ایک کثیر تعداد ہندو پسماندہ اور دلت طبقے نے اس امید میں اسلام قبول کر لیا کہ مسلمان بننے کے بعد ان کو سماجی برابری کا حق حاصل ہو جائے گا ۔ لیکن تلخ حقیقت یہ ہے کہ آج تک ایسا نہیں ہوا۔ آج بھی مسلم سماج میں دیگر پسماندہ کو کم حیثیت سمجھا جاتا ہے۔ حد یہ ہے کہ مسلم سماج دو طبقوں میں بٹا ہوا ہے۔ ایک اشراف اور ایک اذلال، یعنی سید، پٹھان، شیخ جیسی قوموں کو اشراف کہا جاتا ہے، جو ہندو سماج کی طرح اعلیٰ ذات کا مرتبہ رکھتی ہے۔ اس کے برخلاف کثیر دیگر مسلم آبادی والی ذاتوں کو ذلیل یعنی ہندو سماج کی طرح نیچ سمجھا جاتا ہے۔
یہ ایک تلخ حقیقت ہے جس سے مسلم معاشرہ انکار نہیں کرسکتا۔ مسلم سماج کی اس کمزوری سے بی جے پی فائدہ اٹھانا چاہتی ہے۔شہری قانون کا ایک مقصد یہی ہے کہ اس پسماندہ طبقہ کے تمام حقوق سلف کرکے ان کو دوم درجے کا بنا دیا جائے تاکہ یہ گروہ ہندو سماج میں واپس لوٹ جائے۔ مسلم سماج نے اس رائج سماجی ناانصافی کی طرف کبھی دھیان نہیں دیا ، آج یہ نا انصافی اس کے لیے خطرہ بن گئی ہے۔
بہر حال صورت حال یہ ہے کہ 2024 کے لوک سبھا چناؤ سے قبل کامن سول کوڈ اور پسماندہ مسلم سماج کا زبردست شور اٹھے گا، جس کا لب و لباب یہ ہے کہ نریندر مودی اگلے چناؤ سے قبل ہندو راشٹر کا ایجنڈا مکمل کر لیں گے اور اس سے اب انہیں کوئی روک نہیں سکتا۔
(اس کالم کے تحت شائع مضامین کا ادارئے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے)