وزیر اعظم مسلم خواتین اور پسماندہ مسلمانوں کے لیے فکرمند ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ از: ظفر آغا

Source: S.O. News Service | Published on 2nd July 2023, 11:42 PM | اسپیشل رپورٹس | اداریہ |

وزیر اعظم نریندر مودی ان دنوں مسلمانوں کے لیے ’فکرمند‘ ہیں۔ پچھلے ہفتے بھوپال میں اپنی ایک تقریر میں انہوں نے مسلم سماج میں رائج پسماندگی کے سلسلے میں اپنی فکر کا اظہار کیا۔ ان کو مسلم سماج کی دو باتوں کی خصوصاً فکر ہے۔ ایک عورت اور دوم مسلم پسماندہ طبقہ۔ یہ بات الگ ہے کہ ان کو آج تک ہندو سماج میں رائج چھوت چھات اور ذات پات کی لعنت کا خیال نہیں آیا۔ نا ہی انہوں نے دلت عورتوں کے ساتھ ہونے والے آئے دن کے مظالم پر کبھی اظہار خیال کیا۔ انہوں نے مسلم سماج میں رائج سماجی لعنتوں کے سلسلے میں یہ ذکر کیا کہ وہ ان کو ختم کرنے کے لئے یونیفارم سول کوڈ لانے والے ہیں۔ ان کے مطابق یونیفارم سول کوڈ مسلم سماج میں عورتوں کے ساتھ کی جا رہی ناانصافیوں کو ختم کر دے گا۔

قانونی اور سیاسی حلقوں میں اس سلسلہ میں ان دنوں بحث چل رہی ہے کہ نا جانے کیسا ہوگا یہ سول کوڈ۔ لیکن ابھی دو روز قبل اتراکھنڈ حکومت کی جانب سے اس سلسلہ میں جو نئے سول کوڈ کا ڈرافٹ منظر عام پر آیا ہے اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ نئے کوڈ کے چند اہم نکات کچھ یوں ہوں گے، اس مسودہ کے مطابق طلاق میں عورت و مرد کو برابر کا حق حلالہ اور عدت پر پابندی ، وراثت میں دونوں کو برابر کا حق اور شادی کے لیے رجسٹریشن لازمی ہوگا۔

 اکیسویں صدی میں عورت اور مرد کے برابری کے حقوق کی مخالفت کرنا تو مشکل ہے لیکن یہاں سوال نیت کا ہے۔ سب واقف ہیں کہ کامن سول کوڈ آر ایس ایس کا دیریہ کور ایجنڈا ہے۔ سنگھ کے نظریہ کے مطابق ہندو راشٹر میں ہندوؤں کے علاوہ کسی دوسرے مذہبی گروہ کو کسی قسم کے خصوصی اختیارات نہیں مل سکتے۔ نئی پارلیمنٹ کی عمارت کے افتتاح کے وقت یہ اعلان تو ہو ہی گیا کہ ملک ہندو راشٹر ہے۔ تو پھر مسلم اقلیتوں کے حقوق کیوں برقرار ہیں۔ بی جے پی کا معروف کور ایجنڈا رام مندر تعمیر ، جموں و کشمیر کی دفعہ 370، تین طلاق کا خاتمہ کرنے جیسے اہم ایشوز مودی حکومت پہلے ہی ختم کر چکی ہے۔ اب محض پرسنل لا کا اشیو باقی ہے، دلچسپ بات یہ ہے کہ اب مسلمان اس حیثیت میں بھی نہیں ہے کہ وہ اس کی مخالفت کر سکیں۔ امکان ہے کہ کامن سول کوڈ جلد ہی پارلیمنٹ میں پاس ہو جائے گا۔ اس طرح بقول مودی ہندوستانی مسلم خاتون کو برابر کا درجہ مل جائے گا۔

وزیر اعظم کی دوسری اہم پریشانی مسلم پسماندگی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کل مسلم آبادی کا یہ غالباً 90 فیصد حصہ ہوگا۔ دراصل مسلم ووٹ بینک کا کور حصہ یہی ہے۔ اگر یہ گروہ بی جے پی کو ووٹ دینے لگے تو بی جے پی کا مسلم مسئلہ ہی حل ہو جائے گا۔ چنانچہ بی جے پی نے اس سلسلے میں وہی حکمت عملی اپنائی ہے جو اس کا طریقہ ہے۔ مسلم پسماندہ گروہ کا شور مچا کر بی جے پی مسلم سماج کو باٹنا چاہتی ہے تاکہ پسماندہ مسلمان بی جے پی کو ووٹ دینے لگے۔ یہ تو وقت ہی بتائےگا کہ ایسا ہوگا کہ نہیں لیکن اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے کہ مسلم سماج میں یہ لعنت صدیوں سے چلی آرہی ہے۔ جس کی طرف کسی نے کبھی دھیان نہیں دیا۔ دراصل مسلم پسماندہ وہ طبقہ ہے جو قبول اسلام سے قبل ہندو پسماندہ اور دلت آبادی سے تعلق رکھتاتھا۔ جب اسلام ہندوستان میں آیا اور خصوصاً صوفیا کرام نے اسلام کی سماجی برابری پر زور دیا تو اس سے متاثر ہو کر ایک کثیر تعداد ہندو پسماندہ اور دلت طبقے نے اس امید میں اسلام قبول کر لیا کہ مسلمان بننے کے بعد ان کو سماجی برابری کا حق حاصل ہو جائے گا ۔ لیکن تلخ حقیقت یہ ہے کہ آج تک ایسا نہیں ہوا۔ آج بھی مسلم سماج میں دیگر پسماندہ کو کم حیثیت سمجھا جاتا ہے۔ حد یہ ہے کہ مسلم سماج دو طبقوں میں بٹا ہوا ہے۔ ایک اشراف اور ایک اذلال، یعنی سید، پٹھان، شیخ جیسی قوموں کو اشراف کہا جاتا ہے، جو ہندو سماج کی طرح اعلیٰ ذات کا مرتبہ رکھتی ہے۔ اس کے برخلاف کثیر دیگر مسلم آبادی والی ذاتوں کو ذلیل یعنی ہندو سماج کی طرح نیچ سمجھا جاتا ہے۔

یہ ایک تلخ حقیقت ہے جس سے مسلم معاشرہ انکار نہیں کرسکتا۔ مسلم سماج کی اس کمزوری سے بی جے پی فائدہ اٹھانا چاہتی ہے۔شہری قانون کا ایک مقصد یہی ہے کہ اس پسماندہ طبقہ کے تمام حقوق سلف کرکے ان کو دوم درجے کا بنا دیا جائے تاکہ یہ گروہ ہندو سماج میں واپس لوٹ جائے۔ مسلم سماج نے اس رائج سماجی ناانصافی کی طرف کبھی دھیان نہیں دیا ، آج یہ نا انصافی اس کے لیے خطرہ بن گئی ہے۔

بہر حال صورت حال یہ ہے کہ 2024 کے لوک سبھا چناؤ سے قبل کامن سول کوڈ اور پسماندہ مسلم سماج کا زبردست شور اٹھے گا، جس کا لب و لباب یہ ہے کہ نریندر مودی اگلے چناؤ سے قبل ہندو راشٹر کا ایجنڈا مکمل کر لیں گے اور اس سے اب انہیں کوئی روک نہیں سکتا۔

(اس کالم کے تحت شائع مضامین کا ادارئے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے)

ایک نظر اس پر بھی

پرجول ’جنسی اسکینڈل‘سے اُٹھتے سوال ...آز: سہیل انجم

اس وقت ملکی سیاست میں تہلکہ مچا ہوا ہے۔ جنتا دل (ایس) اور بی جے پی شدید تنقیدوں کی زد پر ہیں۔ اس کی وجہ ایک ایسا واقعہ ہے جسے دنیا کا سب سے بڑا جنسی اسکینڈل کہا جا رہا ہے۔ قارئین ذرا سوچئے  کہ اگر آپ کو یہ معلوم ہو کہ ایک شخص نے، جو کہ رکن پارلیمنٹ ہے جو ایک سابق وزیر اعظم کا پوتا ...

بھٹکل تنظیم کے جنرل سکریٹری کا قوم کے نام اہم پیغام؛ اگر اب بھی ہم نہ جاگے تو۔۔۔۔۔۔۔؟ (تحریر: عبدالرقیب ایم جے ندوی)

پورے ہندوستان میں اس وقت پارلیمانی الیکشن کا موسم ہے. ہمارا ملک اس وقت بڑے نازک دور سے گزر رہا ہے. ملک کے موجودہ تشویشناک حالات کی روشنی میں ووٹ ڈالنا یہ ہمارا دستوری حق ہی نہیں بلکہ قومی, ملی, دینی,مذہبی اور انسانی فریضہ بھی ہے۔ گزشتہ 10 سالوں سے مرکز میں فاشسٹ اور فسطائی طاقت ...

تعلیمی وڈیو بنانے والے معروف یوٹیوبر دُھرو راٹھی کون ہیں ؟ ہندوستان کو آمریت کی طر ف بڑھنے سے روکنے کے لئے کیا ہے اُن کا پلان ؟

تعلیمی وڈیوبنانے والے دُھرو راٹھی جو اِ س وقت سُرخیوں میں  ہیں، موجودہ مودی حکومت کو اقتدار سے بے دخل کرنے کے لئے  کھل کر منظر عام پر آگئے ہیں، راٹھی اپنی یو ٹیوب وڈیو کے ذریعے عوام کو سمجھانے کی کوشش کررہے ہیں کہ موجودہ حکومت ان کے مفاد میں  نہیں ہے، عوام کو چاہئے کہ  اپنے ...

بھٹکل: بچے اورنوجوان دور درازاور غیر آباد علاقوں میں تیراکی کے لئے جانے پر مجبور کیوں ہیں ؟ مسجدوں کے ساتھ ہی کیوں نہ بنائے جائیں تالاب ؟

سیر و سیاحت سے دل صحت مند رہتا ہے اور تفریح انسان کی جسمانی اور ذہنی صحت کو بہتر بناتا ہے۔اسلام  سستی اور کاہلی کو پسند نہیں کرتا اسی طرح صحت مند زندگی گزارنے کے لیے غذائیت سے بھرپور خوراک کے ساتھ جسمانی سرگرمیوں کا ہونا بھی ضروری ہے۔ جسمانی سرگرمیوں میں جہاں مختلف قسم کی ورزش ...

یہ الیکشن ہے یا مذاق ؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آز: ڈاکٹر مظفر حسین غزالی

ایک طرف بی جے پی، این ڈی اے۔۔ جی نہیں وزیر اعظم نریندرمودی "اب کی بار چار سو پار"  کا نعرہ لگا رہے ہیں ۔ وہیں دوسری طرف حزب اختلاف کے مضبوط امیدواروں کا پرچہ نامزدگی رد کرنے کی  خبریں آرہی ہیں ۔ کھجوراؤ میں انڈیا اتحاد کے امیدوار کا پرچہ نامزدگی خارج کیا گیا ۔ اس نے برسراقتدار ...

بھٹکل سنڈے مارکیٹ: بیوپاریوں کا سڑک پر قبضہ - ٹریفک کے لئے بڑا مسئلہ 

شہر بڑا ہو یا چھوٹا قصبہ ہفتہ واری مارکیٹ عوام کی ایک اہم ضرورت ہوتی ہے، جہاں آس پاس کے گاوں، قریوں سے آنے والے کسانوں کو مناسب داموں پر روزمرہ ضرورت کی چیزیں اور خاص کرکے ترکاری ، پھل فروٹ جیسی زرعی پیدوار فروخت کرنے اور عوام کو سستے داموں پر اسے خریدنے کا ایک اچھا موقع ملتا ہے ...

یہ الیکشن ہے یا مذاق ؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آز: ڈاکٹر مظفر حسین غزالی

ایک طرف بی جے پی، این ڈی اے۔۔ جی نہیں وزیر اعظم نریندرمودی "اب کی بار چار سو پار"  کا نعرہ لگا رہے ہیں ۔ وہیں دوسری طرف حزب اختلاف کے مضبوط امیدواروں کا پرچہ نامزدگی رد کرنے کی  خبریں آرہی ہیں ۔ کھجوراؤ میں انڈیا اتحاد کے امیدوار کا پرچہ نامزدگی خارج کیا گیا ۔ اس نے برسراقتدار ...

اُترکنڑا میں جنتا دل ایس کی حالت نہ گھر کی نہ گھاٹ کی ! کمارا سوامی بن کر رہ گئے بغیر فوج کے کمانڈر !

ایسا لگتا ہے کہ جنتا دل ایس نے بی جے پی کے ساتھ شراکت کا جو فیصلہ کیا ہے اس سے ریاستی سطح پر ایک طرف کمارا سوامی بغیر فوج کے کمانڈر بن کر رہ گئے ہیں تو دوسری طرف ضلعی سطح پر کارکنان نہ ہونے کی وجہ سے پارٹی کے نام پر محض چند لیڈران ہی اپنا دربار چلا رہے ہیں جسے دیکھ کر کہا جا سکتا ہے ...

انتخابی سیاست میں خواتین کی حصہ داری کم کیوں ؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ڈاکٹر مظفر حسین غزالی

ملک کی پانچ ریاستوں کی ہواؤں میں انتخابی رنگ گھلا ہے ۔ ان میں نئی حکومت کو لے کر فیصلہ ہونا ہے ۔ کھیتوں میں جس طرح فصل پک رہی ہے ۔ سیاستداں اسی طرح ووٹوں کی فصل پکا رہے ہیں ۔ زندگی کی جدوجہد میں لگے جس عام آدمی کی کسی کو فکر نہیں تھی ۔ الیکشن آتے ہی اس کے سوکھے ساون میں بہار آنے کا ...

کیا کینرا پارلیمانی سیٹ پر جیتنے کی ذمہ داری دیشپانڈے نبھائیں گے ؟ کیا ضلع انچارج وزیر کا قلمدان تبدیل ہوگا !

پارلیمانی الیکشن قریب آنے کے ساتھ کانگریس پارٹی کی ریاستی سیاست میں بھی ہلچل اور تبدیلیوں کی ہوا چلنے لگی ہے ۔ ایک طرف نائب وزیر اعلیٰ ڈی کے شیو کمار اور وزیر اعلیٰ سدا رامیا کے بیچ اندرونی طور پر رسہ کشی جاری ہے تو دوسری طرف پارٹی کے اراکین اسمبلی وقتاً فوقتاً کوئی نہ کوئی ...

کانگریس بدلے گی کیا راجستھان کی روایت ؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ڈاکٹر مظفر حسین غزالی

ملک کی جن پانچ ریاستوں میں انتخابات ہو رہے ہیں راجستھان ان میں سے ایک ہے ۔ یہاں کانگریس اور بی جے پی کے درمیان اقتدار کی ادلا بدلی ہوتی رہی ہے ۔ اس مرتبہ راجستھان میں دونوں جماعتوں کی دھڑکن بڑھی ہوئی ہیں ۔ ایک کی اقتدار جانے کے ڈر سے اور دوسری کی اقتدار میں واپسی ہوگی یا نہیں اس ...

غزہ: پروپیگنڈے سے پرے کچھ اور بھی ہے! ۔۔۔۔۔۔۔ از: اعظم شہاب

غزہ و اسرائیل جنگ کی وہی خبریں ہم تک پہنچ رہی ہیں جو سامراجی میڈیا ہم تک پہنچانا چاہتا ہے۔ یہ خبریں عام طورپر اسرائیلی فوج کی بمباریوں اور غزہ میں جان و مال کی تباہیوں پرمبنی ہوتی ہیں۔ چونکہ جنگ جیتنے کا ایک اصول فریقِ مخالف کو اعصابی طور پر کمزور کرنا بھی ہوتا ہے، اس لیے اس طرح ...