بھٹکل: اُترکنڑامیں ’منکی فیور؛ 31 معاملوں کا انکشاف
بھٹکل،2/فروری (ایس او نیوز)ضلع اُترکنڑا میں ’منکی فیور‘ کے کم سے کم 31 معاملے سامنے آئے ہیں۔ جن میں سے 12 لوگوں کو علاج کی غرض سے اسپتال میں داخل کرایا گیا ہے جبکہ دیگر کا گھروں پر ہی علاج کیا جا رہا ہے۔ نیوز ایجنسی پی ٹی آئی نے اُترکنڑا ضلع کے محکمہ ہیلتھ کے حوالے سے اس بات کی جانکاری دی ہے۔
رپورٹ کے مطابق زیادہ تر معاملات ضلع کے سداپور میں پائے گئے ہیں۔ حکام کے مطابق پہلا کیس 16 جنوری کو سامنے آیا تھا جبکہ یکم فروری جمعہ تک ضلع میں منکی فیور کے معاملات بڑھ کر 31 تک پہنچ گئے ہیں۔
اس بخار کو مزید پھیلنے سے روکنے کے لیے لوگوں سے احتیاط برتنے کے لیے کہا جا رہا ہے اور اس تعلق سے ان میں بیداری بھی لائی جا رہی ہے۔
خیال رہے کہ اس بیماری کا نام کیاسانور فاریسٹ ڈیزیز (کے ایف ڈی) ہے اور اسے عام طور پر منکی فیور کہا جاتا ہے۔ یہ جنوبی ہندوستان میں پایا جانے والا ایک موسمی بخار ہے جو دماغی عضلات کو متاثر کرتا ہے۔ یہ انسانوں کے لیے خطرناک بھی ثابت ہو سکتا ہے۔ جنگلات اور اس کے آس پاس رہنے والوں کو اس وائرل فیور کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے کیونکہ اس بخار کے وائرس زیادہ تر جنگلاتی علاقوں پائے جاتے ہیں۔
’منکی فیور‘ فلاویویریڈائے ساخت سے تعلق رکھنے والے ایک وائرس کی وجہ سے ہوتا ہے۔ یہ وائرس اسی قبیلے کا وائرس ہوتا ہے جس سے زرد بخار ( یلو فیور) اور ڈینگو ہوتا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ بیماری انسانوں میں بندروں کے ذریعے پھیلتی ہے۔ انسان جب کسی متاثرہ بندر کے رابطے میں آتا ہے تو وہ اس کا شکار ہو جاتا ہے۔ ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر (ڈی ایچ او) ڈاکٹر نیرج نے کہا ہے کہ لوگوں کو خبردار کیا گیا ہے کہ وہ جنگلاتی علاقوں میں نہ جائیں۔ ’’جن لوگوں کو جنگلوں میں جانا ہوگا انہیں پیروں اور ہاتھوں جیسے جسم کے کھلے حصوں پر لگانے کے لیے تیل فراہم کیا جائے گا۔ واپس آنے پر انہیں اسے ٹھیک سے دھونا ہوگا۔‘‘
ڈاکٹر نیرج کے مطابق لوگوں کو بخار، کھانسی اور سردی کی علامت نظر آنے پر ہیلتھ ملازمین سے رابطہ کرنے کے لیے کہا گیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’’دوسری بار منکی فیور سے متاثر لوگوں میں بلڈ پریشر کی علامتیں ظاہر ہوسکتی ہیں اور ان کے جسم کی حرارت میں بھی اضافہ ہوسکتا ہے۔ لوگوں کو احتیاط برتنے کی ضرورت ہے کیونکہ پہلے لگائے گیے ٹیکے موثر طریقے سے کام نہیں کررہے ہیں۔ نئی ویکسین ابھی آنی باقی ہے، جب تک ویکسین نہیں آجاتی لوگوں کو محتاط رہنا ہوگا۔‘‘