کیا سعودی عرب اسرائیل کو تسلیم کرنے والا ہے؟
نیویارک، 2/ا گست (ایس او نیوز/ایجنسی)اسرائیل کے وزیرِ اعظم بنیامین نیتن یاہو نے 27 ارب ڈالر کے ایسے ریل منصوبے کا اعلان کیا ہے جو مستقبل میں تل ابیب کو سعودی عرب سے ملا سکتا ہے۔
نیتن یاہو کا یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب گزشتہ جمعہ کو صدر بائیڈن نے عندیہ دیا ہے کہ ممکنہ طور پر اسرائیل اور سعودی عرب کے سفارتی تعلقات کے لیے معاہدہ ہو سکتا ہے۔
اس سے قبل گزشتہ جمعرات کو صدر بائیڈن کے قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان نے سعودی عرب کا دورہ کیا تھا۔
اس دورے کے بارے میں مختلف ذرائع سے یہ بات سامنے آئی تھی کہ جیک سلیوان نے سعودی ولی عہد محمد بن سلمان سے ملاقات میں یمن سے جنگ بندی کے علاوہ ریاض اور تل ابیب کے درمیان سفارتی تعلقات کے قیام پر بھی بات چیت کی تھی۔
اس بارے میں سعودی حکومت نے تاحال کوئی موقف نہیں دیا۔ لیکن جمعہ کو صدر بائیڈن کی جانب سے کسی ممکنہ معاہدے کے اشارے کے بعد سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کے امکانات عالمی سطح پر زیرِ بحث ہیں۔
پیر کو خطے میں سعودی عرب اور اسرائیل کے حریف ملک ایران نے بھی سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان سفارتی تعلقات کے قیام کی خبروں پر ردِعمل دیا ہے۔
ایرانی وزارتِ خارجہ کے ترجمان ناصر کنعانی نے اپنے بیان میں کہا کہ ریاض اور تل ابیب کے درمیان تعلقات قائم ہونے سے خطے کے امن کو نقصان پہنچے گا۔
ان حالات میں وزیرِ اعظم نیتن یاہو کی جانب سے سعودی عرب سے تعلقات میں بہتری کے بیان کو اس پس منظر میں بھی دیکھا جا رہا ہے۔ تاہم بعض مبصرین کے مطابق ریلوے منصوبے کے اعلان میں دیگر عوامل بھی شامل ہیں۔
نیتن یاہو نے اتوار کو اسرائیل کے شمالی شہر کریات شمونہ سے بحیرہ احمر میں اسرائیلی سیاحتی مقام ایلات تک ریلوے منصوبے کا اعلان کیا اور ساتھ ہی یہ عندیہ بھی ظاہر کیا کہ یہ منصوبہ اسرائیل کو سعودی عرب اور جزیرہ نما عرب سے ملانے کا ذریعہ بھی بن سکتا ہے۔
واضح رہے کہ بحیرہ احمر کے کنارے آباد شہر ایلات عرب ملک اردن اور سعودی عرب کی سرحدوں کے قریب واقع ہے۔وزیرِ اعظم نیتن یاہو کی حکومت کو گزشتہ سات ماہ سے عدالتی اصلاحات پر اپوزیشن کے احتجاج کا سامنا ہے۔
خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق اس آئینی بحران کے باعث ان کی حکومت پر مغربی اتحادیوں کا اعتماد متاثر ہوا ہے۔ اسی لیے انہوں نے انفراسٹرکچر سے متعلق ’ون اسرائیل‘ سمیت انفراسٹرکچر سے متعلق اپنے منصوبوں کو آگے بڑھانا شروع کر دیا ہے۔
رائٹرز کے مطابق ’ون اسرائیل‘ کے منصوبے کے تحت نیتن یاہو کی حکومت پورے ملک میں حکومتی اور کاروباری مراکز تک سفر کے دورانیے میں کمی لانے کی دعویدار ہے۔
یہ منصوبہ کئی برسوں سے بار بار سامنے آتا رہا ہے، تاہم اس پر بہت کم کام ہو سکا تھا۔ 2010 میں بھی ایک ایسے ہی اربوں ڈالر کے منصوبے کا اعلان کیا گیا تھا لیکن اس پر مزید کام نہیں ہو سکا تھا۔
نیتن یاہو کا کہنا تھا کہ ان کی حکومت ان خطوط پر بھی کام کر رہی ہے۔ اسرئیلی وزیرِ خزانہ کے مطابق اسرائیل کے شمال و جنوب کو ملانے والے ہائی اسپیڈ ٹرین منصوبے کی تکمیل میں دس برس کا عرصہ لگے گا۔
تاہم ریل منصوبے کو نیتن یاہو کے اس بیان کی وجہ سے زیادہ اہمیت مل رہی جس میں انہوں نے کہا تھا کہ مستقبل میں ایلات تک جانے والا یہ ٹرین منصوبہ اسرائیل کو سعودی عرب اور جزیرہ نما عرب سے ملانے کا ذریعہ بھی بن سکتا ہے۔
معروف امریکی تجزیہ نگار تھامس فریڈ مین نے نیویارک ٹائمز میں شائع ہونے والے اپنے کالم میں لکھا تھا کہ جو بائیڈن اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات قائم کرنے کے لیے کام کر رہے ہیں۔ لیکن اُن کے بقول ان کوششوں میں کام یابی کے لیے ہر فریق کے بہت سے مطالبات پورے کرنے ہوں گے۔
فریڈمین نے دعویٰ کیا تھا کہ سعودی عرب، اسرائیل سے تعلقات قائم کرنے کے لیے امریکہ سے نیٹو طرز کا ایک دفاعی معاہدہ کرنا چاہتا ہے۔