بھٹکل میں منعقدہ عالمی رابطہ ادب اسلامی کا حضرت مولانا سید ابوالحسن علی حسنی ندوی رحمۃ اللہ علیہ کی دعوتی و اصلاحی خدمات پر سہ روزہ سیمینار اختتام پذیر
بھٹکل 6/فروری (ایس او نیوز) بھٹکل جامعہ اسلامیہ میں منعقدہ عالمی رابطہ ادب اسلامی کا حضرت مولانا سید ابوالحسن علی حسنی ندوی رحمۃ اللہ علیہ کی دعوتی و اصلاحی خدمات پر سہ روزہ سیمینار آج منگل کو کامیابی کے ساتھ اختتام پذیر ہوا جس میں کل چھ نشستیں ہوئیں۔ جامعہ اسلامیہ بھٹکل کی جانب سے جاری کردہ پریس ریلیز کے مطابق سیمینار میں ہندوستان کے مختلف شہروں دہلی، لکھنؤ، ممبئی، حیدرآباد، پونہ، اعظم گڑھ، بھوپال، پٹنہ، غازی آباد، مالیگاوں اور ہندوستان کے دیگر شہروں کے علاوہ بیرونی ممالک امریکہ، برطانیہ، کینیڈا، بنگلہ دیش، ملیشیا، عراق و ایران سے پونے تین سو مندوبین نے سیمینار میں شرکت کی اور مفکر اسلام کی شخصیت و خدمات پر88 گرانقدر مقالات پیش کیے ۔
آخری نشست آج 6 فروری 2018 بروز منگل صبح پونے دس بجے عبدالرحمن رکن الدین متعلم عالیہ رابعہ کی خوش الحان تلاوت سے شروع ہوئی، اور شعبۂ ثانویہ کے طالب علم عزیزم محمد صیام نے نعت شریف پیش کی۔
پریس ریلیز کے مطابق مقالات کا جب آغاز ہوا،اور مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی کی خدمات کا اعتراف کیا گیا تو ان کے مشن کو اپناکراسے آگے بڑھانے کی فکروں کو بیدار کرنے پر بھی پورا زور دیا گیا۔ اکابرین ملت کے مقالات اس بات کے گواہ تھے کہ علی میاں کی شخصیت دینی، اصلاحی، علمی اورعملی تھی۔ آپ نے نوجوانوں اور نئی نسل میں بڑھتے فکری الحاد کا سختی سے مقابلہ کیا، آپ کا مزاج نرم تھا لیکن اصلاح کی خاطرسخت پہلو بھی اختیار فرمایا، قلم کی نوک سے، زبان کی چاشنی سے لوگوں کے دلوں کو چیر کر گھر کر گئے، آپ کی امت کی فکر اور کڑھن نے آپ کو علی میاں بنایا، خوش کلامی اور مصالح کی رعایت کے ساتھ وزراء و قائدین سے گفتگو فرماتے، اور تادم آخر اسلام کا علم بلند کرتے رہے اور بھرپور زندگی گزار کر قابل رشک موت نے آپ کو اپنی آغوش میں لیا اور بارگاہ قدوسی میں پہنچایا، طبت حیا و طبت میتا مفکر اسلام کی زندگی کے درخشاں پہلؤوں میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ مفکر اسلام کو مفکر اسلام بنانے والی تین چیزیں ہیں: ۱) والدہ کی دعائیں ۲) مسلسل مخلصانہ محنت اور ۳) اہل اللہ کی نگاہِ کیمیا اثر
آپ نے استغنا و خودداری کی اعلیٰ مثال قائم کی،آپ نے قرآنی نظریہ کو اس طرح پیش کیا کہ ’تعلیم کی روح روح کی تعلیم ہے۔
جلسہ کے اخیر میں مولانا عمرین محفوظ رحمانی، مولانا خالد غازیپوری ندوی، مولانا سلمان حسینی ندوی وغیرھم نے اپنے احساسات وخیالات کا اظہار کرتے ہوئے آپ علیہ الرحمۃ کو جامع الکمالات و جامع الصفات شخصیت قرار دیا اور تمنا ظاہر کی کہ کاش کچھ مردان جفاکش آگے آئیں اور اس جذبہ کے ساتھ آگے بڑھیں کہ انہیں خاک کے آغوش میں تسبیح و مناجات اور وسعت افلاک میں تکبیر مسلسل کے جذبہ کے ساتھ بڑھنا ہے بڑھتے رہنا ہے۔ اخیر میں مولانا الیاس صاحب ندوی نے کچھ تجاویز پیش کیں جو دوران مقالات سامنے آئی تھیں۔ صدارتی خطاب میں حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی دامت برکاتہم نے کہی اور سنی ہوئی تمام باتوں کو اپنی زندگی میں لانے کی تلقین کی اور اس مشن کو صحیح نہج اور صحیح انداز و اسلوب سے آگے بڑھانے کی فکر پر ابھارا۔
واضح رہے کہ سیمینار جامعہ اسلامیہ بھٹکل کے زیر اہتمام مولانا ابوالحسن علی ندوی اسلامک اکیڈمی بھٹکل کے اشتراک سے منعقد کیا گیا تھا۔اسی مناسبت سے مقالات کی نشستیں جامعہ اسلامیہ جامعہ آباد اور مولانا ابوالحسن علی ندوی اسلامک اکیڈمی میں رہی، نیز مندوبین کو منکی ساحل سمندر کی سیر و تفریح کرائی گئی اور رات کی ایک نشست منکی میں بھی منعقد کی گئی۔