مہاراشٹر میں آج بھی وہی آیا رام، گیا رام کا کھلا کھیل ۔۔۔۔۔ خصوصی رپورٹ : ظفر آغا

Source: S.O. News Service | Published on 26th June 2022, 3:17 PM | اسپیشل رپورٹس | ملکی خبریں |

سنہ 1967 کا دور جس کو بھی یاد ہوگا اس کو ’آیا رام، گیا رام‘ بھی یاد ہوں گے۔ دراصل ان دنوں جس طرح مہاراشٹر حکومت کو گرانے کی کوشش ہو رہی ہے، اس پس منظر میں مجھے ’آیا رام، گیا رام‘ یاد آ گئے۔ اس وقت ہریانہ میں بھگوت دیال شرما کی سرکار تھی جو ایم ایل اے کے توڑ پھوڑ کے سبب خطرے میں آ گئی تھی۔ اس وقت تک ملک میں اینٹی ڈیفکیشن قانون نہیں بنا تھا۔ جب چاہے جو ایم ایل اے جدھر چاہے ووٹ کرے، اس کی ممبر شپ خطرے میں نہیں پڑتی تھی۔ ہریانہ کے ایک ایم ایل اے کا نام ہی ’گیا رام‘ تھا۔ حضرت نے اس موقع پر ایک ہی دن میں تین بار الگ الگ پارٹیوں کے لیے اسمبلی میں ووٹ کیا۔ ظاہر تھا کہ گیا رام ہر بار اپنا ووٹ بھنا رہے تھے۔ تب سے پیسہ لے کر اسمبلی میں ووٹ دینے والوں کا میڈیا میں نام ہی ’آیا رام، گیا رام‘ پڑ گیا۔

سنتے ہیں مہاراشٹر میں ایکناتھ شندے کو توڑنے کے لیے پہلے مول تول ہوا۔ جب وہ تیار نہیں ہوئے تو ان کو ای ڈی کی دھمکی دے دی گئی۔ صرف وہی نہیں بلکہ ان کے نزدیکی ممبران اسمبلی کے ساتھ بھی یہی نسخہ اپنایا گیا۔ اور پھر آپ دیکھ ہی رہے ہیں کہ اس وقت مہاراشٹر میں کیا تماشہ چل رہا ہے۔

لب و لباب یہ ہی ہے کہ سنہ 1967 سے اب تک سرکار گرانے کا وہی ’آیا رام، گیا رام‘ نسخہ چل رہا ہے۔ لیکن بی جے پی کا کمال یہ ہے کہ اس نسخہ کی کامیابی کے لیے ای ڈی کا بگھار بھی دیا جاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ پھر کون نہیں ٹوٹے گا۔ ایسے حالات میں پورے ہندوستان میں کسی بھی ریاست میں کسی بھی اپوزیشن پارٹی کی حکومت پانچ پورے سال کرے تو بس کمال ہی ہے۔

اب ملک میں اینٹی ڈیفیکشن قانون ہے۔ کسی بھی پارٹی کو توڑنے کے لیے کم از کم دو تہائی ایم ایل اے یا ممبران پارلیمنٹ درکار ہوتے ہیں۔ لیکن آج بھی یہ کام ’آیا رام، گیا رام‘ اصول پر ہی ہوتا ہے۔ کھل کر مول تول ہوتا ہے۔ اتنا نقد چاہیے۔ پالا بدلنے کے لیے پیسہ کمانے والا اچھا منترالے چاہیے۔ کچھ نہیں تو کسی نقد وصولی والے بورڈ کی چیئرمین شپ دیجیے۔ اکثر ایک آدھ مہنگی کار کی بھی مانگ ہوتی ہے۔ یہ سب تو ہر کسی کو پتہ ہی ہے۔ لیکن بی جے پی نے اس فارمولے میں ’ای ڈی‘ کا بھی بگھار لگا دیا ہے۔ یعنی اگر کوئی ان سب لالچ کے بعد بھی نہیں ٹوٹ رہا ہے تو پھر اس کی فائل بنا کر اس کو دکھا دی جاتی ہے اور کہہ دیا جاتا ہے کہ اگر نہیں مانے تو ای ڈی سے نپٹنا پڑے گا۔

گزشتہ روز 25 جون کو ایمرجنسی کی مذمت کا بازار گرم رہا۔ یقیناً ایمرجنسی کا نفاذ قابل مذمت ہے اور وہ آزاد ہندوستان کی تاریخ کا سیاہ باب تھا کیونکہ اس دور میں ملک کی جمہوریت پر سیاہ بادلوں کا سایہ تھا لیکن اِس دور کا کیا کیجیے کہ جب کوئی ایمرجنسی نافذ نہیں لیکن ایک سرکار کے خلاف ایک معمولی سے ٹوئٹ پر لوگوں کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے ٹھونسا جا رہا ہے۔ آج کے مقابلے ایمرجنسی کا دور کتنا خطرناک تھا اس سلسلے میں مجھے ایک واقعہ یاد آ رہا ہے۔ جی ہاں، ہم نے سنہ 1975 سے 1977 تک کا ایمرجنسی کا دور دیکھا تھا۔ ظاہر ہے کہ ہم نوجوان تھے۔ اس وقت الٰہ آباد یونیورسٹی میں پڑھ رہے تھے۔ اس نوجوانی میں ہمارا بہت وقت الٰہ آباد کافی ہاؤس میں گزرتا تھا۔ تمام نوجوانوں کی طرح ہم بھی اس وقت کی اندرا حکومت سے سخت ناراض تھے۔ ہم اور ہمارے دوست و احباب تقریباً روز ہی الٰہ آباد کافی ہاؤس میں اکٹھا ہوتے اور روز ہی یہ جا وہ جا گفتگو کا سلسلہ سیاست اور پھر حکومت کی مذمت تک پہنچ جاتا۔

ایسے ہی روز کے معمول کے دور میں ہم اور ہمارے دوست کافی ہاؤس میں بیٹھے تھے۔ وہی کافی کی خوشبو اور سگریٹ کے دھوئیں کے بیچ ہم سیاسی حالات پر محو گفتگو تھے۔ یکایک ہمارا ایک اور دوست آن پہنچا۔ اس کے ساتھ ایک اجنبی نوجوان اور تھا۔ اس نے نئے نوجوان کا ہم سب سے تعارف کروایا۔ پتہ چلا وہ حضرت پاکستان سے تشریف لائے ہیں اور ان کا تعلق ذوالفقار علی بھٹو کی پارٹی کے نوجوان وِنگ سے ہے۔ بھٹو اس وقت جیل میں تھے۔ ضیاء الحق کا دور تھا۔ بھٹو کی پارٹی پر پابندی لگی تھی۔ ہم سب نے ان کا گرم جوشی سے استقبال کیا۔ اور پھر اپنی سیاسی گفتگو میں محو ہو گئے۔ ہم کو یہ بھی یاد نہ رہا کہ ہمارے درمیان ایک باہر کا بھی شخص بیٹھا ہے۔

خیر، وہ نوجوان کافی دیر ہمارے ساتھ بیٹھا رہا اور خاموشی سے ہماری گفتگو سنتا رہا۔ پھر وہ جن کے ساتھ آیا تھا ان دونوں نے جانے کا ارادہ کیا۔ لیکن جانے سے قبل اس پاکستانی نوجوان نے ہم سب کو مخاطب کیا اور بولا ’اگر آپ برا نہ مانیں تو ہم ایک بات کہیں!‘ ہم سب ایک ساتھ ہی بول اٹھے، جی ہاں، جی ہاں، فرمائیے! اس نے ایک ٹھنڈی سانس بھری اور بولا: یہ کیسی ایمرجنسی ہے! ’اگر ہم اپنے ملک میں کافی ہاؤس میں بیٹھ کر اس طرح حکومت کے خلاف گفتگو کر رہے ہوتے تو فوج کے سپاہی اندر گھس کر کب کا ہم کو گرفتار کر چکے ہوتے۔‘ پہلے تو یہ سن کر ہم سب سناٹے میں آ گئے۔ پھر ایک دم سے سب ہی لوگ ہنس پڑے۔ وہ مسکرایا اور اپنے ساتھی کے ساتھ واپس چلا گیا۔

جی ہاں، آج ہندوستان میں ایک ٹوئٹ پر صحافی گرفتار ہو رہے ہیں۔ کوئی سینسر نہیں لیکن میڈیا حکومت کے قصیدوں سے بھرا ہے۔ عدلیہ کا لب و لہجہ بھی حکومت کا سا ہی نظر آ رہا ہے۔ اگر آپ احتجاج کریں تو بلڈوزر سے مکان مسمار کیے جا رہے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ پولیس احتجاج کرنے پر کانگریس کے دہلی ہیڈکوارٹر میں گھس کر احتجاج کرنے والوں کی پٹائی کر رہی ہے۔ یہ سب کچھ ایمرجنسی کے نفاذ کے بغیر ہو رہا ہے۔ اب آپ ہی فیصلہ کیجیے کہ اندرا گاندھی کی ایمرجنسی ایک عام آدمی کے لیے کتنی بری تھی۔

ایک نظر اس پر بھی

یہ الیکشن ہے یا مذاق ؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آز: ڈاکٹر مظفر حسین غزالی

ایک طرف بی جے پی، این ڈی اے۔۔ جی نہیں وزیر اعظم نریندرمودی "اب کی بار چار سو پار"  کا نعرہ لگا رہے ہیں ۔ وہیں دوسری طرف حزب اختلاف کے مضبوط امیدواروں کا پرچہ نامزدگی رد کرنے کی  خبریں آرہی ہیں ۔ کھجوراؤ میں انڈیا اتحاد کے امیدوار کا پرچہ نامزدگی خارج کیا گیا ۔ اس نے برسراقتدار ...

بھٹکل سنڈے مارکیٹ: بیوپاریوں کا سڑک پر قبضہ - ٹریفک کے لئے بڑا مسئلہ 

شہر بڑا ہو یا چھوٹا قصبہ ہفتہ واری مارکیٹ عوام کی ایک اہم ضرورت ہوتی ہے، جہاں آس پاس کے گاوں، قریوں سے آنے والے کسانوں کو مناسب داموں پر روزمرہ ضرورت کی چیزیں اور خاص کرکے ترکاری ، پھل فروٹ جیسی زرعی پیدوار فروخت کرنے اور عوام کو سستے داموں پر اسے خریدنے کا ایک اچھا موقع ملتا ہے ...

نئی زندگی چاہتا ہے بھٹکل کا صدیوں پرانا 'جمبور مٹھ تالاب'

بھٹکل کے اسار کیری، سونارکیری، بندر روڈ، ڈارنٹا سمیت کئی دیگر علاقوں کے لئے قدیم زمانے سے پینے اور استعمال کے صاف ستھرے پانی کا ایک اہم ذریعہ رہنے والے 'جمبور مٹھ تالاب' میں کچرے اور مٹی کے ڈھیر کی وجہ سے پانی کی مقدار بالکل کم ہوتی جا رہی ہے اور افسران کی بے توجہی کی وجہ سے پانی ...

بڑھتی نفرت کم ہوتی جمہوریت  ........ ڈاکٹر مظفر حسین غزالی

ملک میں عام انتخابات کی تاریخوں کا اعلان ہونے والا ہے ۔ انتخابی کمیشن الیکشن کی تاریخوں کے اعلان سے قبل تیاریوں میں مصروف ہے ۔ ملک میں کتنے ووٹرز ہیں، پچھلی بار سے اس بار کتنے نئے ووٹرز شامل ہوئے، نوجوان ووٹرز کی تعداد کتنی ہے، ایسے تمام اعداد و شمار آرہے ہیں ۔ سیاسی جماعتیں ...

مالی فراڈ کا نیا گھوٹالہ : "پِگ بُوچرنگ" - گزشتہ ایک سال میں 66 فیصد ہندوستانی ہوئے فریب کاری کا شکار۔۔۔۔۔۔۔(ایک تحقیقاتی رپورٹ)

ایکسپوژر مینجمنٹ کمپنی 'ٹینیبل' نے ایک نئی رپورٹ جاری کی ہے جس میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ پچھلے سال تقریباً دو تہائی (66 فیصد) ہندوستانی افراد آن لائن ڈیٹنگ یا رومانس اسکینڈل کا شکار ہوئے ہیں، جن میں سے 81 فیصد کو مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

مسلمان ہونا اب اس ملک میں گناہ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔از: ظفر آغا

انہدام اب ایک ’فیشن‘ بنتا جا رہا ہے۔ یہ ہم نہیں کہہ رہے بلکہ یہ مدھیہ پردیش ہائی کورٹ کا بیان ہے۔ بے شک مکان ہو یا دوکان ہو، ان کو بلڈوزر کے ذریعہ ڈھا دینا اب بی جے پی حکومت کے لیے ایک فیشن بن چکا ہے۔ لیکن عموماً اس فیشن کا نشانہ مسلم اقلیتی طبقہ ہی بنتا ہے۔ اس کی تازہ ترین مثال ...

وی وی پیٹ معاملہ: سپریم کورٹ نے اپنا فیصلہ دوبارہ محفوظ رکھا

’دی ہندو‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق، سپریم کورٹ نے بدھ کو مشاہدہ کیا کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں اور ووٹر کی تصدیق شدہ پیپر آڈٹ ٹریل میں مائیکرو کنٹرولرز کسی پارٹی یا امیدوار کے نام کو نہیں پہچانتے ہیں۔ جسٹس سنجیو کھنہ اور دیپانکر دتا کی بنچ الیکٹرونک ووٹنگ مشینوں کے ذریعے ڈالے ...

مودی حکومت میں بڑھی مہنگائی اور بے روزگاری کے سبب خواتین پر گھریلو تشدد میں ہوا اضافہ: الکا لامبا

 ’’چنڈی گڑھ لوک سبھا سیٹ پر اس مرتبہ الیکشن تاریخی ثابت ہوگا۔ یہاں کے انتخاب کی لہر ہریانہ، پنجاب میں کانگریس کی فتح طے کرے گی۔‘‘ یہ بیان قومی خاتون کانگریس کی صدر الکا لامبا نے چنڈی گڑھ میں دیا۔ ساتھ ہی انھوں نے کہا کہ وزیر اعظم نریندر مودی مہنگائی و بے روزگاری کے معاملے میں ...

ہتک عزتی کے معاملہ میں راہل گاندھی کو جھارکھنڈ ہائی کورٹ سے راحت، کارروائی پر روک

 کانگریس لیڈر راہل گاندھی کو چائیباسا کے ایم پی-ایم ایل اے کورٹ میں ان کے خلاف چل رہے ہتک عزتی کے معاملہ میں بڑی راحت ملی ہے۔ جھارکھنڈ ہائی کورٹ نے ایم پی-ایم ایل اے کورٹ میں جاری کارروائی پر روک لگا دی ہے۔

مودی کی گارنٹی بے اثر رہی، اس لئے جھوٹ کا سہارا لے رہے ہیں: پی چدمبرم

 کانگریس کے سینئر لیڈر پی چدمبرم نے کہا کہ 'دولت کی دوبارہ تقسیم' اور 'وراثتی ٹیکس' پر 'من گھڑت' تنازعہ ظاہر کرتا ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی اس لوک سبھا الیکشن میں خوفزدہ ہے اور جھوٹ کا سہارا لے رہی ہے کیونکہ 'مودی کی گارنٹی' کوئی اثر چھوڑنے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔

فوج کی بھرتی کا کیا ہوا، مورینہ بجلی چوری کا گڑھ کیوں بن گیا؟ کانگریس کے مودی سے سوالات

کانگریس نے وزیر اعظم مودی کے مدھیہ پردیش میں انتخابی جلسہ سے قبل ریاست کو درپیش کچھ مسائل پر سوالات پوچھے اور دعویٰ کیا کہ ریاست کے دیہی علاقوں، خاص طور پر قبائلی بستیوں میں ’سوچھ بھارت مشن‘ ناکام ثابت ہوا ہے۔

این سی پی – شردپوار نے جاری کیا اپنا انتخابی منشور، عورتوں کے تحفظ کو ترجیح دینے کا وعدہ

این سی پی - شرد پوار نے لوک سبھا انتخابات کے لیے اپنا منشور جاری کر دیا ہے۔ اس منشور میں خواتین کے تحفظ کو ترجیح دینے کا وعدہ کیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ایل پی جی سلنڈر کی قیمت کم کرنے کا بھی منشور میں وعدہ کیا گیا ہے۔ پارٹی نے اپنے منشور کا نام ’شپتھ پتر‘ (حلف نامہ) رکھا ہے۔