بھیما کوریگاؤں کیس: ملزم کے لیپ ٹاپ کو ہیک کرکےثبوت لیپ ٹاپ میں پہلے ہی پلانٹ کئے گئے تھے؛ معروف امریکن اخبار واشنگٹن پوسٹ کا خلاصہ
نئی دہلی 12 فروری (ایس او نیوز/ایجنسی ) بھیما کوریگاوں کیس کے تعلق سے ایک امریکی فرم نے دعوی کیا ہے کہ اس میں جو باتیں پولیس ثبوت کے طور پر پیش کررہی ہے، وہ دراصل ایک سازش کے تحت گرفتار شدگان کے لیپ ٹاپ میں پلانٹ کئے گئے تھے۔
امریکن اخبار واشنگٹن پوسٹ نے ایک تفصیلی رپورٹ میں اس بات کا حیرت انگیز انکشاف کیا ہے کہ اربن نکسل معاملے میں گرفتار رونا ولسن کے لیپ ٹاپ کو پہلے ہائیک کیا گیا پھر لیپ ٹاپ میں کچھ خطوط چھپاکر رکھے گئے اور لیپ ٹاپ میں ملے ہوئے خطوط و دیگر دستاویزات کی بنیاد پر سماجی کارکنان کی گرفتاری عمل میں آئی۔ اس طرح کی رپورٹ منظر عام پر آ نے کے بعد بھیما کوریگاوں کیس کے تمام گرفتار شدگان کو فوری طور پر رہا کرنے کا مطالبہ اب زور پکڑ رہا ہے۔
معروف انگریزی اخبار واشنگٹن پوسٹ کی رپورٹ کے مطابق پونے پولیس کے ذریعے دہلی کے سماجی کارکن روناولسن کے گھر پر چھاپہ مارکر انہیں گرفتار کرنے سے قریب ۲۲ ماہ قبل ایک سائبر حملے میں ان کے لیپ ٹاپ کومبینہ طور پر ہیک کیا گیاتھا اور کم از کم دس مجرمانہ خطوط لیپ ٹاپ میں پلانٹ کئے گئے تھے۔ امریکہ کے میساچیوٹس کی ڈیجیٹل فارنسک فرم آرسنل کنسلٹنگ کی ایک رپورٹ میں ان خطوط کے حقائق پر سنگین سوالات اٹھائے گئے ہیں جن کی بنیاد پر 2018 میں جانچ ایجنسیوں نے یلغار پریشد معاملے میں ولسن سمیت 15 سماجی کارکنان کو گرفتار کیا تھا۔
اس معاملے کے وکیل دفاع مہیر دیسانی نے کہا کہ اس رپورٹ کے ملنے کے بعد یہ ثابت ہوگیا ہے کہ سب کچھ سازش کے تحت کیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں انہوں نے بامبے ہائی کورٹ میں عرضداشت داخل کر کے اس معاملے کو پوری طرح سے ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ولسن کے کمپیوٹر پر 13 جون 2016 کوسائبر حملہ کیا گیا تھا اس وقت معاون ملزم ورورا رائوکے اکاؤنٹ کا استعمال کر کے روناولسن کو مشتبہ ای میل بھیجے گئے تھے۔ ان ای میلس میں وی وی راو کے اکاونٹ کا استعمال کرنے والے شخص نے ولسن کو ایک مخصوص دستاویز کو کھولنے کیلئے کئی بارکوشش کی تھی۔ اسی طرح ان کا اکاؤنٹ ہیک کیا گیاتھا۔
امریکن فرم آرسنل کنسلٹنگ کی رپورٹ اور ایڈوکیٹ مہیر دیسائی کے دعووں کے بعد اب اربن نکسل معاملے میں نیا موڑ آگیا ہے ایڈوکیٹ مہیر دیسائی نے بتایا کہ پونے عدالت کے حکم پر ملے ہارڈڈیسک کے کلون کو امریکہ کے ارسنل ڈیجیٹل فورنسیک لیب بھیجا گیا تھا، جس کی رپورٹ سے یہ خلاصہ ہوا ہے۔ سائبر ایکسپرٹ کا بھی کہنا ہے کہ ایسا ممکن ہے
بتایا گیا ہے کہ رپورٹ میں یہ اہم بات بھی شامل ہے کہ رونا ولسن کے لیپ ٹاپ میں مائیکروسافٹ ورڈ 2007 ورژن تھا، لیکن لیپ ٹاپ میں پائے گئے بعض دستاویزات ایم ایس ورڈ 2010 اور 2013 تک کے پی ڈی ایف فارمیٹ میں تھے۔ کمپوٹر ماہرین کی مانیں تو ہائیر ورژن کے ڈکومینٹس لوور ورژن میں بنائے جاسکتے ہیں لیکن لوور ورژن میں ہائیر ورژن کا ڈوکومینٹ نہیں بنایا جاسکتا۔ مطلب صاف ہے کہ رونا ولسن کے کمپوٹر میں وہ لیٹر ڈرافٹ نہیں ہوئے ہیں بلکہ ان لیٹروں کو وہاں محفوظ رکھا گیا تھا۔ سمجھا جارہا ہے کہ اس خلاصے سے دفاعی وکیل کے ہاتھ بڑا ثبوت مل گیا ہے اس لئے اب انہوں نے ممبئی ہائی کورٹ میں عرضی دے کر معاملہ خارج کرنے کی مانگ کی ہے۔