بھٹکل: مرغیوں کی دکانوں سے کچرا اٹھانے کا چارج روزانہ 200 روپے ۔ٹی ایم سی کے فیصلے پر دکانداروں نے جتایا اعتراض
بھٹکل، 12؍ جون(ایس او نیوز) مرغیوں کی دکانوں پر جو کچرا جمع ہوتا ہے اس کی نکاسی کے لئے بھٹکل ٹی ایم سی نے ہر دکان سے روزانہ 200 روپے وصول کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس پر دکانداروں نے شدید بے اطمینانی کا اظہار کیا ہے۔
یاد رہے کہ اس سے پہلے ہر دکان سے 50 روپے روزانہ کے حساب سے ماہانہ 1500 روپے وصول کیے جارہے تھے اور یہ کچرا ٹی ایم سی کی طرف سے ساگر روڈ پر واقع کچرا نکاسی مرکز پر ٹھکانے لگایا جاتا تھا۔ اس دوران بعض دکاندار اپنا کچرا وینکٹاپور ندی میں بھی پھینکا کرتے تھے جس کی وجہ سے وہاں کے مقامی لوگ پریشان تھے۔
پچھلے چھ مہینے قبل اڈپی کی ڈیسوزا کمپنی نے بھٹکل تعلقہ سے مرغی کی دکانوں کا کچرا اٹھانے کا ٹھیکہ لیا۔ اس سے جالی پٹن پنچایت اور بھٹکل ٹی ایم سی کے احاطہ میں کچرا نکاسی کا مسئلہ بہت کم ہوگیا۔ لیکن اب لاک ڈاون کے دوران ڈیسوزا کمپنی کی گاڑیاں بھٹکل میں آنا بند ہوگئیں۔ کمپنی نے شرط یہ رکھی کہ ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ ہونے کی وجہ سے کچرا نکاسی کا خرچ بہت بڑھ گیا ہے، اس لئے اگر وہ خرچ ٹی ایم سی برداشت کرے تو پھر وہ لوگ کچرا لے جانے کے لئے تیار ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ ایک ڈیڑھ مہینے سے کچرا نکاسی کا کام باقاعدگی سے نہیں ہوسکا۔
اس مسئلہ کو حل کرنے کے لئے جمعہ کے دن مرغی دکانوں کے مالکان کو میونسپالٹی میٹنگ ہال میں جمع کرکے یہ بتادیا گیا کہ اب کچرا ہٹانے کے چارجس بڑھا دئے گئے ہیں اس لئے انہیں روزانہ 200 روپے کے حساب سے ہر مہینہ 6000 روپے ادا کرنا ہوگا۔
ٹی ایم سی کے اس فیصلہ پر دکاندار وں نے شدید اعتراض جتاتے ہوئے کہہ رہے کہ کووڈ لاک ڈاون کی وجہ سے روانہ دکان کا خرچ ، کرایہ اور ملازم کی تنخواہ نکالنا ممکن نہیں رہا ہے۔ کاروبار تقریبا ٹھپ ہوگیا ہے، اور ایسے وقت میں ٹی ایم سی کی طرف سے ایسا بوجھ دکانداروں پر ڈالنا درست نہیں ہے، کیونکہ یہ ہمارے لئے ممکن نہیں ہے۔ کاروباریوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ ٹی ایم سی اور جالی پٹن پنچایت حدود میں مرغیوں کی سو سے زائد دکانیں ہیں ان میں سے صرف چند دکانیں ہی کچھ بڑے پیمانے پر کاروبار کرتی ہیں جبکہ زیادہ تر دکانیں بہت ہی چھوٹے پیمانے پر روزانہ روزی روٹی کمانے کا کام کر رہی ہیں۔ ایسے میں سب دکانوں پر یکساں طریقے سے چارج لاگو کرنا ٹھیک نہیں ہے۔ اس لئے ٹی ایم سی کے ذمہ داروں کو اس فیصلے پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے۔