بھٹکل15؍جولائی (ایس او نیوز) ایک چونکا دینے والے انکشاف میں، کرناٹکا کے گھاٹ والے حصوں اور پہاڑی علاقوں میں شدید بارش کے دوران ہورہی حالیہ لینڈ سلائیڈنگ کو لے کر ماہرین نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ سڑک تعمیر کرنے والے انجینرس، انجینرنگ کے بنیادی اُصولوں سے ہی واقف نہیں ہیں۔ان کے مطابق بار بار زمین اور چٹانیں کھسکنے کے واقعات کے لئے انجینروں کی کوتاہی اور ان کی غلطیاں ذمہ دار ہے۔ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ روڈ۔ انجینئرنگ کے اپنے سمسٹروں میں انجینئرس جو تعلیم حاصل کرتے ہیں، وہ اس پر ہی عمل درآمد نہیں کر رہے ہیں۔
انگریزی روزنامہ انڈین ایکسپریس نے اس تعلق سے رپورٹ شائع کرتے ہوئے کئی ایک ماہرین کے حوالوں سے اس بات کو ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ انجینروں کی کوتاہی اور بنیادی اُصولوں پر عمل نہ کرنے سے اس طرح کے حالات پیش آرہے ہیں۔
اخبار کے مطابق انڈین انسٹی ٹیوٹ آف سائنس میں ڈپارٹمنٹ آف سول انجینئرنگ کی پروفیسر جی مادھوی نے بتایا کہ گھاٹ کے ڈھلوان والے علاقے میں سڑکوں کی تعمیر یا اس کی توسیع کرتے وقت جس اصول اور زاویے سے پہاڑی کو کاٹنا چاہیے اورپہاڑی ڈھلان کے جس قدرتی زاویے کو برقرار رکھنا چاہیے اس کی طرف انجینئرس نے بالکل دھیان نہیں دیا ہے اور انجینئرنگ کے اصولوں کو نظر انداز کرکے کٹائی کی ہے۔ درختوں کو اکھاڑتے وقت مٹی کو بہت زیادہ ڈھیلا ہونے سے روکنے کے لئے مناسب احتیاط برتی جانی چاہئے تھی، مگر وہ نہیں برتی گئی ۔ سڑک کے بغل میں پانی نکاسی کے نالے نہیں بنائے گئے۔ کٹی ہوئی پہاڑی کو مزید ڈھلنے سے روکنے کے لئے درست انداز میں انتظام نہیں کیا گیا ۔ اسی کا یہ نتیجہ نکلا کہ تیز بارش ہوتے ہی زمین اور پہاڑی چٹانیں کھسکنے لگیں۔
ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ پہاڑی علاقے میں سڑکیں یا دیگر تعمیرات کے لئے ایک بار جب درخت کاٹے یا جڑ سے اکھاڑے جاتے ہیں تو اس علاقے کی مٹی ڈھیلی پڑ جاتی ہے جس کی وجہ سے وہاں باقی رہنے والے دوسرے درختوں کے لئے زمین کو تھامے رکھنا مشکل ہو جاتا ہے ۔ ایسے جنگل اور پہاڑی ڈھلان والے علاقوں میں ایک بار کٹائی کے بعد مٹی اور زمین کو مضبوطی سے جمنے کے لئے کم از کم 15 سال کا وقفہ ضروری ہوتا ہے ۔ مگر نئی نئی تعمیرات اور توسیعات کے پیش نظر ان علاقوں میں بار بار مداخلت کی جاتی ہے اور کھدائی اور کٹائی کا سلسلہ تھوڑے تھوڑے عرصہ سے چلتا رہتا ہے ۔ اس طرح کی حرکتیں مٹی کھسکنے اور چٹانیں ڈھلنے کا سبب بن جاتی ہیں۔
نام پوشیدہ رکھنے کی شرط پر نیشنل ہائی وے اتھاریٹی آف انڈیا کے ایک افسر نے بتایا کہ عام طور پر ہائی ویز پر یا خاص کرکے گھاٹ علاقے میں سڑک کا کام کرنا ہو تو ماہرین ارضیات کی ایک ٹیم سے کروانا ضروری ہے ۔ لیکن سروے کے بغیر ہی کام کرنے کے لئے تعمیری کام چھوٹے چھوٹے حصے میں کیا جاتا ہے ۔ کیونکہ چھوٹا کام ہوتو پھر سروے کرنا لازمی نہیں ہوتا ۔ اس طرح بڑے کام کو ٹکڑوں میں بانٹ کر پورا کیا جاتا ہے ۔ جیسا کہ شرڈی گھاٹ میں کیا گیا تھا ۔ اور اس کا نتیجہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ وہاں بار بار زمین کھسکنے کے واقعات ہو رہے ہیں ۔
روڈ انجینئر ایم این سری ہری نے بتایا کہ پہاڑی ڈھلان کی قدرتی حالت کو نہ بگاڑنے اور اس کی دیکھ بھال کرنے کے تعلق سے انجینئرنگ کورس کے چھٹویں سیمسٹر میں اسباق پڑھائے جاتے ہیں ۔ مگر اب انجینئرس عملاً ان اصولوں پر عمل نہیں کرتے ۔
نیشنل ہائی وے اتھاریٹی آف انڈیا اور پی ڈبلیو ڈی کے افسران نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ پہاڑی ڈھلان کو قوت دینے اور سنبھالنے والے پانی نکاسی کے نالے نہیں کھودے جارہے ہیں اور جہاں پر نالے موجود ہیں ان کی دیکھ بھال بھی نہیں کی جارہی ہے اور یہ بھی زمین کھسکنے کا ایک سبب ہے ۔